پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں جی 20 ممالک کی کانفرنس
ہورہی ہے اور یہ سمجھا جارہا ہے کہ اس کانفرنس کےد وران مقبوضہ کشمیر پر
بھارت کے غیر قانونی طور پر مسلط ہونے اور خاص طور پر دفعہ 370 کی منسوخی
کی اہمیت کو مدھم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ بین الاقوامی قوانین کی زد
میں آنے سے بچا جاسکے۔
19بہت اہم ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل یہ جی 20 کانفرنس پوری دنیا کی
تجارت کی سب سے اہم کثیر جہتی حد کہی جاسکتی ہے جن میں سے کسی بھی ملک کے
سربرا ہ دانش سے محروم نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ان ممالک کی جانب سے سربراہی
اجلاس میں شریک ہونے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔
خاص طور پر اگر قارئین کو یاد ہو تو اقوامِ متحدہ کی مقبوضہ کشمیر کے مسئلے
کے متعلق کم و بیش ایک درجن سے زائد قراردادیں ہیں جو اس مسئلے کے حل پر
زور دیتی ہیں، چنانچہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارت بہت ہی چالاکی اور
مکاری سے تمام تر غاصبانہ اقدامات کو دنیا کی نظروں سے دور کرنے کی کوشش
کررہا ہے کہ وہ کشمیر میں کیا کررہا ہے یانہیں۔
اگر ہم جی 20 ممالک کی اہمیت کی بات کریں تو پوری دنیا میں یہ فورم انتہائی
اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دنیا کی 60 فیصد آبادی اس کے تحت آتی ہے۔ اس کے
19 ممالک کے علاوہ اس کا بیسواں رکن یورپی یونین ہے جبکہ جی 20 کانفرنس
متنازعہ خطے میں ہونے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔
بھارت کی میزبانی میں جی 20 کانفرنس کے دوران بھارت ہمیشہ کی طرح اس بار
بھی اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کرے گاکہ سرحد پار سے دہشت گردی اور
کراسنگ ہورہی ہے جبکہ پاکستان کے خلاف بھارت کا یہ بے بنیاد پراپیگنڈہ
اقوامِ عالم کے اذہان کو زہر آلود کرنے سے کم نہیں۔
بھارت کی نریندر مودی حکومت نے پورے بھارت بالخصوص جموں و کشمیر پر وحشیانہ
مظالم ڈھائے۔ بی جے پی حکومت خطے کی ڈیموگرافک تبدیلی، فوجی اور ڈیجیٹل
محاصرہ کر چکی ہے جو انسانی حقوق کی بیّن خلاف ورزی ہے۔
بھارت بضد ہے کہ اسے عالمی قوانین کی پیروی نہ کرنی پڑے اور جی 20 ممالک کو
اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ اقوامِ متحدہ کے وفد نے مقبوضہ کشمیر میں
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاجائزہ لینے کیلئے رسائی کی درخواست کی تاہم
بھارت نے اسے ٹھکرایا اور وفد کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے نہیں دیا۔
عالمی رپورٹ کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 13 لاکھ چھرے بندوقوں سے
فائر کیے جس کے نتیجے میں 4000 سے زائد بچے اور بڑے نابینا ہو گئے۔
پاکستان نے 131صفحات پر مشتمل ڈوزوئیر بھی اقوامِ متحدہ کے حوالے کیا ہے جس
میں مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی مظالم کی داستان کا ہر باب بیان کیاگیا
ہے جبکہ یہ تمام تر باتیں اقوامِ متحدہ کےانسانی حقوق کمیشن کےرکن ممالک کے
علم میں ہیں۔ ہیومن رائٹس کمشنر نے خود یہ رپورٹ میڈیا کو پیش کی، تاہم
ڈوزوئیر پیش کرنے کے بعد پاکستان کو اس پر جتنی توجہ دینی چاہئے تھی، ہمارے
سیاسی حالات کے تناظر میں ویسی توجہ نہیں دی جاسکی۔
بنیادی طور پر بھارت جی 20 سمیت تمام تر عالمی فورمز کا استعمال کرتے ہوئے
اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں امریکاکے ساتھ مل کر چین
کو محدود کرنا بھی شامل ہے۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہوگا کہ بھارت امریکا کی پالیسیوں بالخصوص چین پر
قابو پانے کو ترجیح دینے پر مبنی حکمتِ عملی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
یہاں تک کہ بھارت نے امریکا سے دفاعی معاہدے بھی کیے جس میں بحری اڈے کے
معاہدے بھی شامل ہیں جبکہ جی 20 کے فورم پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یو
این او، او ای سی ڈی، ڈبلیو ٹی او ، آئی ایل او ان سب کو مدعو کیا جاتا ہے
اور اس بار بھی ان تمام اداروں کو دعوت دی جائے گی جس سے ہمارے لیے اور ان
ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی بج اٹھی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے
مخالف ہیں۔
اب تک نفرت انگیز تقاریر کے خلاف بات کی جارہی تھی۔ بھارت نے کثیر الجہتی
کا بھی استعمال کیا۔ دو طرفہ فورم کے طور پر بھارت نے امریکا کی خارجہ
پالیسی کے تحت چین کی روک تھام کے ایک اہم کھلاڑی کے طور پر اپنی پوزیشن کا
فائدہ اٹھا لیا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جی 20 منعقد کروا کر بھارت کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر
اور عالمی قانون کی اس صریح خلاف ورزی سے نجات مل گئی ہے۔ صنعت کو درپیش
چیلنجز بنیادی طور پر جی 20 ممالک کی سب سے بڑی طاقت ہے جو انسانی حقوق کے
اہم چیمپیئن کہلاتے ہیں اور وہ واقعی قانونی پلیٹ فارم سے اس مسئلے کواٹھا
سکتے ہیں۔
چین بھی اس کے اراکین میں سے ایک ہے جو جی 20 میں اپنا کردار ادا کرنے
کیلئے تیار ہوسکتا ہے اور یہ باور کرانے میں بھی اپنا فعال کردار ادا
کرسکتا ہے کہ بھارت میں عالمی قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 2649 کسی بھی انقلابی گروہ کو
اس معاملے کیلئے بااختیار بناتی ہے کہ وہ اپنے حق کیلئے آوازاٹھائے اور
اقوامِ عالم اس کی حمایت کریں۔ پاکستان کو روایتی طریقے سے ہٹ کر مقبوضہ
وادی کے مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ بہت سی سفارتی
و اخلاقی کاوشوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
|