سندھ کا ضلع تھر پارکرجہاں موت کا رقص تو جاری ہے ہی ساتھ
بھوک نے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہیں بڑوں کی خودکشیوں کے ساتھ ساتھ نومولود بچوں
کی اموات کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ ہم دوسروں کی اموات کو بھی شغل کے طور پر لیتے ہیں اور اپنے بچوں کے کان
میں درد ہو تو لیکر دبئی یا یورپ بھاگ جاتے ہیں اور اگر نہ جاسکیں تو ڈاکٹر
وہاں سے بلوا لیتے ہیں تھرپارکر ایسا علاقہ ہے جو معدنی ذخائر سے مالا مال
ہے مگر وہاں صاف پانی ہے اور نہ ہی صحت کی سہولتیں اگر ہسپتال ہیں تو وہ
بھی انتظامی بدنظمی کا شکار ڈاکٹر ہیں نہ ادویات محکمہ صحت کی رپورٹ کے
مطابق تھرپارکر کے سرکاری ہسپتالوں میں گزشتہ 14ماہ میں ایک ہزار سے زائد
بچے زندگی کی بازی ہار گئے تھر میں بھوک افلاس سے جڑی ماوں کے بچوں کی
اموات کا سلسلہ تھم نہیں رہا اور حکومتی اقدامات صرف زبانی جمع خرچ تک
محدود ہیں18 لاکھ آبادی پر مشتمل صحرائے تھر کے باسیوں کی مشکلات ہیں کہ
ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں تھرپارکر جسے تھر بھی کہا جاتا کا صدر دفتر
مٹھی میں ہے قیام پاکستان سے پہلے بھی ضلع تھر اور پارکر کے نام سے جانا
جاتا تھا تھرپارکرسندھ کا سب سے بڑا ہے جہاں ہندو آبادی بھی اکثریت میں ہے
تھرپارکر کا نام تھر (صحرائے تھر ) اور پارکر ( پار کرنا ) سے نکلا ہے تھر
کے علاقے کا تذکرہ رامائن میں بھی ملتا ہے جہاں اسے ''لاواناساگر'' ( نمک
کا سمندر ) کہا جاتا ہے وادی سندھ کی تہذیب کے زوال کے بعد سندھ پر مختلف
خاندانوں کی حکومت رہی ان خاندانوں میں سومرے، سمّے، ارغون، کلہور اور
تالپور شامل تھے ان حکمرانوں نے بنیادی طور پر سندھ کے وسطی اور مغربی حصوں
پر توجہ مرکوز کی جبکہ تھرپارکر سمیت مشرقی علاقوں کو بڑی حد تک نظر انداز
کیا گیا 1843 میں برصغیر پاک و ہند کے بڑے حصوں پر برطانوی فتح کے بعد
چارلس جیمز نیپیئر کمانڈر انچیف آف پریذیڈنسی آرمیز نے تالپور خاندان کو
شکست دی اور سندھ کو فتح کیا تھرپارکر سمیت مفتوحہ علاقوں کو کیچ ایجنسی
اور حیدرآباد کلکٹریٹ میں شامل کیا گیا برٹش انڈیا کی حکومت نے سندھ کو
کلکٹریٹس یا اضلاع میں تقسیم کر دیا جو انگریزوں کے مقرر کردہ زمینداروں کے
زیر انتظام تھے اور پھر بعد میں سندھ کو برطانوی ہند کے بمبئی پریذیڈنسی کا
حصہ بنا دیا گیا 1858 میں تھرپارکر کے آس پاس کا پورا علاقہ حیدرآباد ڈویژن
کا حصہ بن گیا اور 1860 میں اس علاقے کا نام تبدیل کرکے مشرقی سندھ سرحد
رکھ دیا گیا جس کا صدر دفتر امرکوٹ میں تھا۔ 1882 میں اسے تھر اور پارکر
ضلع کے طور پر دوبارہ منظم کیا گیا جس کی سربراہی ایک برطانوی ڈپٹی کمشنر
کر رہے تھے 1906 میں ضلعی ہیڈ کوارٹر امرکوٹ سے میرپور خاص منتقل کر دیا
گیا 31 اکتوبر 1990 کو ضلع کو تھرپارکر اور میرپور خاص اضلاع میں تقسیم کیا
گیا 17 اپریل 1993 کو عمر کوٹ ضلع تھرپارکر سے الگ کردیا 2017 کی ایچ ڈی
آئی رپورٹ میں 114 اضلاع میں تھرپارکر 109 ویں نمبر ہے جو 2013 میں 103 ویں
نمبرپر تھا تھرپارکر 2005 اور 2015 کے درمیان ترقی کی شرع میں دس بدترین
اضلاع میں بھی شامل ہے تھرپارکر کی 87% آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی
بسر کرترہی ہے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے تھرپارکر میں غذائی عدم
تحفظ کو کم کرنے کے لیے 2019 میں پاکستان کو 362,000 امریکی ڈالر اور 4,727
ملین ٹن خوراک کی امدادبھی فراہم کی گئی تھرپارکر میں صحت کی سہولیات تو نہ
ہونے کے برابر ہیں ہی ساتھ میں بھوک اور غذائیت کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے
جسکی وجہ سے ہر سال تھر پارکر میں تقریباً 1500 بچے موت کے منہ میں چلے
جاتے ہیں صوبائی، وفاقی اور بین الاقوامی حکام کی طرف سے انسانی بنیادوں پر
اقدامات کے باوجود خطے میں بہت کم بہتری دیکھنے میں آئی ہے خاص طور پر بچوں
کی شرح اموات میں 2019 کے درمیان 84 شیر خوار بچوں سمیت مجموعی طور پر 703
بچے غذائی قلت سے موت کے منہ میں چلے گئے تھرپارکر میں پینے کے پانی کے بھی
انتہائی ناقص انتظامات ہیں صرف 47 فیصد آبادی کو پینے کا پانی میسر ہے 60
فیصد گھرانے اپنی باری کے لیے کنوؤں پر ایک گھنٹے سے زیادہ انتظار کرتے ہیں
30 فیصد گھرانوں کو دو بالٹی پانی کے لیے 50 روپے سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا
ہے 85 فیصد گھرانے پانی لے جانے کے لیے اخال (اونٹ یا گدھے کے ذریعے اٹھائے
جانے والے ربڑ کے تھیلے) کا استعمال کرتے ہیں کچھ علاقوں میں پانی کے حصول
میں دو دن بھی لگ جاتے ہیں 75 فیصد خواتین اوسطاً 3 کلومیٹر سفر طے کرکے
پانی لاتی ہیں اور اپنے کام کے اوقات کا 52 فیصد وقت صرف پانی لانے میں ہی
گذر جاتا ہے تھر پارکر کے دیہی علاقے جو کہ ضلع کی 96 فیصد آبادی پر مشتمل
ہے کو زندگی کی کوئی سہولت میسر نہیں پورے تھرپارکر کے 44 فیصد گھرانوں کے
پاس بیت الخلاء ہی نہیں ہے کوئلے کے ذخائر کے ذریعے پاکستان کی توانائی کی
سپلائی کا زیادہ تر حصہ فراہم کرنے کے باوجود صرف 39 فیصد گھرانوں میں بجلی
کا استعمال ہوتا ہے تھرپارکر میں 99 فیصد گھرانے کھانا پکانے کے لیے لکڑی
کا استعمال کرتے ہیں دوسری سب سے بڑی سپلائی گیس ہے جسے صرف 0.7 فیصد
گھرانے استعمال کررہے ہیں تھرپارکر کو پورے ملک کا سب سے پرامن مقام بھی
سمجھا جاتا ہے اور یہ صدیوں پرانی بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی مشہور
ہے تھرپارکر کی ثقافت نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر کے لیے ایک مثال ہے یہاں کے
مسلمان باشندے گائے کی قربانی کسی قانون کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ ہندو
برادری کو تکلیف دینے سے بچنے کے لیے ایساکرتے ہیں ہندو باشندے محرم کے
دوران شادیوں اور تقریبات سے اجتناب کرتے ہیں یہاں کے ہندو بھی روزہ رکھتے
ہیں اور رمضان کے مہینے میں اپنے مسلمان پڑوسیوں کے لیے افطار ڈنر کا
اہتمام کرتے ہیں اور دونوں طرف عید اور دیوالی پر مٹھائی کا تبادلہ کرتے
ہیں اورمسلمان ہندوؤں کے نوراتری کے موقع پر گوشت کھانے سے بھی گریز کرتے
ہیں اور تو اور تھر پارکر میں فرقہ وارانہ تشدد کی کوئی مثال نہیں ملتی اس
ضلع میں غربت اور بے روزگاری کے باوجود جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں
تھرپارکر میں خشک سالی، غذائی قلت، بچوں کی اموات، خودکشی اور ٹڈی دل کے
حملے عام ہیں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے مطابق تھر پارکر میں
انفراسٹرکچر کی ترقی پر 70 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں اور اسکے باوجود
تھرپارکر کے لوگوں کامعیار زندگی 50 فیصد تک گر گیا ہے اس ضلع کو صوبائی
اسمبلی میں حلقہ 54، 55، 56، اور 57 جبکہ قومی اسمبلی میں 221 اور 222 کے
ذریعے نمائندگی بھی حاصل ہے 2018 کے انتخابات میں دونوں قومی حلقے اور چار
میں سے تین صوبائی حلقوں پر پی پی پی نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک صوبائی
نشست گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے جیتی ہوئی ہے یہاں پر لگنائٹ کوئلے کے
ذخائر کا تخمینہ 185.175 بلین ٹن ہے جو دنیا میں ساتویں بڑے ذخائرمیں سے
ایک ہے صرف اکیلے تھرپارکر ضلع میں قومی ذخائر کا 175.506 بلین ٹن (95%)
ذخیرہ ہونے کا تخمینہ ہے جس میں توانائی کا مواد سعودی عرب اور ایران کے
وسائل کے ذخائر کی مشترکہ توانائی کو پیچھے چھوڑ دے گا تھر پارکر میں معدنی
کان کنی کے کام صوبائی انتظامیہ کے تابع ہیں مگر نکمے اور نکٹو محکمے نے
کچھ نہیں کیا انہیں چاہیے کہ پنجاب میں محکمہ مائنز اینڈ منرل کا قبلہ درست
کرنے والے سیکریٹری بابر امان بابر اور ڈی جی راجہ منصور جیسے قابل افسران
ڈھونڈیں نہ ملیں تو ان سے رہنمائی لیکر تھرپارکر کے خزانے تلاش کریں تاکہ
یہ علاقہ نہ صرف ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے بلکہ ان سینکڑوں معصوم
بچوں کی بھی جان بچائی جاسکے جو علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں
جارہے ہیں ۔ |