لودھا کے لاکھ جھوٹ پر بھاری رئیس کا ایک سچ

زہر اور اس کا تریاق یکساں نہیں ہوتا لیکن وہ زہریلے اثرات کو زائل کردیتا ہے۔ اس کی ایک مثال مہاراشٹر میں اس وقت سامنے آئی جب بھیونڈی سے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی نے ایک خط لکھ کر لودھاکے غبارے کی ہوا نکال دی۔ اس طرح سچے کا بول بالا اور جھوٹے کا منہ کالا ہوگیا۔ مہاراشٹر کے اندر اپنی پہلی میعاد میں بی جے پی نے عوامی سطح پر فرقہ وارانہ سیاست سے گریز کیا۔ اس میں شک نہیں کہ ہجومی تشدد کا پہلا واقعہ مہاراشٹر کے شہر پونے میں پیش آیا مگر اس چنگاری کو پھیلنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ وہیں بجھا دیا گیا۔ گائے کے نام پر ناگپور کے قرب و جوار میں ایک مسلمان کی پٹائی ہوئی جو اتفاق سے بی جے پی کا کارکن تھا ۔ اس لیے برسرِ اقتدار جماعت نے اس کو رفع دفع کردیا ۔ مہاراشٹر کے اندر ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس میں گئو رکشکوں نے گائے کے ٹرک کو روکنے کی کوشش کی تو انہیں ڈرائیور اور اس کے ساتھیوں خوب مارا ۔ یہ خبر این ڈی ٹی وی پر آئی لیکن اس کودبا دیاگیا۔ یلغار پریشد کی آڑ میں شہری نکسل کا الزام لگا کر کئی بے قصور دانشوروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا مگر ان میں کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ معاملہ ان کی محبت میں نہیں بلکہ انہیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔

پہلی میعاد میں وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کی ساری توجہ پارٹی کے اندر اور باہر اپنے سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے پر مرکوز رہی۔ اس کے بعد وہ اقتدار سے محروم کردیئے گئے ۔ اس کا انہیں بہت افسوس تھا ۔ بہت ساری تگڑم بازی کے بعد شیوسینا کو توڑ کر اقتدار کی راہ ہموار کی گئی ۔ اس کا انہوں نے اعتراف بھی کیا کہ ’سبق سکھانا یعنی سزا دینا ضروری تھا‘ لیکن اس کے باوجود ہونٹوں سے جام چھِن گیا۔ انہیں ایک نہایت غیر مقبول وزیر اعلیٰ کی نیابت پر راضی ہونا پڑا۔ عزت نفس کا تو تقاضہ تھا کہ اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس کے نتیجے میں انہیں مرکزی وزیر بنادیا جاتا لیکن وہ اس کی ہمت نہیں جٹا سکے کیونکہ مودی جی کی کینہ پروری کے سبب راندۂ درگاہ ٹھہرائے جانے کا بھی خطرہ تھا۔ برہمن سماج عام طور پر اپنی چالاکی اور عیاری کے لیے تو مشہور ہے مگر دلیری سے اس کا واسطہ نہیں ہے اس لیے وہ لوگ سیاسی خطرات مول لینے سے گھبراتے ہیں اور سنگھ پریوار میں چونکہ نظم و ضبط کے نام پر ریڑھ کی ہڈی توڑ دی جاتی ہے اس لیے فڈ نویس سے یہ توقع ان کے دشمنوں کو تو دور دوستوں کو بھی نہیں تھی ۔

دیویندر فڈنویس اپنی نئی مدت کار میں غصہ سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کا علامتی اظہار انہوں نے ابتداء میں ایک نشست کے اندر غیر حاضر رہ کر کیا تھا مگر بعد میں من مٹاو ہو گیا۔ پارٹی ہائی کمان کا غصہ ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہوا تو اس کے ساتھ صوبے میں ’ہندو جن آکروش‘ ریلیوں کا سلسلہ شروع ہوگئیں ۔ بی جے پی کی اس سیاسی ضرورت کا سبب ایکناتھ شندے کے ذریعہ شدت پسند ہندوتوا نواز وں کو قریب لانے میں ناکامی تھا ۔ شندے کے ساتھ ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمان کی واضح اکثریت ہے کیونکہ ان لوگوں کو بدعنوانی کی وجہ سے جیل جانے کا خوف ہے اور اوپر سے وفاداری بدلنے پر مالامال ہونے کا موقع ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنی پارٹی سے غداری کردی لیکن عام شیوسینک اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہا ہے۔ اس کو قریب لانے کی خاطر بی جے پی کے لیے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا ناگزیر ہوگیا اور اسی لیے پورے صوبے میں ’ہندو جن آکروش‘ (ہندو عوام کا غصہ) ریلیوں کا اہتمام ہونے لگا۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے اس میں ایکناتھ کی شندے کے لوگ شریک نہیں ہوتے بلکہ بی جے پی کے رہنما پیش پیش رہتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کمل چھاپ کھیل تماشے میں بی جے پی شندے کو شریک نہیں کرنا چاہتی۔

ہندو توا نوازوں کی ایجاد کردہ اصطلاح ’لو جہاد ‘ یعنی دھوکہ دھڑی نکاح اور بزور قوت یا تبدیلیٔ مذہب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ دین ِ اسلام میں نکاح سے قبل لڑکی سے اجازت لی جاتی ہے اور اگر وہ انکار کردے تو ’وہ شادی نہیں ہوسکتی‘۔ مذہب کی تبدیلی سے متعلق بھی ’لااکرہ فی الدین‘ کی قرآنی ہدایت موجود ہونے کے سبب جبرو کراہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن جو لوگ ’لوجہاد‘ کا شور کرتے یا سنتے ہیں ان کو خود اپنے مذہب کی معلومات نہیں ہے تو دوسروں کے بارے میں کیونکر جان سکتے ہیں؟ اس ہنگامہ کا تعلق چونکہ خواتین کی فلاح و بہبود سے ہے اس لیے مہاراشٹر میں بہبود برائے خواتین و اطفال کے وزیر منگل پربھات لودھا نے ایوانِ اسمبلی کے اندر ایک نہایت احمقانہ بیان دے ڈالا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریاست بھر میں ہندو لڑکیوں کے مسلم لڑکوں سے زبردستی یا لالچ دے کر شادی کرنے کے ایک لاکھ واقعات پیش آئے ہیں۔ جعلی سادھو سنتوں اور نقلی ہندوتوا نوازوں کی مانند منگل پربھات لودھا کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا نکلا لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی تردید خود ان کےتحت چلنے والی وزارت نے کرکے انہیں زور دار طمانچہ رسید کردیا ۔

یہ حیرت انگیز تردید اپنے آپ نہیں ہوگئی ۔ اس کے لیے سماجوادی پارٹی رکن اسمبلی رئیس شیخ نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے خواتین و اطفال کی فلاح و بہبود کے سرکاری ادارے (ویمن اینڈ چائلڈ ویلفیئر کمیشن) کو خط لکھ کر لو جہاد کے واقعات کی تفصیل طلب کی ۔ رکن اسمبلی نے چونکہ استفسار کیا تھا اس لیے کمیشن نے لو جہاد کیسز کی جانچ پڑتال کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دےدی کیونکہ ایک وزیر کے ذریعہ کیا جانے والا بہت بڑا دعویٰ زیر بحث تھا۔ کمیٹی کی تفتیش سے پتہ چلا کہ مذکورہ دعویٰ صد فیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔ رئیس شیخ کو کمیشن نے اپنے جواب میں بتایا کہ لو جہاد سے متعلق مقدمات کی تعداد ’صفر‘ ہے۔یہ دونوں خطوط ذرائع ابلاغ میں موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کمیشن کی سربراہی لودھا کرتے ہیں اور انھوں نے ہی ریاست میں ایک لاکھ معاملات کا تذکرہ ایوان کے اندر کیا تھا ۔ اس کے بعد مہاراشٹر کی قانون ساز اسمبلی میں منگل پربھات کے خلاف کارروائی کا مطالبہ شروع ہوگیا کیونکہ ایوان میں جھوٹ بولنا ارکان کے استحقاق کی خلاف ورزی ہے ۔

اس انکشاف کے ہیرو رئیس شیخ نے تو وزیر منگل پربھات لودھا سے معافی مانگنے کے لیے کہا مگر کانگریس رکن اسمبلی اور سابق وزیر اسلم شیخ نے ریاستی وزیر سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ۔ این سی پی ترجمان کلائیڈ کرسٹو نے کہا چونکہ منگل پربھات کا اپنا محکمہ ان کے بیان سے متصادم ہے اس لیے انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ ریاست میں لو جہاد کے ایک لاکھ کیسزکیسے ہوگئے؟ اگر وہ ایسا نہیں کر سکے تو انہیں مہاراشٹر کے لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔اس منگل پربھات کی سیّ پٹیّ گم ہے۔ انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔اس طرح بازی الٹ گئی ۔ سماجوادی پارٹی نے منگل پربھات لودھا کے گھر کا گھیراو کرنے کی خاطر ’جن آکروش ریلی ‘ کا اعلان کردیا ۔ اس جن آکروش ریلی میں ابو عاصم اعظمی، رئیس شیخ اور معراج حسن صدیقی کے شانہ بشانہ کبیر موریہ ، رام شنکر تیواری ، جگدیش بھوشن یادو، اشوک لوکھنڈے جیسے نامور غیر مسلم بھی موجود تھے کیونکہ اس بار ہندو مسلم کا نہیں بلکہ سچ اور جھوٹ کا معاملہ تھا ۔ وہ ممبئی پولیس جو جھوٹ پھیلانے والے جلوس کو اجازت دیتی رہی اس نے اس ریلی کو منگل پربھات لودھا کے گھر سے بہت روک دیا لیکن اس موقع پر پورا میڈیا وہاں پر موجود تھا ۔اس طرح پھر ایک بار بی جے پی والوں کی کذب گوئی کھل کر سامنے آگئی۔

ہندو جن آکروش ریلی میں ’لوجہاد‘ کے علاوہ ’لینڈ جہاد‘ کا بھی غلغلہ ہے۔ اس بابت جب رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بغیر کسی مداہنت کے کہا کہ لینڈ جہاد تو مسلمانوں کو کرنا چاہیے کیونکہ ان کی لاکھوں ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے۔ اپنی کھوئی ہوئی زمین کو واپس لینے کے لیے اگر مسلمان جہاد نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس جائیداد پر کس نے قبضہ کیا ؟ اس کا جواب ہے کہ یہ لینڈ مافیا کی کارستانی ہے اور اس کی پردہ پوشی کے لیے لینڈ جہاد کا ہواّ کھڑا کیا جارہا ہے۔ مہاراشٹر کے اندر بلڈرس کا جو لینڈ مافیا ہے اس میں ایک اہم نام خود منگل پربھات لودھا کا ہے۔ وہ اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کی خاطر بی جے پی کی پناہ میں آئے تو پارٹی اپنے فائدے کے لیے ان کو ممبئی اکائی کا صدر بنادیا ۔ اس کی وجہ آشیش شیلار کے ساتھ فڈنویس کی مخاصمت تھی۔ اب کی بار دیویندر فڈنویس نےآشیش شیلار ممبئی کا صدر بنوا کر منگل پربھات کووزارت سے نواز دیا۔ مسلمان اگر واقعی اپنا حق حاصل کرنے کی خاطر ’لینڈ جہاد‘ کرنا شروع کردیں تو لودھا جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی ہوجائیں گی اور ’لوجہاد‘ کی مانند ’لینڈ جہاد‘ معاملے میں بھی یہ سرکار اوندھے منہ گر جائے گی ۔ ویسے رئیس شیخ نے جس طرح بی جے پی کو بے نقاب کیا ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے بڑی ذہانت سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449527 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.