وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی ہدایت پر حکومت نے غریب
شہریوں کے لئے نا صرف رمضان پیکیج کا اعلان کر دیا ہے بلکہ اس پر عملدرامد
بھی شروع ہو گیا ہے جس کے تحت غریب لوگوں کو مفت آٹا اور مفت ذلت کی رمضان
میں فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔جہاں جہاں آٹا فراہم کرنے کی سہولت ہے وہاں
سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔ ہزاروں لوگوں کے ہجوم کو چند سو آٹے کے بیگ
مہیا کئے جاتے ہیں۔ چند لوگ وہ آٹے کا بیگ حاصل کرتے ہیں باقی ذلت سمیت کر
گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ حکومت نے آٹا فراہمی کے لئے کوئی پلاننگ نہیں کی کہ
یہ آٹا کن لوگوں کو کن شرائط پر مہیا کرنا ہے۔کچھ لوگ گھر کے کسی نہ کسی
فرد کے نام پر آٹے کا تھیلہ روز حاصل کریں گے اور آٹے کے اس بحران میں
دکانداروں یا ضرورت مندوں میں بازار سے کم ریٹ پر آسانی سے بیچ لیں
گے۔جسمانی اعتبار سے مضبوط عام مزدور جس نے سارا دن سخت قسم کی کوئی دیہاڑی
لگانی ہے ۔ سارا دن لائن میں کھڑا ہو کر ایک دو تھیلے حاصل کرکے آسانی سے
معقول پیسے کمائے گا۔جب کہ کمزور لوگ اور عورتیں دھکے کھا کر شام کو مایوسی
میں گھر لوٹ جائیں گے۔جب تک سپلائی اور ڈیمانڈ کو ایک سطح پر لایا نہیں
جاتا ، لوگ خوار ہوتے رہیں گے۔عوامی لائنوں میں موت اسی طرح بٹتی رہے گی۔
آٹا اس خطے کے عوام کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپکے پاس روٹی ہو تو آپ پیاز ،
چٹنی، اچار یا صرف پانی سے بھی کھا لیتے ہو۔ میں دو تین دن پہلے ایک جگہ
ایک سکیم میں کسی شخص کو ملنے گیا۔ اکا دکا مکان اور باقی سب ویرانہ۔ کس سے
پتہ پوچھا جائے۔ دور ایک کرسی پر چوکیدار نظر آیا۔ میں گاڑی اس کے پاس لے
گیا۔ وہ بیچارہ ایک سوکھی ہوئی روٹی پانی کے ساتھ کھا رہا تھا۔ مجھے دیکھ
کر روٹی رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ میری مدد کی اور پوچھا کھانا کھائیں گے۔ مجھے
اس شخص کا کھانا دیکھ کر پہلے ہی افسوس ہو رہا تھا۔اکڑی ہوئی روٹی اور پانی
مگر پوچھنے کی روایت اس کی خوش اخلاقی کی زندہ مثال تھی۔ وہ پٹھان تھا اور
اپنے گھر سے دور اس اکڑی، سوکھی روٹی سے گزارہ کرکے اپنے گھر والوں کی بھوک
مٹانے کی سعی کر رہا تھا۔اس خطے کے لوگوں کے پاس صرف آٹا بھی ہو تو اپنی
بھوک سے جنگ کر لیتے ہیں۔
آٹے کی لائنوں میں ابتری کی صورت حال یہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ روزانہ لڑائی
جھگڑے ہو رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ایک دو شخص آٹے کی لائنوں میں
اپنی زندگی ہار رہے ہیں۔یہ نظم ونسق کا فقدان ہے جس کے باعث صورت حال سنگین
ہوتی جا رہی ہے۔زبردستی کی حکومت کو آسرا دینے کے لئے ٹھوس اقدامات کی
ضرورت ہوتی ہے۔ لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں لیکن مہنگائی سے نجات کے لئے زندگی
داؤ پر لگانے کی ایسی کھلی دعوت حکومت کی قدر میں اضافے کی بجائے کمی کا
باعث ہو گی۔اس سارے کھیل میں سرکاری افسروں اور سیاسی لیڈروں کا ایک مخصوص
گروہ تو بہت کچھ حاصل کر لے گا مگر حکومت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مکمل
ناکام رہے گی۔سستے بازار جو رمضان میں خصوصی طور پر غریبوں کی فلاح کے لئے
لگائے گئے ہیں ان کی اصلیت سندھ کے گورنر نے صحافیوں کے سامنے کھل پر بیان
کی ہے اور افسوس کا اظہار کیا ہے کہ غریبوں کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس
کا کچھ فائدہ غریبوں تک نہیں پہنچ رہا۔انہوں نے کہا کہ لسٹ پر کچھ لکھا ہے
اور بیچا کسی اور قیمت پر جارہا ہے۔ سرکاری افسروں کی فوج ظفر موج کیا
کارکردگی دکھا رہی ہے۔گورنر صاحب کافی حد تک ٹھیک کہتے ہیں۔ ایسی ساری
رعایتیں عوام کو کچھ فائدہ بھی دیتی ہیں مگر سرکاری سطح پر لوٹ مار کا جو
نظام ہے وہ پوری طرح متحرک ہوتا ہے اور سب سے زیادہ ان مراعات سے لوٹ مار
سے وابستہ مافیا ہی فائدہ اٹھاتا ہے۔
کافی سال پہلے شہباز شریف ہی کا دور تھا۔ حکومت نے عوام کو تنوروں پر سستی
روٹی مہیا کرنے کا فیصلہ کیا اور لاہور کے تمام تنوروں کو سستا آٹا فراہم
کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں کو سستی روٹی ملے۔میرا ایک واقف ایک سرکاری
ادارے میں سٹور سپروائزر تھا۔ مجھے کچھ کام تھا۔ میں نے اسے بلایا تو کہنے
لگا کہ وہ ہفتہ بھر آ نہیں سکے گا اس لئے کہ اسے گندم کی پانچ ہزار بوریاں
تیار کرا کر فوری ملوں کوبھیجنی ہیں تاکہ تنور والوں کو سستا آٹا فراہم کر
کے لوگون کو سستی روٹی مہیا کی جائے۔میں نے کہا کہ بوریاں تمہارے پاس
ہیں،ٹرک پر لدواؤ اور فارغ ہو جاؤ۔ وہ ہنس کر کہنے لگا۔ یہ فون پر بتانے کی
بات نہیں، مگر ایک لمبا کام ہے، آ کر بتاؤں گا۔کوئی پندرہ دن بعد کام سے
فارغ ہو کر میرے پاس آیا تو مجھے اصل کہانی پتہ چلی۔چونکہ حکومت رعایتی
قیمت پر گندم دے رہی تھی ، اس لئے ہر حرام خور اس میں سے حصہ وصول کرنا
چاہتا تھا۔ پانچ ہزار بوری کی پہلی قسط دینے والوں نے ایک ٹھیکیدار کو
بلایاکہ وہ گندم کے تھیلوں کو دوبارہ بھرے گااور ہر تھیلے سے کم از کم
پندرہ کلو گندم نکال کر اس میں پندرہ کلو مٹی مکس کرے گا۔ جو پندرہ کلو
گندم نکالی گئی ہوتی ہے وہ ٹھیکیدار اور محکمے کے لوگ آپس میں بانٹ لیتے
ہیں۔میں نے کہا یہ توظلم ہے ۔ لوگ مٹی کیسے کھا لیتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ
آٹا بنانے سے پہلے مل والے اسے صاف کرتے ہیں۔ زیادہ مٹی نکل جاتی ہے جو
تھوڑی رہ جاتی ہے وہ اس لکڑ ہضم ، پتھر ہضم عوام کو محسوس ہی نہیں ہوتی۔ جو
محسوس کر سکتے ہیں یہ آٹا ان کے لئے ہوتا ہی نہیں۔مگر ان کی سو بوری جو
تیار ہونا ہوتی ہے وہ کم ہو جاتی ہے اور پانچ چھ فیصد کمی کے بعد وہ
پچانویں کے قریب بوریاں تیار کر پاتے ہیں۔ بہتی گنگا میں وہ بھی اپنے ہاتھ
دھونے کے لئے نوے بوریاں سپلائی کرتے اور رسید سو کی وصول کرتے ہیں۔ہدف تک
پہنچنے تک پچاس فیصد راستے میں غائب ہو جاتی ہیں۔ حکومتی پراپیگنڈہ میں تو
پوری تعداد کی تشہیر ہوتی ہے مگر اصل ہدف کو پچاس فیصد بھی مل نہیں پاتا۔
تحقیق کرنے کے لئے میں اس حو الے سے ایک بڑے تنور پر بیٹھا مالکان سے بات
کر رہا تھا تو پتہ چلا کہ ان کے روز آٹے کے ساٹھ تھیلے خرچ ہوتے ہیں مگر
کوٹہ چالیس کا ملا ہے۔ مگر انہیں روزانہ پندرہ سے بیس تک تھیلے ملتے ہیں۔
کوٹے کے مطابق پورے چالیس مل جائیں اس کی ابھی تک حسرت ہی ہے مگر کوئی امید
نہیں۔ ہمیشہ اطلاع ملتی ہے کہ پیچھے سے سپلائی کم ہے کیا کریں۔سپلائی کم
کیا ہونی ہے۔ بندر بانٹ کوئی چیز مستحق لوگوں تک پہنچنے ہی نہیں دیتی۔ویسے
حکومت کوئی بھی ہو ، لوٹ مار مافیا پر کوئی قابو نہیں پا سکتا۔ ویسے میرے
خیال میں بہتر تھا کہ کچھ نہ کچھ معمولی قیمت مقرر کرکے آٹے کی تقسیم باعزت
انداز میں کی جاتی۔ لوگوں کو بھکاری بنانے کی بجائے کچھ خرچ کرکے چیز حاصل
کرنے کی ترغیب ان کے اندر عزت نفس پیدا کرتی ہے۔
|