از خود نوٹس کے فیصلہ آنے پر اتنا واویلہ کیوں

عدالتی نظام کا مقصد صرف تنازعات کو حل کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کو برقرار رکھنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام عدلیہ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ اور معاشرے بھی اپنی توقع کا اظہار کرتا ہے کہ جج باشعور ، سمجھدار ، جذبہ حب سے سرشار ، باوقار اور ہر طرح کی سیاست و اقراباروی سے غیر جانبدار رہینگے۔ اور عدالتی نظام میں مقدار کی نسبت معیار کو زیادہ اہمیت دینگے. ہر پاکستانی کے لیے آخری سہارا وہ عدلیہ کو ہی سمجھتا ہے. جو اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ 75 سالہ دور جمہوریت ، آمریت غرض ہر طرح کی مفادات و منافقت کے بہروپیے چہرے حکمرانوں کے دور ادوار سے گزرنے کے باوجود بھی پاکستانی عوام کو عدلیہ کے نظام میں لوگوں کو اعتماد ہے۔ عدالتی نظام کا مقصد صرف تنازعات کو حل کرنا نہیں ہے بلکہ پاکستان کو آئینی طریقے سے عدل و انصاف کو برقرار رکھنا اور عدلیہ کو اپنے کردار و عمل سے روشن مثال بنانا ہے.اس ہی پاکستان آئین کیے مطابق سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کا فیصلہ دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہر صوبائی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ صوبے کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔عام انتخابات کا آئین کے مینڈیٹ کے مطابق اعلان بھی اس آئینی ذمہ داری میں شامل ہے۔پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے صوبائی انتیخابات پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس فیصلے میں یہ ہی اپنے فیصلہ میں کہا کہ ہر صوبائی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ صوبے کو آئین کے مطابق چلایا جائے. اور 90 روز میں پر امن الیکشن کرائے جایں ۔عام انتخابات کا آئین کے مینڈیٹ کے مطابق اعلان بھی اس آئینی ذمہ داری میں شامل ہے۔اس ہی فیصلہ کے بعد الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق انتخابات کی تاریخ دی اب سپریم کورٹ نے اپنے ازخود نوٹس پر جو دن عدالتی کاروائی میں گزرے اس کو مدنظر دیکھتے ہوئے پنجاب میں صوبائی الیکشن کی تاریخ 14 مئی کو ہونے کی نوید سنائی اور وفاقی حکومت اور پنجاب کی نگراں صوبائی حکومت کو تاکید کی کہ پنجاب میں 14 مئی کو پر امن الیکشن کرانے کی نوید سنائی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق الیکشن کمیشن انتیخاب کرانےکا پابند ہے.اور یہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے عین مطابق ہے. اب یہ وفاقی حکومت اور نگراں حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہ پاکستان کے آئین کے تحت وفاق کی ڈیوٹی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھاریٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔ اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں۔ یہ ان کی آئین کے تحت ایک ذمہ داری ہے. یہ عزت ماب پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے کی چند نکات تھے .جس پر پاکستان کی حکمران جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم اور نام نہاد آزاد چینلوں کی بھر مار. اس وقت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں آئین اور انصاف کے نام پر جو تماشا ایک ہفتہ سے لگا ہوا تھا ، اس میں ججوں کی بجائے عوام صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں.
ایک انگریزی مقولے کے مطابق’انصاف میں جلد بازی کرنا انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے‘ (Justice hurried is justice buried) لیکن دوسری ایک مثل یہ بھی ہے کہ ’انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے‘
عدالتی فیصلوں پر جائز طریقے سے تعمیری تنقید کی جاسکتی ہے دنیا بھر میں عدالت کے فیصلوں پر جائز تنقید کی جارہی ہیں اس میں پاکستان بھی شامل ہے. اس میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے. لیکن جس طرح کی تنقید حکمراں اتحادی جماعت پی ڈی ایم کے وزراء و ممبرز سینیٹ و قومی و صوبائی اور سابق وزیراعظم نوازشریف و ٹی وی پر بیٹھے اینکرز اور تجزیہ نگار کر رہے ہیں وہ بہت غلط ہے اور ان کی تنقید برائے تعمیر کے زمرہ میں نہیں آتی و کُھلم کُھلا غداری کے زُمرے میں آتیں ہیں . اگر ہم بات کرتے ہیں ازخود نوٹس کی تو یہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی پاور ہے کہ ہمارے ملک میں حکومت نام کی تو کوئی چیز نہیں ہے۔ تو اب جو کام حکومت کے کرنے کا ہے وہ کام از خود نوٹس کے ذریعے عدلیہ کر رہی ہے تو اس میں اتنا چیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے. مُلک میں ریاست کے تین اہم ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں، اب ان میں سے کوئی ایک ستون کام چھوڑ دے تو پھر سارا بار بقیہ دو ستونوں پر آتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ غلطی ہمارے نظام میں نہیں ہم میں ہے۔ ہم ابھی تک اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کرسکے، ہمارے قول و فعل میں بہت تضاد ہے، ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسی سوسائٹی میں رہتے ہیں جہاں پر جو بھی طاقت ور حلقہ و جاگیردار، سرمایہ دار وغیرہ اسی انصاف کو مانتا ہے، جو وہ خود کرتا ہے۔ یہ عدالتیں وغیرہ اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ علاقے کا ایس ایچ او تک اس کی مرضی سے لگتا ہے جو اس کے احکامات کا پابند ہوتا ہے۔ جس طرح مقنّنہ اور انتظامیہ کی کارکردگی ریاست کی مضبوطی پر اثرانداز ہوتی ہے، اسی طرح عدلیہ کا کام بھی کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
 

انجئنیر! شاہد صدئق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدئق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدئق خانزادہ: 392 Articles with 191335 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.