حضرت عائشہ صدیقہ ؓ(حصہ اول)

محبوب ِ خدا سرتاج الانبیا مجسمِ رحمت ﷺ کی محبوب اور وفادار بیوی اِس جہانِ فانی سے جا چکی تھیں ۔ پیارے آقا ﷺ کا اپنی محبوب بیوی سے 25سالہ خوبصورت ناطہ ٹوٹ چکا تھا ۔ آپ ﷺ جب بھی اپنی معصوم بیٹیوں کو دیکھتے تو دل بھر آتا ۔ معصوم بیٹیاں ماں کی جدائی میں غم کا پیکر بن چکی تھیں ۔ وہ کم سن تھیں اور قدم قدم پر انہیں ماں کی بہت ضرورت تھی ۔ آقائے دو جہاں ﷺ پر رسالت کی بہت بڑی ذمہ داری تھی جو آپ ﷺ نے ہر حال میں نبھانی تھی آپ ﷺ کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب اور سیدہ رقیہ بنت رسول ﷺ تو خیر سے اپنے خاوند ابوالعاص بن ربیع اور حضرت عثمان غنی کے گھر آبا د تھیں ۔ جبکہ اصل مسئلہ تو معصوم شہزادیوں سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ کا تھا جن کو توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی ۔ اِس کے ساتھ ساتھ محبوب خدا ﷺ کو بھی ایسی نیک خاتون خانہ کی ضرورت تھی جو نہ صرف بچیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کو ماں کی محبت دے سکے بلکہ جب آپ ﷺ گھر تشریف لائیں تو باعث راحت و سکون ہو ۔چچا ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد کفار مکہ کے مظالم میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا ۔ آپ ﷺ جب بھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو بد قماش لوگ آپ ﷺ کو تنگ کرتے آپ ﷺ پر کوڑا کرکٹ پھینکتے جب آپ ﷺ گھر تشریف لاتے تو چہرہ مبارک گرد و غبار سے اٹا ہو تا تو معصوم شہزادیوں کے دل تڑپ اٹھتے اور رخساروں پر آنسو بہنے لگتے پھر معصوم شہزادیاں اپنے بابا جان کا سر اور چہرہ مبارک دھوتی اور ساتھ ساتھ کفار کو برا بھلا بھی کہتیں کہ وہ کیوں ہمارے بابا جان کو تنگ کرتے ہیں ۔ رسول عربی ﷺ اپنے جگر گو شوں کے آنسو دیکھ کر پریشان ہو جاتے لیکن اپنی بیٹیوں کو حوصلہ دیتے کہ رو نہیں اﷲ تعالی تمھارے باپ کی حفاظت کرے گا ۔ حالات تقاضہ کرتے تھے کہ تاجدارِ کائنات ﷺ اب دوسری شادی کر لیں ۔ انہی دنوں میں ایک دن تاجدارعرب و عجم ﷺ ایک دن گھر میں آرا م کر رہے تھے کہ عالم خواب میں حضرت جبرائیل سبز ریشمی پارچہ پر سیدہ حضرت عائشہ کی تصویر لائے اور عرض کیا ۔ یا رسول اﷲ ﷺ یہ خاتون دنیا اور آخرت میں آپ ﷺ کی زوجہ ہے ۔ بیوی کا چہرہ دیکھنے کے بعد آپ ﷺ نے خواب میں ہی ارشاد فرمایا اگر یہ خواب اﷲ تعالی کی طرف سے ہے تو ضرور پورا ہو گا اور ایک دن رب ذولجلال ایسی زوجہ ضرور عطا کرے گا ۔یہ خواب مسلسل تین رات آتا رہا اور یہ حضرت عائشہ کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ رسول کائنات ﷺ کو ان کے آنے سے پہلے ہی ان کا چہرہ مبارک کے جمال پر انوار کا محب و مشتاق بنا دیا ۔ چند دن بعد ایک دن سرور کائنات ﷺ گھر میں تشریف فرما تھے کہ حضرت خولہ بنتِ حکیم حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان آپ ﷺ دوسرا نکاح کر لیں ۔ کس سے ؟ نبی کریم ﷺ نے دریافت کیا ۔ بیوہ اور کنواری دونوں طرح کے رشتے ہیں جسے آپ ﷺ پسند فرمائیں ۔ حضرت خولہ نے عرض کیا ۔بیوہ تو حضرت سودہ بنتِ زمعہ اور کنواری آپ ﷺ کے قریب ترین دوست اور عاشق زادحضرت ابو بکر کی صاحبزادی سیدہ عائشہ ہیں ۔ دونوں جگہ بات کرو ۔ نبی کریم ﷺ سے اذن پانے کے بعد حضرت خولہ بنتِ حکیم حضرت ابو بکر صدیق کے درِ دولت پر پہنچیں اس وقت وہ گھر پر نہیں تھے ان کی اہلیہ محترمہ سے بات کی تو ماں نے کہا عائشہ کے باپ کو آنے دو ان سے بات کروں گی پھر بتاں گی کل آنا اِس کے بعد حضرت خولہ بنتِ حکیم سیدہ سودہ کے والد زمعہ کے پاس آتی ہیں اور آنے کا مقصد بیان کیا باپ نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں لیکن سودہ کی مرضی دریافت کر لو ۔ اب حضرت خولہ بنتِ حکیم اند ر حضرت سودہ کے پاس جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ تم سے شادی کر نا چاہتے ہیں کیا مرضی ہے ۔ حضرت سودہ نے سنا تو اپنی سماعت اور قسمت پر یقین نہ آیا کہ اِس عمر میں جبکہ پچاس سال سے تجاوز کر چکی ہے محبوب خدا ﷺ کا رشتہ آئے گا خوشی اور جذبات کا عجیب عالم تھا کہ ایسی دولت نایاب حاصل ہو گی کیونکہ حضرت سودہ قدیم الاسلام تھیں اور فدائیت کی حد تک اﷲ کے رسول ﷺ سے محبت کرتی تھیں بولیں خولہ میں رسول خدا ﷺ اپنے آقا اور مولا پر ایمان لائی ہوں وہ میرے ہادی و رہنما ہیں انہیں میری ذات کے بارے میں فیصلہ کر نے کا کلی اختیار ہے جس طرح چاہیں فیصلہ فرمائیں ۔ اگلے دن حضرت خولہ بنت حکیم دوبارہ حضرت ابو بکر صدیق کے گھر گئیں وہ پہلے سے منتظر تھے گویا ہو ئے خولہ مجھے تمھارے توسط سے حضور اکرم ﷺ کا پیغام ملا ہے میرا جو تعلق نبی کریم ﷺ سے ہے اس کی روشنی میں کیا یہ جائز ہے عائشہ تو رسول اﷲ ﷺ کی بھتیجی ہیں ۔ میں حضور ﷺ سے اِس ضمن میں بات کروں گی پھر اطلاع دوں گی ۔ رسول اﷲ ﷺ نے ساری بات سننے کے بعد کہا ابو بکر صرف میرا دینی بھائی ہے نکاح جائز ہے۔پھر حضرت سودہ سے آپ ﷺ کی شادی ہو گئی جنہوں نے اپنے آقا و مولا ﷺ کی بیٹیوں کی دیکھ بھال اپنی اولاد سے بڑھ کر کی ۔ چند دن بعدحضرت ابو بکر نے حضرت خولہ کے ذریعے رسول خدا ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ رسول اﷲ ﷺ سے کہہ دیں کہ جب چاہیں عائشہ سے شادی کر لیں ۔ سیدہ حضرت عائشہ کی عمر محبو ب خدا سے نکاح کے وقت پندرہ سال ہجرت کے وقت اٹھارہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال تھی اور جو لوگ نکاح کے وقت چھ سال رخصتی کے وقت نو سال لکھتے ہیں وہ درست نہیں ہے ۔ میاں محمد سعید نے اپنی کتاب حیات ام المومنین میں معتبر حوالوں کے ساتھ اِس اہم موضوع پر روشنی ڈالی ہے ۔ماہ شوال دس نبوی بعوض پانچ سو درہم حق مہر پر نبی کریم ﷺ کے نکاح میں سیدہ عائشہ آگئیں نکاح کے وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی لیکن اس وقت رخصتی عمل میں نہ آئی اِس کو موخر کر دیا گیا جس کی حکمت رسول خدا ﷺ اور ان کا خدا ہی بہتر جانتے تھے ۔حضرت سیدہ عائشہ سے نکاح ایک تو حکم ِ ربی تھا دوسرا اپنے محبوب اور عاشق حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ تعلقات کی مضبوط بنیاد استوار کر نا اور غلط جہالت پر مبنی رواجوں کی قید سے لوگوں کو آزاد کرانا مقصود تھا ۔ جس نے انسانی معاشرے کو جہالت کے سمند میں غرق کیا ہوا تھا مثال کے طور پر منہ بولے رشتوں کو بنیا دبنا کر نکاح کے لیے جائز اور وسیع حلقے کو محدود کر دیا گیا تھا جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے اس دو ر جہالت میں منہ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح حرام خیال کیا جاتا تھا لہذا اِس جہالت پر مبنی رسم کا قلع قمع کر نا ضروری تھا ۔ لہذا محبوب خدا ﷺ نے حضرت عائشہ سے نکاح کر کے اِس جہالت پر مبنی رسم کا خاتمہ کر دیا ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736494 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.