حقوقِ نسواں کا موضوع بھی آج کی اس بدلتی ہوئی سوچ کا
ایک زاویہ ہے کہ آج کی عورت کن حقوق سے محروم ہے اور قبل از اسلام عورت کو
کن حقوق سے محروم رکھا گیا۔ عورت کے حقوق، آزادی، خودمختاری اور اس کے ساتھ
ہونے والے برتاؤ کا معاملہ اور موضوع ہر دور میں ہی زیر بحث رہا ہے۔ بلاشبہ
ہر مذہب اور تہذیب میں عورتوں کے حقوق ایک دوسرے سے منفرد ہیں مگر اسلام
ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں عورت کی زندگی کے تمام شعبوں اور معاملات
کے متعلق کامل راہنمائی موجود ہے۔ سو مسلم معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے سیرت
طیبہ اور حکم ربی کو سامنے رکھتے ہوئے حقوق نسواں کے موضوع پر بات کریں گے
کہ دین اسلام نے کس طرح عورت کو اعلى مقام ديا ہے اور عورت کو عورت کو ذلت
اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا بلکہ ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔ اسلام
نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی
تھیں اور اسے حقوق عطا کئے جن کی وہ پیدائشی طور پر حقدار تھی۔
مزید یہ کہ دین اسلام سے قبل لوگ لڑکی کی پیدا ئش کو باعث شرم و عار سمجھتے
تھے۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جا تا تھا۔ عرب سماج میں قبل از اسلام
حال یہ تھا کہ باپ کے مرنے کے بعد یتیم بچیوں سے اس کے نگراں زبردستی نکاح
کر لیتے تھے۔ معصوم بچیوں کو بتوں کے سامنے بلی دیاجاتا تھا، بازاروں میں
جانوروں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔
عورت ذات کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی، عورت مکمل طور مرد حضرات ہی کے رحم
و کرم پر ہوتی تھی اور انہی کے تابع رہتی تھی۔
اسلام نے جہاں عورت کو حقیر جاننے اور ذلیل کرنے کی مذمت کی وہیں ان کی
پرورش کرنے پرفضیلت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث مبارکہ کا
ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:
ترجمہ: جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو، پھر اس نے نہ اس کو زندہ دفن کیا، نہ
اس کی توہین کی اور نہ اس نے محبت اور برتاوٴ میں لڑکوں کواس پر ترجیح دی (
اس کے ساتھ ایسا ہی برتاوٴ کیا جیسا کہ لڑکوں کے ساتھ کیا) تو اللہ تعالی
لڑکی کے ساتھ اس حسن سلوک کے صلے میں اس کو جنت میں داخل کرے گا۔
(مصنف ابن أبی شیبة حدیث نمبر: ۲۵۴۳۵۔ مسند أحمد حدیث: ۱۹۵۷)
دین اسلام نے ہی عورت کو اس کا صحیح مقام دیا بیٹی کو وراثت میں اسکا حقدار
ٹھہرایا، بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی، ۔ اسلام عورت کے لیے
تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج
کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے لئے بھی اچھی تعلیم و
تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کے لیے۔ یہ کسی
طرح مناسب نہیں کہ عورت کو کم تر درجہ کی مخلوق سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم و
تربیت نظر انداز کر دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد کا ترجمہ
کچھ یوں ہے:
ترجمہ: "اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے اور
اس کو خوب اچھے آداب مجلس سکھائے، پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص
کے لئے دوہرا اجر ہے"
(بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم من اهل الکتابين، 3 : 1096،
رقم:2849)
اسلام میں مسلمان عورت کا بلند مقام، اور ہر مسلمان کی زندگی میں مؤثر
کردار ہے۔ صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مدرسہ ہے۔
دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا
دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہے عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر
عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے
عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔
خانہ داری کے فرائض کے علاوہ بھی خواتین کو اگر مناسب مواقع فراہم کئے
جائیں تو ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے بہت اچھے سے اپنا حق ادا کر
سکتی ہے۔ خواتین نے ہمیشہ یہ بات باور کروائی ہے کہ کوئی بھی شعبہ ہو وہ
زندگی کے ہر شعبے مردوں کے شانہ بشانہ چل کے اپنے ملک کی ترقی میں اپنے حصے
کی شمع جلا کر پنا نام بنا سکتی ہیں اور ملک و قوم کا نام روشن کر سکتی
ہیں۔
بےشک ایسی خواتین ہمارے ملک کا حقیقی سرمایہ ہیں، سو ہمارا بھی حق بنتا ہے
کہ ہم ایسی محنتی اور باہنر خواتین کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور انکی قدر
کریں تاکہ ایک باوقار اور مضبوط معاشرہ پروان چڑھ سکے۔
|