’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیثِ
مبارکہ مروی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مؤمنین کا
اپنے مؤمن بھائیوں کی شفاعت کرنے کے باب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے
فرمایا : تم مجھ سے حق کا مطالبہ کرنے میں جو تمہارے لئے واضح ہوچکا ہے آج
اس قدر سخت نہیں ہو جس قدر شدت کے ساتھ مومن اس روز اللہ سے مطالبہ کریں گے
جس وقت وہ دیکھیں گے کہ وہ نجات پاگئے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے حق میں مطالبہ
کرتے ہوئے وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب! (یہ) ہمارے بھائی (جن کو تو نے
دوزخ میں ڈال دیا ہے ہماری سنگت اختیار کیے ہوئے تھے یہ) ہمارے ساتھ نمازیں
پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ عمل کرتے تھے۔ اللہ
تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ جس کے دل میں دینار کے وزن کے برابر ایمان پاؤ اسے
(دوزخ سے) نکال لو اور اللہ تعالیٰ ان کی صورتوں کو آگ پر حرام کردیگا، پس
وہ ان کے پاس آئیں گے جبکہ بعض قدموں تک اور بعض پنڈلیوں تک آگ میں ڈوبے
ہوئے ہوں گے چنانچہ وہ جن کو پہچانیں گے انہیں نکال لیں گے۔ پھر واپس لوٹیں
گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان پاؤ
اسے بھی نکال لو، پس وہ جسے پہچانیں گے نکال لیں گے۔ پھر وہ واپس لوٹیں گے
تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان پاؤ اسے بھی
نکال لو چنانچہ وہ جسے پہچانیں گے نکال لیں گے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں : جسے یقین نہ آتا ہو وہ یہ آیت پڑھ لے : (بے شک اللہ ذرہ
برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اوراگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے)
[النساء، 4 : 40]، (تو صحبتِ صالحین بھی عظیم نیکی ہے۔ ) پس انبیاء، فرشتے
اور مؤمنین شفاعت کریں گے تو خالق ومالک جبار فرمائے گا : میری شفاعت باقی
ہے پھر وہ دوزخ سے (جہنمیوں کو) قبضہ بھر کر نکالے گا جو جل کر کوئلے کی
طرح ہوچکے ہوں گے اور انہیں نہرِ حیات میں ڈال دیا جائے گا جو جنت کے
کناروں پر ہے۔ چنانچہ وہ اس طرح تر و تازہ ہو کر نکلیں گے جیسے سیلابی جگہ
سے دانہ اگتا ہے جن کو تم نے کسی پتھر یا درخت کے پاس دیکھا ہو گا۔ جو ان
میں سے سورج کی طرف ہوتا ہے سبز اور جو سایہ میں ہوتا ہے سفید رہتا ہے گویا
وہ موتیوں کی مانند نکلیں گے اور ان کی گردنوں میں مہریں لگا دی جائیں گی
تو وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اہلِ جنت کہیں گے : یہ رحمان کے آزاد کردہ ہیں
کہ اس نے ان کو بغیر عمل کیے اور بغیر کسی بھلائی کو آگے بھیجنے کے جنت میں
داخل کر دیا۔ پس ان (جہنم سے آزاد ہونے والوں) سے کہا جائے گا : جو کچھ تم
نے دیکھا وہ بھی تمھارا ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہے۔ بخاری، کتاب :
التوحيد، باب قول اﷲ تعالی : وجوه يومئذ ناضرة إلی ربها ناظرة،
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد (بغير
حساب وعذاب کے) جنت میں داخل ہوں گے، (راوی کو دونوں میں سے ایک کا شک ہے)
یہ ایک دوسرے کو (نسبت کی وجہ سے باہم) تھامے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کا
پہلا (قیادت کرنے والا) اور آخری شخص جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ان کے چہرے
چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے. بخاری،کتاب : الرقاق، باب : يدخل
الجنة سبعون ألفاً بغير حساب، کتاب : بدء الخلق، باب : ما جاء في صفة الجنة
وأنها مخلوقة،کتاب : الرقاق، باب : صفة الجنة والنار،مسلم شریف کتاب :
الإيمان، باب : الدليل علی دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا
عذاب
’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ
قدرت میں میری جان ہے جو مومن نجات پا کر جنت میں چلے جائیں گے وہ اپنے ان
مسلمان بھائیوں کو جو جہنم میں پڑے ہوں گے جہنم سے چھڑانے کے لیے (بطور ناز
) اللہ تعالیٰ سے ایسا جھگڑا کریں گے جیسا جھگڑا کوئی شخص (دنیا میں) اپنا
حق مانگنے کے لیے بھی نہیں کرتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے
: اے ہمارے رب! یہ لوگ (ہماری سنگت اختیار کیے ہوئے تھے کہ) ہمارے ساتھ
روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے اور حج کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا : جن
لوگوں کو تم پہچانتے ہو ان کو دوزخ سے نکال لو، ان لوگوں کی صورتیں آگ پر
حرام کر دی جائے گی۔ پھر جنتی مسلمان کثیر تعداد میں ان لوگوں کو دوزخ سے
نکال لائیں گے جن میں سے بعض کو نصف پنڈلیوں تک اور بعض کو گھٹنوں تک دوزخ
کی آگ نے جلا ڈالا ہوگا۔ وہ پھر عرض کریں گے : یا اللہ! اب ان لوگوں میں سے
کوئی باقی نہیں بچا جن کو جہنم سے نکال لانے کا تو نے حکم دیا تھا، اللہ
تعالیٰ فرمائے گا : پھر جاؤ اور جس کے دل میں دینار کے برابر بھی نیکی ہے
اس کو جہنم سے نکال لاؤ، پھر وہ کثیرتعداد میں لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں
گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے : یا اللہ! جن لوگوں کو تو نے
جہنم سے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا۔ اللہ
تعالیٰ پھر فرمائے گا : جاؤ جس کے دل میں نصف دینار کے برابر بھی نیکی ہو
اس کو جہنم سے نکال لاؤ، وہ پھر جائیں گے اور کثیر تعداد میں لوگوں کو جہنم
سے نکال لائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے : اے ہمارے
رب! جن لوگوں کو تو نے دوزخ سے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کسی
کو نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا : جس شخص کے دل میں تم کو ذرہ
برابر بھی نیکی ملے اس کو بھی جہنم سے نکال لاؤ، وہ جائیں گے اور جہنم سے
بہت بڑی تعداد میں خلقِ خدا کو نکال لائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں عرض کریں گے : اے اللہ! اب دوزخ میں نیکی کا ایک ذرہ بھی نہیں۔ حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر تم میری اس بیان کردہ حدیث کی
تصدیق نہیں کرتے تو قرآن کریم کی اس آیت کو پڑھو : (بے شک اللہ ذرہ برابر
بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے اور اپنے
پاس سے بڑا درجہ عطا فرماتا ہےo) [النساء، 4 : 40]مسلم شریف,کتاب :
الإيمان، باب : معرفة طريق الرؤية. المستدرک امام حاکم
عبداللہ بن شقیق کا بیان ہے کہ ایلياء کے مقام پر میں ایک گروہ کے ساتھ تھا
تو ان میں سے ایک شخص نے کہا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میری امت کے ایک شخص (عثمان یا اویس قرنی) کی
شفاعت کے سبب بنو تمیم کے افراد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کیا وہ شخص آپ کے
علاوہ کوئی اور ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں میرے
علاوہ. راوی کہتے ہیں : پس جب وہ چلے گئے تو میں نے پوچھا : یہ کون ہے؟
لوگوں نے بتلایا : یہ ابنِ ابی الجدعا ہے۔ ترمذی، کتاب : صفة القيامة
والرقائق، باب : ما جاء في الشفاعة، ابنِ ماجہ، کتاب : الزهد، باب : ذکر
الشفاعة،
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے پاس شہید کے لئے چھ انعام ہیں :
خون بہتے ہی اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ وہ جنت میں اپنا مقام دیکھ لیتا
ہے۔ عذابِ قبر اور قیامت کی گھبراہٹ و خوف سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے سر پر
یاقوت سے بنا ہوا عزت وعظمت والا تاج رکھا جاتا ہے جس کے بعض موتی دنیا و
ما فيھا سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ 72 حور عِین (جو سیاہ چشم اور موٹی
آنکھوں والی ہیں) کو اس کی زوجیت میں دیا جاتا ہے۔ اس کے 70 رشتہ داروں کے
حق میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔‘ ابنِ ماجہ، ترمذی کتاب : فضائل
الجهاد، باب : في فضائل الشهيد، کتاب : الجهاد، باب : فضل الشهادة في سبيل
اﷲ،
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مرسلاً مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان بن عفان دو قبیلوں ربیعہ اور مضر کے
برابر لوگوں کی شفاعت کریں گے۔ترمذی، کتاب : صفة القيامة والرقائق، باب :
ما جاء في الشفاعة
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا ایک امتی لوگوں کے ایک گروہ کی شفاعت کرے
گا، ان میں سے کوئی کسی قبیلہ کی شفاعت کرے گا، ان میں سے کوئی کسی جماعت
کی شفاعت کرے گا اور ان میں سے کوئی ایک شخص کی شفاعت کرے گا یہاں تک کہ وہ
سب جنت میں داخل ہوں گے۔‘حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا ایک امتی لوگوں کے
ایک گروہ کی شفاعت کرے گا، ان میں سے کوئی کسی قبیلہ کی شفاعت کرے گا، ان
میں سے کوئی کسی جماعت کی شفاعت کرے گا اور ان میں سے کوئی ایک شخص کی
شفاعت کرے گا یہاں تک کہ وہ سب جنت میں داخل ہوں گے۔‘کتاب : صفة القيامة
والرقائق، باب : ما جاء في الشفاعة،
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی حق کا مطالبہ کرنے میں اس قدر
سخت نہیں ہے جس قدر شدت کے ساتھ مومن اس روز اللہ سے اپنے ان بھائیوں کے
بارے میں مطالبہ کریں گے جو دوزخ میں داخل کر دیے جائیں گے۔ وہ اپنے
بھائیوں کے حق میں مطالبہ کرتے ہوئے عرض کریں گے : اے ہمارے رب! (یہ) ہمارے
بھائی ہیں (انہوں نے ہماری معیت اختیار کی ہوئی تھی)، یہ ہمارے ساتھ نمازیں
پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے اور تُو
نے انھیں دوزخ میں داخل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ ان میں سے
جن کو تم پہنچانتے ہو اس کو نکال لو، پس وہ ان کے پاس آئیں گے تو ان میں سے
بعض کو نصف پنڈلیوں تک اور بعض کو ٹخنوں تک آگ پہنچی ہوگی چنانچہ وہ انہیں
نکال لیں گے۔ وہ پھر عرض کریں گے : اے ہمارے رب! جن کے بارے میں تو نے ہمیں
حکم دیا ہم نے انہیں نکال ليا ہے۔ فرماتے ہیں کہ پھر اﷲ رب العزت فرمائے گا
: جس کے دل میں دینار کے وزن برابر ایمان پاؤ اسے (دوزخ سے) نکال لو۔ پھر
اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں نصف دینار کے برابر بھی ایمان پاؤ
اسے نکال لو، پھر وہ واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل
میں ذرہ برابر بھی ایمان پاؤ اسے بھی نکال لو. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں : جسے یقین نہ آتا ہو وہ یہ آیت پڑھ لے : (بے شک اللہ اس
بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ
بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔۔۔ اخیر آیت تک) [النساء، 4 :
48]۔‘ابنِ ماجہ، کتاب : المقدمة، باب : في الإيمان، نسائی،کتاب : الإيمان
وشرائعه، باب : زيادة الإيمان
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں
گے : انبیاء پھر علماء پھر شہداء۔‘ ابنِ ماجہ، کتاب : الزهد، باب : ذکر
الشفاعة
عبداللہ بن قیس فرماتے ہیں : میں ایک رات ابو بردہ کے پاس تھا کہ ہمارے پاس
حضرت حارث بن اقیشث آئے۔ حارث نے اسی رات ہمیں بیان کیا کہ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ایک امتی کی شفاعت کے سبب قبیلہ
مضر سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور بے شک ایک ایسا امتی بھی ہوگا
(جو اپنے گناہوں کے سبب) دوزخ کے لئے اتنا بڑا ہو جائے گا کہ اس کا ایک
کونہ محسو س ہو گا۔‘ابنِ ماجہ،کتاب : الزهد، باب : صفة النار
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگ صفیں بنائیں گے (ابنِ نمیر نے
کہا یعنی کہ اہلِ جنت) تو دوزخیوں میں سے ایک شخص جنتیوں میں سے ایک شخص کے
پاس سے گزرے گا اور کہے گا : اے فلاں! تجھے یاد ہے کہ ایک دن تو نے پانی
مانگا تھا اور میں نے تجھے پانی پلایا تھا؟ (راوی فرماتے ہیں : ) پس وہ
جنتی اس دوزخی کے لئے شفاعت کرے گا۔ ایک اور آدمی دوسرے آدمی کے پاس سے
گزرے گا تو کہے گا : تجھے یاد ہے کہ میں نے ایک دن تجھے وضو کرایا تھا؟
چنانچہ وہ اس کے لئے شفاعت کرے گا۔ ایک اور آدمی کہے گا : اے فلاں : تجھے
یاد ہے کہ ایک دن تو نے مجھے اس اس کام کے لئے بھیجا تھا چنانچہ میں تیری
خاطر چلاگیا تھا؟ پس وہ اس کے لئے شفاعت کرے گا۔‘ابنِ ماجہ، کتاب : الأدب،
باب : فضل صدقة الماء
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جہنم کے پل پر لوگوں کو ڈالا
جائے گا جبکہ اس پر کانٹے اور نوکیلے لوہے کے ٹکڑے پڑے ہوں گے جو لوگوں کو
اچکیں گے۔ فرماتے ہیں : بعض لوگ بجلی کی طرح اس سے گزر جائیں گے، بعض ہوا
کی طرح، بعض عالی نسل تیز رفتار گھوڑے کی طرح، بعض دوڑتے ہوئے، بعض چلتے
ہوئے، بعض سرین کے بل گھسٹتے ہوئے اور بعض رینگتے ہوئے گزریں گے۔ اہلِ جہنم
نہ اس میں مریں گے اور نہ جئیں گے اور وہ لوگ جنہیں ان کے گناہوں کے سبب
پکڑا جائے گا جب انہیں جلایا جائے گا تو وہ کوئلہ ہو جائیں گے۔ پھر اللہ
تعالیٰ شفاعت کا اذن دے گا تو انہیں جماعتوں کی شکل میں لا کر نہر پر ڈال
دیا جائے گا۔ پس وہ (وہاں سے) ایسے تروتازہ نکلیں گے جیسے سیلابی جگہ سے
سرسبز وشاداب دانہ نکلتا ہے.نسائی، المستدرک
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : جب جنتی اور جہنمی لوگوں میں امتیاز ہو جائے گا اور جنتی
جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے۔ اس کے بعد رسلِ عظام کھڑے ہو
کر شفاعت فرمائیں گے۔ پس (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا : جاؤ اور جس جس کو تم
پہچانتے ہو اس کو جہنم سے نکال لو تو وہ ایسے لوگوں کو نکال لیں گے جو جل
کر کوئلے کی طرح ہوچکے ہوں گے۔ پھر انہیں نہرِ حیات میں ڈال دیا جائے گا۔
پھر فرمایا : ان کے جلے ہوئے جسموں کو نہر کے کنارے ڈال دیا جائے گا۔ جس کے
بعد وہ سفید ککڑیوں کی طرح سفید تروتازہ ہو کر نکلیں گے۔ اس کے بعد انبیاء
دوبارہ شفاعت فرمائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں فرمائے گا : جاؤ جس کے دل
میں رتی برابر ایمان پاؤ تو اسے بھی جہنم سے نکال لو تو وہ جلدی سے نکال
لیں گے۔ پھر شفاعت کریں گے تو انہیں کہا جائے گا : جاؤ جس کے دل میں رائی
کے دانے کے برابر ایمان پاؤ تو اسے بھی نکال لو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ
فرمائے گا : اب میں اپنے علم اور رحمت سے نکالتا ہوں پس اللہ تعالیٰ ان کے
نکالے ہوئے افراد سے کئی گنا زیادہ لوگوں کونکال لے گا اور پھر کئی گُنا
اور. ان کی گردنوں پر لکھ دیا جائے گا عتقاءُ اﷲ یعنی اللہ کے آزاد کردہ
لوگ۔ پھر انہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا اور اس میں انہیں جہنمی کے نام
سے پکارا جائے گا۔‘‘ المسند، أحمد بن حنبل
’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن لوگ پل صراط پر چلیں گے تو پل صراط کا کنارہ
ان کو پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح اس میں گرائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اللہ اپنی رحمت سے جسے چاہے گا نجات دے گا۔ پھر
فرشتوں، نبیوں، اور شہداء کو اجازت دی جائے گی کہ وہ شفاعت کریں. پس وہ
شفاعت کریں گے اور (دوزخیوں) کو نکالیں گے، پھر وہ شفاعت کریں گے اور
(دوزخیوں) کو نکالیں گے، پھر وہ شفاعت کریں گے اور (دوزخیوں) کو نکالیں گے۔
عفان نے اس میں اضافہ کیا ہے : وہ شفاعت کریں گے اور جس کے دل میں ذرہ
برابر بھی ایمان ہو گا اس کو بھی (دوزخ سے) نکال لیں گے..المسند، أحمد بن
حنبل
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت
جبرئیل علیہ السلام پھر خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، پھر حضرت
موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام شفاعت کریں گے۔ ابو زعراء
کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کون ہے، پھر فرماتے ہیں : آپ
رضی اللہ عنہ نے فرمایا : چوتھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
قیام فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل کوئی بھی شفاعت نہیں
کرے گا اور یہی وہ اللہ کا کیا ہوا وعدہ مقام محمود ہے جو اس نے آپ سے
کیا۔نسائی
’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : اہلِ جنت ان لوگوں کو جنہیں دنیا میں پہچانتے تھے جنت میں
نہیں دیکھیں گے تو انبیاء کرام کے پاس آکر ان کے بارے عرض کریں گے۔ پس وہ
ان کی شفاعت کریں گے تو ان کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا۔ انہیں کہا جائے
گا : آزاد کردہ لوگ، اور وہ سارے آزاد ہوں گے پھر ان پر آبِ حیات انڈیلا
جائے گا. المعجم الأوسط.امام طبرانی. مجمع الزوائد,هيثمي,,کنزالعمال،
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
(طویل حدیثِ مبارکہ ذکر کی جس میں چاشت کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے تبسم فرمانے کی وجہ پوچھی گئی تھی) فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قیامت کے احوال ذکر کرتے ہوئے) فرمایا : کہا جائے
گا : صدیقین کو بلاؤ تو وہ شفاعت کریں گے۔ پھر کہا جائے گا : انبیاء کو
بلاؤ تو کوئی نبی ایسے آئے گا کہ ان کے ساتھ (اپنے امتیوں کی) ایک جماعت
ہوگی، کسی نبی کے ساتھ پانچ چھ افراد ہوں گے اور ایسے نبی بھی ہوں گے جن کے
ساتھ ایک بھی امتی نہیں ہوگا۔ پھر کہا جائے گا : شہداء کوبلاؤ پس وہ جس کی
چاہیں گے شفاعت کریں گے۔ جب شہداء شفاعت کر لیں گے تو اللہ رب العزت فرمائے
گا : میں ارحم الراحمین ہوں میری جنت میں ہر وہ شحص داخل ہو جائے جس نے
میرے ساتھ کسی قسم کا کوئی شرک نہ کیا ہو. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : پس وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا :
جہنم میں دیکھو کیا تم کسی ایسے شخص کو پاتے ہو جس نے کبھی کوئی نیک عمل
کیا ہو؟ پس وہ جہنم میںایک شخص کوپا لیں گے تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا
: کیا تو نے کبھی کوئی نیک عمل کیا؟ وہ کہے گا : نہیں! سوائے یہ کہ میں
لوگوں کے ساتھ بیع (خرید و فروخت میں) نرمی کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے
گا : میرے بندے کے ساتھ اس طرح نرمی کرو جس طرح یہ میرے بندوں کے ساتھ نرمی
کیا کرتا تھا۔ پھر وہ دوزخ سے ایک اور آدمی کو نکالیں گے تو وہ اس سے پوچھے
گا : کیا تو نے زندگی میں کوئی عملِ خیر کیا تھا؟ وہ کہے گا : نہیں سوائے
اس کے کہ میں نے اپنے بیٹے کو حکماً وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے
جلا دینا، پھر سرمہ کی طرح پیس لینا اور سمندر کے پاس لے جاکر مجھے تیز ہوا
میں اڑا دینا، خدا کی قسم! اللہ رب العالمین مجھے کبھی بھی سزا نہیں دے سکے
گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا تھا؟ وہ کہے گا :
تیرے خوف کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ
فرمائے گا : سب سے بڑے بادشاہ کے ملک کو دیکھو، تیرے لئے اس کے برابر اور
مزید اس طرح کے دس اور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو وہ
عرض کرے گا : یا اللہ تو میرے ساتھ مذاق کیوں کر رہا ہے حالانکہ تو بادشاہ
کائنات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی وجہ تھی جس کی وجہ
سے میں بوقتِ چاشت مسکرایا۔‘‘ المسند،امام احمد بن حنبل،امام احمد بن
حنبل،هيثمی
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : مسلمانوں کی ایک قوم جنہیں دوزخ میں عذاب دیا گیا ہوگا
اللہ کی رحمت اور شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے ضرور جنت میں داخل ہو
گی۔‘‘المعجم الکبير، امام طبرانی...مجمع الزوائد، هيثمي
|