بنیں گے سہارا انبیاء کا

بنیں گے سہارا انبیاء کا
ابو حامد محمد امیر سلطان چشتی قادری ہاشمی
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں قیامت کے دن سب انبیاء کا امام ہوں گا اور ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ گفتگو کرنے والا اور ان کو اللہ تعالیٰ سے شفاعت کا حق دلانے والا ہوں گا، یہ بات بطور فخر نہیں کہہ رہا۔‘‘
ترمذی، کتاب : المناقب، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم،ابنِ ماجہ,,کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں قیامت کے دن سب انبیاء کا امام ہوں گا اور ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ گفتگو کرنے والا اور ان کو اللہ تعالیٰ سے شفاعت کا حق دلانے والا ہوں گا، یہ بات بطور فخر نہیں کہہ رہا۔‘‘
ترمذی، کتاب : المناقب، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم،ابنِ ماجہ,,کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ قیامت کے دن میری (خصوصی) شفاعت فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہی ایسا کرنے والا ہوں، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا، میں نے عرض کیا : اگر آپ وہاں نہ ملیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میزان کے پاس ڈھونڈنا، میں نے عرض کیا : اگر وہاں بھی نہ ملیں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم مجھ کو حوضِ کوثر پر تلاش کرنا کیونکہ میں ان تین جگہوں کو نہیں چھوڑوں گا۔‘ ترمذی،کتاب : صفة القيامة والرقائق، باب : ما جاء في شأن الصراط
’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص نے داخل ہو کر نماز میں ایسی قرات کی جس کا میں نے انکار کیا، پھر ایک دوسرے شخص نے داخل ہوکر اپنے ساتھی سے الگ لہجہ میں قرات کی۔ پس ہم سب نماز سے فراغت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں چلے گئے تو میں نے عرض کیا : اس شخص نے ایسی قرات کی جس کا میں نے انکار کیا اور پھر ایک دوسرے شخص نے داخل ہوکر اپنے ساتھی سے الگ لہجہ میں قرات کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو قرات کرنے کا حکم فرمایا : انہوں نے قرات کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کی تحسین فرمائی، جس سے میرے دل میں اسلام کی ایسی تکذیب اتری کہ کبھی زمانہ جاہلیت میں بھی ایسی نہ تھی۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اس (باطنی) حال کو ملاحظہ فرما کر میرے سینہ پر ہاتھ مارا جس سے میں پسینہ سے شرابور ہوگیا (اور مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی) گویا کہ میں خشیت سے اللہ کو دیکھ رہا ہوں تو آپ نے مجھ سے فرمایا : اے اُبیّ! مجھے حکم دیا گیا کہ قرآن ایک حرف (لغت) پر پڑھوں تو میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرمائیے، پھر مجھے دو حرفوں پر پڑھنے کا حکم دیا گیا تو میں نے دوبارہ عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرمائیے، پس مجھے تیسری بار سات حروف (لغات) پر قرآن پڑھنے کا حکم ہوا، (اس کے ساتھ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا) امت کے لیے ہر بار دعا کرنے کے عوض ہم سے کچھ طلب کرلو۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ! میری امت کی مغفرت فرما! اے اللہ! میری امت کی مغفرت فرما اور تیسری بار کی دعا میں نے اس دن کے لیے محفوظ کرلی ہے جس دن تمام مخلوق یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف متوجہ ہوں گے۔مسلم کتاب : صلاة المسافرين وقصرها، باب : بيان أن القرآن علی سبعة أحرف وبيان معناه،
’’حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہ سے طویل حدیث مروی ہے : انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حاضر ہوکر درج ذیل اشعار عرض کیے
فَأَشْهَدُ أَنَّ اﷲَ لَا رَبَّ غَيْرُهُ
وَأَنَّکَ مَأْمُوْنٌ عَلَی کُلِّ غَائِبٍ

وَأَنَّکَ أَدْنَی الْمُرْسَلِيْنَ وَسِيْلَةً
إِلَی اﷲِ يَاابْنَ الْأَکْرَمِيْنَ الْأَطَايِبِ

فَمُرْنَا بِمَا يَأْتِيْکَ يَاخَيْرَ مَنْ مَشَی
وَإِنْ کَانَ فِيْمَا جَائَ شَيْبُ الذَّوَائِبِ

وَکُنْ لِي شَفِيْعًا يَوْمَ لَا ذُوْ شَفَاعَةٍ
سِوَاکَ بِمُغْنٍ عَنْ سَوَادِ بْنِ قَارِبِ
حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہ سے طویل حدیث مروی ہے : انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حاضر ہوکر درج ذیل اشعار عرض کیے :

(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی رب نہیں اور آپ ہر غائب (کی خبر پہنچانے میں) امانت دار ہیں. اور اے پاک بزرگ لوگوں کے بیٹے! بے شک آپ رسولوں میں سے وسیلہ ہونے کے اعتبار سے اللہ کے زیادہ قریب ہیں. اے چلنے والوں میں سے بہترین! پس آپ ہمیں ہر وہ حکم کیجیے جو آپ کے پاس آئے اگرچہ وہ (امور شدید ہوں جو ) پیشانیوں کو سفید کرنے والے ہوں. سو آپ اس دن میرے سفارشی ہوجائیں جس میں آپ کے سوا کوئی بھی ایسا شفاعت کرنے والا نہیں جو سواد بن قارب کو فائدہ دے۔
المستدرک,,, امام حاکم،
حضرت مازن بن غضوبہ رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوکر آئے تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت طلب کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے :
إِلَيْکَ رَسُوْلُ اﷲِ خَبَّتْ مَطِيَتِي
تَجُوْبُ الْفَيَافِي مِنْ عُمَانَ إِلَی الْعَرْجِ

لِتَشْفَعَ لِي يَاخَيْرَ مَنْ وَطِيئَ الْحَصَی
فَيَغْفِرَ لِي رَبِّي فَأَرْجِعُ بِالْفَلْجِ
(یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں اس حال میں کہ میری سواری عمان سے عرج تک کے صحرا و میدان قطع کرتی آئی ہے۔ تاکہ آپ میرے لئے شفاعت کریں، اے وہ بہترین ذات جو کنکریوں پر چلنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ سو میرا رب مجھے بخش دے تاکہ میں کامیاب واپس لوٹوں۔)‘
المعجم الکبير، امام طبرانی,,مجمع الزوائد، هيثمی,,
الاستيعاب في معرفة الأصحاب.ابن عبد البر. الإصابة في تمييز الصحابة.. الإصابة في تمييز الصحابة
 

پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381527 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.