رام نومی اور ہنومان جینتی میں فرق

رام نومی کے موقع پر اس سال بھی ملک کے مختلف علاقوں میں تشدد کی وارداتیں ہوئیں لیکن ایک ہفتہ بعد منائی جانے والی ہنومان جینتی پر امن انداز میں گزر گئی۔ ان سات دنوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ فسادات پر روک لگ گئی؟ اس کا ایک آسان جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس دوران مولانا محمود مدنی کی قیادت میں ایک مسلم وفد نے وزیر داخلہ سے ملاقات کی ۔ اس سے ان کا من پریورتن ( قلب تبدیل ) ہوگیا اور انہوں نے تشدد پر لگام لگادی۔ اس وفد کا وزیر داخلہ سے ملاقات کرکےتشدد کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کرنا درست عمل تھا ۔ اس کی ضرورت بھی تھی اور ممکن ہے کچھ اثر بھی ہوا ہوگا مگر موجودہ پیچیدہ سیاسی ماحول میں صرف ایک ملاقات سے فسادات کا رک جانا نہایت بھولی بھالی قیاس آرائی ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اتفاق سے اس بار بی جے پی کا یوم تاسیس ہنومان جینتی کے دن پڑ گیا۔ وزیر اعظم اس موقع پر 2024کے انتخابی مہم کا غیر اعلانیہ آغاز کرکے اسے ہنومان سے جوڑنا چاہتے تھے۔ اس دن اگر فسادات بھڑک اٹھتے تو ان خبروں میں مودی جی کا پیغام دب جاتا اس لیے تشدد کو روک دیا گیا کیونکہ جس طرح گھنٹی بجتی نہیں ہے بلکہ بجائی جاتی ہے اسی طرح فسادات (ازخود )ہوتے نہیں ہیں کرائے جاتے ہیں اور ان سے سیاسی فائدے اٹھائے جاتے ہیں۔

آگے بڑھنے سے قبل پارٹی کی 44 ویں یوم تاسیس کے موقع وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب کا اقتباس دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بدعنوانی سے لڑنے کے لیے ہنومان سے ترغیب ملتی ہے۔ بی جے پی بدعنوانی اور کنبہ پروری سے لڑنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس نے جمہوریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ہنڈن برگ کی رپورٹ اور اڈانی پر جے پی سی بنانے سے انکار اس دعویٰ کی ہنسی اڑاتے ہیں ۔بی جے پی کی پیدائش یقیناً جمہوریت کی کوکھ میں ہوئی تھی لیکن مودی جی کی قیادت نے اس کی جوانی کو آمرانہ فسطائیت میں بدل دیا ہے۔ مودی کہتے ہیں بی جے پی کے لیے ملک سب سے اوپر ہے لیکن سچائی یہ ہے اس کے نزدیک ملک سمیت ہر چیز رہنما کی مرضی کے نیچے ہے ۔ وزیر اعظم کے مطابق پہلے سیاست کے نام پر دکھاوا ہوتا تھا حالانکہ آج کل جتنا دکھاوا ہورہا ہے اتنا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی ’’ماں بھارتی‘‘، آئین اور ملک کے لیے وقف ہے جبکہ آئے دن عوام و خواص کے آئینی حقوق کو ای ڈی، سی بی آئی، انتظامیہ اور عدلیہ کی مدد سے پامال کیا جارہا ہے۔ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔

وزیر اعظم نےفرمایا بی جے پی ‘’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتی ہے۔ انہوں نے ہنومان جینتی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آج بھی ہنومان جی اور ان کی زندگی کے اہم واقعات وکاس یاترا (ترقی کے سفر) کے لیےابھارتے ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ وکاس (ترقی) نام کا بچہ اب نو سال کا ہوگیا ہے مگر پالنے سے باہر نہیں آیا اس لیے تقریر کے سواکہیں نظر نہیں آتا۔ وزیر اعظم نے کہا ہنومان جی میں بے پناہ طاقت ہے، لیکن وہ اس طاقت کا استعمال وہ تبھی کر پاتے ہیں جب ان کے اندر بے یقینی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔2014 سے پہلےہندوستان کا بھی یہی حال تھا لیکن آج ملک کو بجرنگ بلی کی طرح اپنے اندر چھپی طاقتوں کا ادراک ہو گیا ہے۔ آج کاہندوستان ہنومان کی طاقت کی طرح اپنی صلاحیت کو محسوس کر رہا ہے۔ وہ بولے بی جے پی کو بدعنوانی، لا اینڈ آرڈر کے چیلنجوں سے لڑنے کے لیے ہنومان سے تحریک ملتی ہے۔ ہنومان جی دشٹوں (شریروں) کا اور بی جے پی بدعنوانوں کا ناش (برباد) کرتی ہے۔ اس کے بعد اپنی کارکردگی کا ڈھول بجانے کے بعد ہنومان کے آشیرواد سے اگلا الیکشن جیتنے کے یقین کا اظہار کردیا۔ بی جے پی نہیں چاہتی تھی کہ مودی جی کا یہ ہنومان چالیسا فساد کی خبروں میں دب جائے اس لیے تشدد کو روک دیا گیا ۔

حکومت کے لیے یہ کام بہت آسان ہے۔و زارت داخلہ نے کی جانب سے ہنومان جینتی پر ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے، ریاستی حکومتوں سے امن و امان برقرار رکھنے، تہوار کے پرامن انعقاد اور معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے والوں کی نگرانی کو یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی گئی۔ ریاستوں کو ایسےتمام عناصر پر نظر رکھنے کی تلقین کی گئی جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل پڑنے کا خدشہ ہو۔ دارالحکومت دہلی میں ہنومان جینتی کے موقع پر جہانگیر پوری علاقے میں پولیس فورس کی بھاری تعیناتی کردی گئی ۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے ریاست میں نیم فوجی دستوں کو تعینات کرنے کا فرمان جاری کیا تو مرکزی وزارت داخلہ نے فوری طور پر ریاستی پولیس کی مدد کے لیے نیم فوجی دستے فراہم کرکے ٹویٹ میں اس کی تفصیل بیان کردی ۔ یہ ایڈوائزری دراصل بی جے پی کے حامی فسادیوں کے لیے تھی کہ اب تشدد نہ کرو ورنہ بخشا نہیں جائے گا۔ بس پھر کیا تھا سارا جوش و خروش ٹھنڈا ہوگیا کیونکہ فسادیوں کے سر سے انتظامیہ کے تحفظ کا ہاتھ اٹھ جائے تو وہ اپنے بلوں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب تک سیاسی فائدہ ہوتا ہے فسادیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اگر نقصان کا اندیشہ ہوتو انہیں روک دیا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں بہار کے اندر ہسوا میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو 2024 میں اکثریت کے ساتھ (بہار میں) 40 میں سے 40 سیٹیں دے کر اقتدار میں واپس لائیں۔ بی جے پی کی 2025 کے اسمبلی انتخابات میں حکومت بنوائیں تو بی جے پی فسادیوں کو الٹا لٹکا کر سیدھا کرنے کا کام کرے گی کیونکہ ان کی حکومت میں دنگے نہیں ہوتے۔ اس کذب بیانی کو جملہ (بازی) قرار دیتے ہوئے رکن پارلیمان کپل سبل نے قومی جرائم کا اندراج کرنے والے سرکاری ادارہ این سی آر بی کے اعداد و شمار کا حوالہ دے کر کہا کہ 2014 سے 2020 کے درمیان 5415 فرقہ وارانہ فسادات رپورٹ ہوئے۔ 2019 کے 25 فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے زیادہ یوپی میں9، مہاراشٹر میں4، ایم پی میں2 فسادات شامل ہیں۔ 2021 میں ہریانہ سرِ فہرست ہے اس کے علاوہ گجرات اور مدھیہ پردیش بھی اس فہرست میں موجود ہیں۔ دہلی کی پولیس خود براہِ راست امیت شاہ کے تحت کام کرتی ہے اس کے باوجود پچھلا اسمبلی الیکشن جیتنے اور این آر سی ، سی اے اے احتجاج کو دبانے کی خاطر پہلےشمال مشرقی دہلی میں فساد کیا گیا ۔ اس کے بعد میونسپل کارپوریشن میں اپنی پکڑ مضبوط بنانے کی خاطر گزشتہ سال جہانگیر پوری تشدد کی آگ بھڑکائی گئی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ شاہ جی دونوں مرتبہ فرقہ وارانہ فساد کے خون سے سینچ کر کمل کھلانے میں ناکام رہے۔ عام آدمی پارٹی کے جھاڑو نے اس کا صفایہ کردیا۔

رام نومی کے دوران مغربی بنگال اور بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کےمدنظرسبل نے وزیر اعظم مودی کی ‘خاموشی’ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ تشدد کے لیے،2024 کے عام انتخابات وجہ نہ بننے دیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ 2024 کے عام انتخابات قریب آتے ہی بی جے پی فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کی کوشش میں ہے۔ مغربی بنگال اور گجرات میں حالیہ واقعات اس کا’ٹریلر‘تھے۔امسال رام نومی کے دن تقریباً 15 واقعات رونما ہوئے جن میں مسلم مخالف تشدد، گاڑیوں اور مکانات کی توڑ پھوڑ، مساجد اور درگاہوں پر بھگوا پرچم لہرانا اور پتھراؤ شامل ہیں۔ان واقعات کی ویڈیوزاور تصاویر سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ آئندہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر فرقہ پرست طاقتیں ابھی سے اپنے حربے اپنانے میں لگ گئی ہیں۔ گزشتہ سالوں کی طرح اس بار بھی ملک بھر میں رام نومی کے دوران تشدد اور جھڑپوں کے واقعات میں کم از کم 22 افراد زخمی ہوئے اور 54 کو گرفتار کیا گیا ۔ یکم اپریل کی رات بہار شریف میں دو گروہوں کے درمیان ہونے والی گولے باری میں ایک 16 سالہ لڑکے کی موت ہوگئی ۔وہ غریب سبزی خریدنے نکلا تھا مگر گولے کی زد میں آ گیا۔

وطن عزیز میں فرقہ وارانہ فسادات کی مدد سے سیاست چمکانے کا کام سبھی سیاسی جماعتوں نے بوقتِ ضرورت لیا ہے لیکن اس معاملے میں بی جے پی سب سے آگے ہے۔ بی جے پی کے راج میں ائیر انڈیا کا ہوائی جہاز اغوا ہوکر قندھار پہنچ گیا ۔ اکشر دھام اور رگھوناتھ مندر پر حملے بھی اس کی حکومت کے دوران ہوئے۔ کارگل کی سرحدی چپقلش اور ایوان پارلیمان کو اسی کے زمانے میں نشانہ بنایا گیا۔ امرناتھ یاتریوں اور گودھرا کی سابرمتی ایکسپریس میں رام بھکتوں پر بی جے پی کے دور اقتدار میں حملہ ہوا۔ یہ سب اٹل جی کے زمانے کی باتیں ہیں۔ اس کے بعد چھپنّ انچ کاسینہ لے کر مودی جی آئے مگر یہ حملے تھمے نہیں۔ پٹھان کوٹ کے ائیر بیس پر حملہ ہوا۔ اس کے بعد اری کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ۔ امرناتھ کے زائرین پر دوسرا حملہ اور بالآخر پلوامہ کا دھماکہ ہوگیا تاکہ سرجیکل اسٹرائیک کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ ان سارے ہنگاموں کی تاریخیں انتخابی مفاد سے جڑی ہوئی ہیں ۔گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اورسنگھ سیوک شنکر سنگھ واگھیلا نے کھلے عام گودھرا فساد کےلیے مودی کی صوبائی سرکار اور پلوامہ دھماکے والی کار پر گجرات کی نمبر پلیٹ ہونے کا انکشاف کر چکے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے فسادات کے ہونے اور رکنے دونوں کا تعلق حکومت کی مرضی سے ہوتا ہے۔ رام نومی اور ہنومان جینتی کا فرق اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448973 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.