آج کے ہندوستان میں مسلم معاشرے کو سماجی، اقتصادی،
سیاسی اور ثقافتی ہر سطح پرمتعدد مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ یہ
مسائل مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پر بری طرح اثر انداز ہو
رہے ہیں۔بحیثیت شہری اور بحیثیت قوم مسلمانوں کا حال اور مستقبل دونوں شدید
خطرے میں ہیں ۔آغاز میں ان کے سیاسی ، قانونی اور معاشرتی حقوق کے مسائل
درپیش تھے لیکن اب ان کی بقا ہی خطرے میں نظر آرہی ہے ۔ جبکہ مسلم مخالف
قوتیں دن بدن زور پکڑ رہی ہیں ۔کیونکہ ان کے پاس اکثریتی طاقت تو تھی ہی اب
ریاستی اور حکومتی طاقت کا استعمال کر کے مسلمانوں کو کمزور سے کمزور تر کر
نے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔کہیں مسلمانوں کو دیس نکالا دے کر سرحد سے
پاربنگلہ دیش کی جانب دھکیلا جا رہا ہے او رکہیں پاکستان بھیجنے کی دھمکی
بلکہ حکمت عملی کار فرماہے ۔وہی مسلمانان ہند جو سیکڑوں برس تک ہندوستان پر
حکومت کرتے رہے اب بے بس نظر آتے ہیں۔ کیونکہ بی جے پی حکومت ، سیاسی
جماعتیں ،انتہا پسند ہندو تنظیمیں، میڈیا حتیٰ کہ عدالتیں تک مسلمانوں کو
برابر کا شہری تسلیم کرنے اور ان کے قانونی اور انسانی حقوق دینے کے لیے
تیار نہیں ہیں ۔ بھارت میں کوئی اقلیت بھی خود کو محفوظ تصوّر نہیں کرتی
لیکن سب سے ناروا سلوک مسلمانوں سے ہوتا ہے ۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران میں سماجی اور سیاسی منظرنامے میں اقلیتوں کے
آئینی حقوق پامال کرتے ہوئے اکثریتی طبقات بے مہار قوّت بن گئے ہیں، جس نے
خاص طور پر مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ آئین و قانون کی موجودگی کے
باوجود فاشسٹ طبقہ اس قدر زور آور اور بے لگام ہو گیا کہ ہندوستانی
مسلمانوں کو ہر طرح کے چیلنج کا سامنا ہے، جن میں امتیازی سلوک، تعصب، فرقہ
وارانہ فسادات اور سیاست اور میڈیا میں کم نمائندگی شامل ہے۔ بہت سے
ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم کی کمی اور معاشی مواقع تک محدود رسائی کی وجہ
سے غربت اور بے روزگاری کا سامنا ہے۔
2011-12 میں مسلمانوں میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد تھی، جبکہ قومی اوسط
5.4 فیصد تھا۔ یہ ہندوستان کے ملازمت کے بازار میں مسلمانوں کے لیے محدود
مواقع کا ایک تشویشناک اشارہ ہے۔ اس رُحجان نے نے صحت کی دیکھ بھال اور
معیاری تعلیم جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی سمیت ان کی ترقی اور تعمیر میں
رکاوٹ ڈالی ہے۔ جب بات صحت کی نگہداشت تک رسائی کی ہوتو دیہی علاقوں کے
مسلمان زیادہ متاثرہیں، جہاں نگہداشت صحت کی خدمات محدود ہیں۔2011-12 کے
نیشنل سروے سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں نگہداشت صحت کی خدمات تک مسلمانوں کی
رسائی سب سے کم تھی، صرف 23.4 فیصد مسلمانوں کو طبی سہولیات تک رسائی حاصل
تھی جبکہ قومی اوسط 34.6 فیصد تھا۔
معاشی طور پر خود مختار اور خوشحال نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسلمان اپنے بچوں
کو پرائمری اور انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کے لیے مدارس اور سرکاری اسکولوں میں
بھیجنے پر مجبور ہیں۔ ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت مالی مجبوریوں
اور خاندان کی کفالت کی ضرورت کی وجہ سے اپنی پڑھائی بند کرنے پر مجبور ہے۔
2011-12کے نیشنل سیمپل سروے کے مطابق مسلمانوں کی خواندگی کی شرح 68.5 فیصد
تھی، جبکہ قومی اوسط 74.04 فیصد تھا۔
اسی طرح ابتدائی تعلیم میں مسلم طلبہ کے داخلہ کا تناسب 87.6 فیصد کے قومی
اوسط کے مقابلے میں 71.5 فیصد تھا۔ اس سے علم ہوتا ہے کہ مسلم طلبہ معیاری
تعلیم تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے جو سماجی و اقتصادی پس ماندگی بڑھا رہی
ہے۔ 2011۔ 12 کے نیشنل سیمپل سروے کے مطابق مسلمانوں کی شہری غربت کی شرح
28.3 فیصد تھی، جبکہ قومی اوسط 19.7 فیصد تھا۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں
مسلمانوں میں غربت کی شرح 30.7 فیصد تھی جبکہ قومی اوسط 24.7 فیصد تھا۔ یہ
اس حقیقت کا واضح اظہار ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی غربت کی سطح قومی
اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔
ہندوستانی مسلمان اکثر اپنی روزمرہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں بشمول روزگار،
رہائش اور عوامی خدمات تک رسائی میں امتیازی سلوک اور تعصب کا سامنا کرتے
ہیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کے ہر شہر میں مخصوص مقامات پر علیحدہ اور عام
سہولتوں سے عاری بستیوں کی تشکیل ہوئی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سماجی تفریق
میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس نے سماجی سطح پر عدم تحفظ کا احساس پیدا
کیا ہے۔ شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے فرقہ وارانہ تناؤ بلکہ تشدد عام ہوا
ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں مسلمان بہت سے واقعات میں تشدد کا نشانہ بنے
ہیں۔بے شمار مسلمان بلا اشتعال قتل ہوئے ہیں ۔ یوپی اور کئی ریاستوں میں
مسلمانوں کے صدیوں پرانے مدارس جبریہ بند کیے جارہے ہیں اور پہلے سے پس
ماندہ اور غریب مسلمانوں کے بچوں کے تعلیم کے سستے ذرائع کو محض تعصب اور
مسلم دشمنی میں بند کیا جا رہا ہے ۔یوں مسلمانوں کی مذہبی ، قانونی اور
انسانی آزادی سلب کی جا رہی ہے ۔آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کا سب
سے بڑا مسئلہ سیاسی نمائندگی کی کمی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاست اور
حکومت میں نمائندگی اکثرکم ہوتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے
باوجود، ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی اداروں اور اقتدار کے اعلیٰ دفاتر تک
رسائی بہت محدود ہے۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک
سبھا) میں 543 میں سے صرف 23 نشستیں ہیں، جو کل کے 5 فیصد سے بھی کم ہیں۔
اسی طرح ان کے پاس پارلیمنٹ کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں 245 میں سے صرف
29 نشستیں ہیں، جو کل کے 12 فیصد سے بھی کم ہیں۔ یہ کم نمائندگی ان کی
آبادی کی شرح کے بالکل برعکس ہے اور ہندوستان میں سیاسی اقتدار سے مسلمانوں
کو باہر رکھنے کی سوچ کو نمایاں کرتی ہے۔
ہندوستانی معاشرے میں مسلمانوں کے بارے میں سماجی دقیانوسی تصورات بھی پائے
جاتے ہیں، جو ان کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کا باعث بنتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کو اکثر سخت نگرانی اور حفاظتی اقدامات کا سامنا کرنا
پڑتا ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے حراست میں لے کر
انھیں ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔یوں دُنیا کی سب بڑی جمہوریت میں آبادی کا
اتنا بڑا طبقہ اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے جو جمہوری
اور انسانی قدروں کے منہ پر تھپڑ مارنے کے مترادف ہے ۔ لیکن اقوامِ متحدہ،
او آئی سی، مسلم ممالک سمیت بڑی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔کہیں
صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی ۔ آخر کیوں،ظلم کایہ سلسلہ کب تک جاری رہے
گا؟
|