سیاسی الزامات کی جنگ اور بارش متاثرین

ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین الزام تراشیوں کی جنگ نے جہاںجمہوریت اور موجودہ سیاسی نظام پر سوالیہ نشان لگادیا ہے وہاں عوام کو بھی شدید مایوسی میں مبتلاکیا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے اب مقتدر قوتیں بھی ان الزامات پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ہیں مسلح افواج کی جانب سے کراچی کے حالات پر تشویش کا اظہار اس کی واضح مثال ہے۔

ہم 28 اگست سے 10 ستمبر 2011ءتک کی الزام تراشیوں کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک کی تقریباً تمام ہی بڑی سیاسی جماعتیں دہشت گردی، ملک دشمنی کی مرتکب اور سنگین سازشوں میں ملوث ہیں۔ 28 اگست کو سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے قائد الطاف حسین کے علاوہ اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک پر ملک توڑنے کے حلفیہ سنگین الزام لگائے اگرچہ متحدہ قومی موومنٹ کے فیصل سبزواری نے 29 اگست ،سابق سٹی ناظم سید مصطفی کمال نے 6 ستمبر اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے 9 ستمبر 2011ءکو نہ صرف ان الزامات کا بھرپور جواب دینے کی کوشش کی بلکہ دیگر سیاسی قوتوں پر حملے کرکے سیاسی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ متحدہ کی جانب سے آنے والے جوابات کے بعد بھی کلی طور پرڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے الزامات کی تردید نہیں ہوسکی ہے بلکہ نامکمل جوابی حملوں نے صورت حال کو مزید گھمبیر کردیا ہے جس کے بالعموم پاکستانی سیاست اور بالخصوص ایم کیوایم کی ساکھ پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

7 ستمبر 2011ءکو مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے لاہور میں ایک تقریب کے دوران حکومت اور صدر زرداری پر وار کرتے ہوئے ماضی کے کئی واقعات کا حوالہ دیا اور کہاکہ ”بہتر ہوتاکہ زرداری صاحب ایسی ہیرا پھیریاں نہ کرتے “اور بعض حکومتی ذمہ داروں پر کرپشن کا الزام بھی دہرایاجبکہ 8 ستمبر کو صدر زرداری نے جوابی حملہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو آگاہ کیا کہ”میاں صاحب ہوش کے ناخن لیں یہ نہ ہوکہ میں آپ کو اپنی کھولی میں بھی بلاسکوں اور نہ آپ مجھے اپنی کھولی میں“۔غالباً صدر ذرداری نے اپنے نامہءاعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے آنے والے ممکنہ حالات کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ 10 ستمبر کو آصف علی زرداری کے اپنے ہی شہر بےنظیر آباد (نواب شاہ) میں نواز شریف نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ”زرداری صاحب !یہ سیاست کرنے کا نہیں بلکہ ملک بچانے کا وقت ہے اور اس مشکل وقت پر قوم کی مدد کی جائے۔ کھولیوں میں کسی نہ کسی طرح ملاقات ضرور ہوگی“۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے جماعت اسلامی پر بھی ایک بھرپور حملہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ 12 مئی 2007ءکے واقعہ میں جماعت اسلامی ملوث ہے جس کے کراچی کے امیر محمد حسین محنتی کے گھر میں مہاجر قومی موومنٹ کے مبینہ دہشت گردوں کو طلب کرکے انہیں ایم کیو ایم کے جلوس پر حملہ کرنے کےلئے پیسے دئے گئے جبکہ اسلحہ جماعت اسلامی کے مبینہ تھنڈر اسکواڈ (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ہیڈ کوارٹر سے فراہم کیاگیا۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا اور ایک مرتبہ پھر 12 مئی 2007ءسمیت کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں متحدہ قومی موومنٹ کو ہی ملوث ٹھہرایا۔

الطاف حسین نے اپنی پریس کانفرنس میں عوامی نیشنل پارٹی پر الزام لگایا تھا کہ گزشتہ الیکشن( 2008ء) میں کامیابی کےلئے امریکا نے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یارولی کو کئی ملین ڈالر فراہم کئے تھے جس کا جواب دیتے ہوئے اے این پی نے 10ستمبرکو نہ صرف اس کی تردید کی بلکہ ایم کیو ایم کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ 11 ستمبر کو اس کا جواب دیتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اے این پی کو دہشت گرد جماعت قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد جماعت ہے۔

اگر گزشتہ دو ہفتوں کے ان تمام الزامات اور جوابات کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا پورا سیاسی نظام بدعنوانی، مفاد پرستی، انا پرستی اور بدنظمی کا شکار ہے، انہی الزامات اور بیانات کو مدنظر رکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ملکی سا لمیت اور عوامی مسائل کی کوئی فکر نہیں، انہیں صرف گروہی اور ذاتی مفادات کی فکر ہے ، کیونکہ جس وقت الزامات کی جنگ کایہ سلسلہ جاری تھا اس وقت پاکستان کا آبادی کے حساب سے دوسرا بڑا صوبہ سندھ شدید تباہی کا منظر پیش کررہاتھا۔

سندھ کے60 لاکھ سے زائد افراد کلی طور پر شدید بارشوں سے متاثر ہوئے جبکہ جزوی طور پر متاثر ہونے والوں کی تعداد70 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق صوبے کے 23 میں سے 21 اضلاع کو بارش نے شدید متاثر کیا ہے۔ اب تک210 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ مختلف علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑے جن کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد دو درجن سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق متاثرہ علاقوں میں6لاکھ90ہزار گھر ،25لاکھ ایکڑ سے زاید رقبے پر کھڑی فصلیں ، لاکھوں بچے اور خواتین بھی بے سرو سامانی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔23اگست سے تاحال (12ستمبرتک)سندھ میں بارشوں نے تباہی مچادی ہے ۔دینی رفاحی امدادی کارکنوں اور متعلقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے نمائندوں کے مطابق مسلح افواج، نیم فوجی دستے، چند دینی رفاہی اداروں اور بعض حکومتی اداروں کے علاوہ دور دور تک کہیں بھی نام نہاد مغرب نوازرفاہی ادارے (این جی اوز) اور عوامی نمایندگی کی دعوے دارسیاسی قوتوں کا نام ونشان نظر نہیں آتاالا قلیل ۔

اس مشکل گھڑی میں دینی رفاہی اداروں نے ماضی کی طرح اس بار بھی متاثرین بارش کی مدد کرکے خدمات کی اعلیٰ مثال قائم کردی ہے یہ وہی لوگ ہیں جن کو مغرب نواز دہشت گرد کہتے ہیں جن کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی امدادی کارکنوں اور میڈیا کے نمائندوں کے مطابق متاثرین کی مدد میں اس وقت معمار ٹرسٹ،الخدمت فاﺅنڈیشن اور فلاح انساینت فاﺅنڈیشن نامی دینی رفاہی ادارے ہی سرگرم ہیں ۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ مسلم لیگ( ن) نے اس کو شدت سے محسوس کیا اور پہلے مرحلے پر مسلم لیگ( ن) کے مرکزی رہنمااور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 24 اگست 2011ءکو بدین کا دورہ کیا اور متاثرین میں امداد تقسیم کی۔ دوسرے مرحلے میں مسلم لیگ (ن )کے قائد میاں محمد نواز شریف 10 ستمبر 2011ءکو متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور امداد تقسیم کی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان کا یہ دورہ بھی سیاسی اختلافات اور حملوں کی نذر ہوا۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں صدر زرداری کو دعوت دی کہ اختلافات کو بھلا کر اس مشکل وقت میں ہم سب مل کر متاثرین کی مدد کریں۔ ان کا اشارہ صدر زرداری کے بیرونی دورے پر ناراضگی کی جانب تھا لیکن پیپلز پارٹی کے بابر اعوان اور سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے نواز شریف کے دورہ سندھ کا خیر مقدم کرنے کے بجائے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

ہم مجموعی طور پر دو ہفتوں کی الزام تراشیوں اور سندھ کے عوام کی مصیبت کو مدنظر رکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس دوران الزامات اور جوابی حملوں کا سلسلہ جان بوجھ کر شروع کیا گیا ہے تاکہ سندھ کے متاثرین کی مدد نہ ہوسکے چاہئے تو یہ تھا کہ اس مصیبت کی گھڑی پر پوری قوم اور میڈیا کی توجہ ان متاثرین کی مدد اور بحالی پر مرکوز ہوجاتی مگر بدقسمتی سے پوری قوم اور میڈیا کی توجہ اب الزامات اور جوابی حملوں پر مرکوز ہے۔ یہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ سندھ کے لوگوں میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے جن کا یہ الزام ہے کہ اس موقع پر جان بوجھ کر سندھ کو نظر انداز کیا جارہا ہے دوسری جانب قومی سلامتی کے ادارے اور عدلیہ بھی اس سارے معاملے پر انتہائی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ حالات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب کی مرتبہ اگر سیاست دانوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو بہتر نہیں کیا تو پھر ایک مرتبہ پھر ”اسلام وعلیکم عزیزہم وطنو!“ کو کوئی نہیں روک پائے گا اور اب کی مرتبہ پھر عزیز ہم وطنو! کو قوم کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی کیونکہ ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو ناکام بنانے میں خود بچے جمہورے ہی ملوث ہیں اور اب یہاں پر جمہوریت مزید پنپ نہیں سکتی۔ عزیز ہم وطنو! کے ادوار میں عوام کو کم از کم سکون اور چین تو نصیب ہوتا ہے لیکن جمہوری دور میں تو سکون، چین، روٹی، کپڑا مکان سب چھن گیا۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ملی بھگت سے ملک کو غیر ملکی کالونی بنادیا۔ جمہوری دور میں صرف ایک سال میں بیرونی قرضوں میں 20 ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ بیرونی قرضے60 ارب ڈالر کی حد کو بھی کراس کرچکے ہیں تاہم اگر سیاستدان چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کی بقاءہو اور نظام چلتا رہے تو انہیں اپنے الزامات کا جواب جوابی حملے کے طور پر نہیں بلکہ حقائق پر مبنی دینا ہوگا اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان الزامات کی جواب طلبی کےلئے ایک کمیشن بنائے جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمائندگی ہو۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 107133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.