۱۱ ستمبر:گرد چہرے پر جمی تھی آئینہ دھوتے رہے

سرد جنگ کے اختتام پذیر ہونے کے بعد اگر امریکہ جنگ و جدال کے طریقہ کار کو سرد بستہ میں ڈال کر مسلم دنیا سے امن و سلامتی کی بنیاد پر تعلقات استوار کر لیتا تو جارج بش کو ۱۴ ستمبر ؁۲۰۰۱ کے دن یہ اعلان کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ‘‘یہ اکیسویں صدی کی پہلی جنگ ہے ’’ ۔ قدرت نے سوویت یونین کےخاتمے کے بعد امریکہ کوایک نادر موقع عنایت فرمایا تھا ۔ وہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا نیز اس کے علاوہ دوسری عالمی اسلامی قوت امریکہ کے ساتھ تھی ۔ اگر اس وقت امریکی انتظامیہ جنگ و جدال کو سرد خانے میں ڈال کر اسلامی دنیا کی جانب امن و دوستی کا ہاتھ بڑھاتا تو یہ صدی ساری دنیا کیلئے بشمول امریکہ کے ایک سلامتی و خوشحالی کی صدی بن سکتی تھی لیکن اس نے یہ موقع گنوا دیا اور ایک دہائی کے اندر خود اپنی قبر تیار کردی جس میں دن بدن زندہ درگور ہو رہا ہوتا جارہا ہے ۔

امریکہ فی الحال جس معاشی بحران کا شکار ہے اسکی سب سے بڑی وجہ جنگی اخراجات ہیں ۔گزشتہ دس سالوں میں ۱۲۸۰ بلین ڈالر اس یکطرفہ جنگ پر خرچ کرچکا ہے ۲۰۲۱ تک اخراجات کا تخمینہ ۱۸۰۰ بلین ڈالر ہے ۔اس خطیررقم میں سے۶۳ فی صد یعنی ۸۰۶ بلین ڈالر عراق پر خرچ ہوئے جس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا دیگر فوجی اڈوں پر ۲۹ بلین اور افغانستان پر صرف ۴۴۴ بلین یعنی ۳۵ فیصد خرچ ہوا جس کو زبردستی حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا ۔ ۶ بلین کا کوئی حساب نہیں ملتا لیکن ان ۱۲۸۰ بلین ڈالر میں کس قدر رقم بلواسطہ یا بلا واسطہ سیاستدانوں اور ان کی حمایت کرنے والے سرمایہ داروں کی تجوری میں چلی گئی اس کا اندازہ لگانا نا ممکن ہے اس لئے کہ اس پرقومی سلامتی کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے۔ اس دولت کی ریل پیل کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس حکومت کے پاس اپنے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے وسائل نہیں ہیں اپنے بزرگوں کی خاطرصحت کا بجٹ نہیں ہے ۔جس ملک کے خزانے کا رواں رواں قرض کے بوجھ تلے دب گیا ہےوہ آخر اس بے جواز جنگ کو کیوں جاری رکھے ہوئے ہے ؟

مالی خسارے کے علاوہ وہ جانی نقصان ہوا ہے اسکی تفصیل رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے ۔ ۱۱ستمبر کے حملے میں کل ۲۸۰۰ کے آس پاس لوگ مارے گئے ان کا بدلہ لینے کیلئے جو جنگ چھیڑی گئی اس میں خود امریکی اعتراف کے مطابق ۶۲۰۰ فوجی مارے گئے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر حکومت اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کی تعداد گھٹا کر بیان کرتی ہے خود امریکہ کے اندر اس بارے میں زبردست رازداری برتی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ امریکہ کی اس جنگ میں بے شمار ایسے بے روزگار جنگجو نوجوان بھی شریک ہوئے ہیں جنھیں فوج میں باقائدہ شامل نہیں کیا گیا ان مر سی نری(mercenary ( کیلئے سرکاری دہشت گرد کے علاوہ کوئی اور اصطلاح مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔ان لوگوں کی موت و حیات کو ریکارڈ نہیں رکھا جاتا اور ان کی ہلاکت ۶۲۰۰ میں شامل نہیں ہے ۔ امریکی انتظامیہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے باقائدہ ۵۵ ہزار فوجی زخمی ہوئے ہیں اور جو نفسیاتی امراض کا شکار ہوئے وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں ۔ عراق میں ان ظالموں نے ۱۲ لاکھ اور افغانستان میں ۲۰ ہزار معصوموں کو شہید کیا ۔ پاکستان اور صومالیہ وغیرہ میں ۶۵۰۰ افراد جان بحق ہوئے۔ہندوستان کے فاضل مبصرین بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ۱۱ ستمبر کے بعد کوئی بڑا دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا یہ بھی غلط ہے اس دوران ۱۳ بڑےحملے ہوئے جس میں ۱۰۰۰ افراد ہلاک ہوئے ۔

اپنے آپ کودنیا بھر کے مظلوموں کا نجات دہندہ کہنے والے امریکہ کا یہ حال ہے کہ وہ خود ۱۱ ستمبر کے حملے میں امدای کام کرنے والے رضا کاروں کے زخموں کا بھی مداوہ کرنے میں بری طرح نا کام رہا ۔ایک حالیہ تحقیقی مطالعہ میں یہ انکشاف ہوا ہے جن ۵۰ ہزار لوگوں نے اس کار خیر میں حصہ لیا تھا ۔دس سال بھی ان میں سے ڈپریشن یعنی مایوسی و بے حوصلگی کا شکار لوگوں کی تعداد ۲۸ فی صد ہے ۔ذہنی دباؤ کا شکار ۳۲ فی صد ہیں اور ۲۱ فیصد لوگ دیگر صحت کے مسائل سے جو جھ رہے ہیں ۔ماؤنٹ سینائی اسکول ڈاکٹر جون کے مطابق ان رجاکاروں کی بڑی تعداد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ۴۸ فیصد استھما اور ۴۳ فی صد دماغی امراض میں مبتلا ہیں ۔ ان رضا کاروں میں سفید فام لوگوں کا تناسب ۵۷ فی صد ہے ان کی اوسط عمر ۳۸ سال ہے ۔

امریکی انتظامیہ نے اس جنگ کو دو محاذ پرلڑی ایک محاذ پر بندوق، بمبار طیارے اور ٹینک تھے تو دوسرے پر کیمرہ ،مائک اور قلم تھا ۔ ایک کا شکاربیرونی دنیا تھی اور دوسرے کا مخاطب امریکی عوام لیکن پہلے کی دوسرے محاذ پر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ پی ای ڈبلیو جو امریکہ کا نہایت معتبر ادارہ ہے اس کے جائزے کے مطابق رائے عامہ بدل رہی ہے ۔ دس سال قبل جب لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ کیا حملہ اس لئے ہوا کہ ہم نے کوئی غلطی کی ۵۵ فی صد نے اس کا انکار کر دیا تھا لیکن اب ۴۳ فی صد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس حملے کی وجہ امریکہ کی اپنی غلطیاں ہیں اور ۴۵ فی صد اس سے اختلاف کرتے ہیں ۔اس میں بھی تقسیم پارٹی لائن پر ہے ڈیموکریٹ اور غیر جانبدار افراد اس کیلئے امریکی جرائم تو ری پبلکن اس کیلئے امریکہ کو ذمہ دار نہیں سمجھتے ۔یہ وہی ہٹ دھرمی ہے جو ہندوستان کے سنگھیوں میں پائی جاتی جن آنکھوں پر عصبیت کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔ پہلے ۵۵ فیصد یہ کہتے تھے حملے کے بعد امریکہ کا اقدام درست تھا اب ایسا سمجھنے والوں کی تعداد گھٹ کر ۴۰ فی صد تک جا پہنچی ہے خاص بات یہ ہے کہ نوجوان طبقے نے امریکی اقدام کو غلط قرار دیا ہے ۔اس سروے کے مطابق ۶۰ فی صد لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں ۱۱ ستمبر کے حملے نے امریکی طرز زندگی کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے گویا دھیرے حقائق سامنے آرہے ہیں اور شاعر کی بات سچ ہو رہی ہے ؎
کس سلیقے سے متاعِ ہوش ہم کھوتے رہے
گرد چہرے پر جمی تھی آئینہ دھوتے رہے

اس تبدیلی سب سے بڑی قیمت مسلمانوں نے چکائی ان کو ہراساں کرنے کی بے شمار کو ششیں کی گئیں ۔ مختلف انداز میں انہیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔ اس سال عید کے بعد نیویارک ایک تفریحی پارک میں جب مسلمان خاندان پہنچے تو کئی مقامات پر ان کی خواتین سے حجاب ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا اور انکار کرنے پر انہیں فیس واپس لے کر نکل جانے کیلئے کہا گیا ۔ اس ناروا سلوک کے خلاف کچھ لو گوں نےاحتجاج کیا تو ان میں سے ۱۵ کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور پارک کو وقتی طور پر بند کر دینا پڑا ۔ مسلمان امریکہ میں کس قدر رسوا کئے گئے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ۳۵ فی صد مسلمان اب امریکہ کو ترجیحی ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ۔

افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے سے زیادہ سنگین معاملہ ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا ناپاک وجود ہے ۔اگر امریکہ اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتا تو ۱۱ ستمبر کا حملہ کبھی بھی نہیں ہوتا لیکن اس نے اس معاملے میں دورخی برتی ۔ اسرائیل کی نہ صرف ہر طرح سے حمایت کی بلکہ اسکے جرائم میں بذاتِ خود شریک ہو گیا اور تو اور فلسطینیوں کے حامی مصر کو توڑ کر اپنے ساتھ کر لیا اور اسے اپنے بھائیوں کے بجائے اپنے دشمن کا ہمنوا بنا دیا ۔ اس کے بعد فلسطینی آزادی کے رہنما یاسر عرفات کو اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا اور انہیں ہر طرح سے رسوا کر کے ان کی جگہ اپنے زر خرید پٹھو محمود عباس کو بٹھا دیا ۔اس طرح فلسطینیوں کو چہار جانب سے گھیر لیا گیا اس کا ردِ عمل وہی ہوا جو اس بلی کا ہوتا ہے جسے مارنے سے پہلے نکاسی کے سارے راستے بند کر دئیے جاتےہیں ۔ ایسی صورتحال میں بلیّ حملہ آور کے ہاتھ پر نہیں بلکہ چہرے پر جھپٹ پڑتی ہے اور یہی ہوا ورلڈ ٹریڈ سنیٹر امریکہ کا تشخص تھا اس کی پیشانی پر چمکتا ہوا تارہ تھاجو دیکھتے دیکھتے ڈھیر کردیا گیا اور اسی کے ساتھ ایک اور سپر پاور کا سورج زوال پذیر ہوگیا۔

امریکہ کے تحقیق و تفتیش کے ادارے نے دس سال بعد ۱۱ ستمبر پر اپنی رپورٹ کا خلاصہ پیش کیا اس کے مطابق امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی نے دوسرے جہاز کو مار گرانے کا حکم دیا تھا جسے ماننے سے فوج نے انکار کردیا ۔ اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ حملے کے بعد ایک زبردست افراتفری کا ماحول تھا اور کسی کو یہ پتہ نہ تھا کہ وہ کہ کیا کر رہا ہے گویا اس طرح کے حملے کا مقابلہ کرنے کی کوئی تیاری تھی اور نہ ہی منصوبہ تھا ۔ اس حملے کے بعد اس کا سیاسی فائدہ بڑی خوبی کے ساتھ اٹھایا گیا اوراس کے پسِ پردہ دنیا بھر میں جی بھر کےتباہی مچا ئی گئی ۔بےوقوف آدمی کی پیشانی پر احمق نہیں کھدا ہوتا اس کے اعضاء وجوارح بھی عقلمند جیسے ہی ہوتے ہیں دونوں کے اندر عقل موجود ہوتی ہے لیکن فرق اس کے استعمال سے پڑتا ہے ۔عقلمند دوسروں کی غلطی سے عبرت حاصل کر کے خود کو سنبھال لیتا ہے ۔امریکہ سوویت یونین کے انجام سے سبق سیکھ سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ معمولی بے وقوف اپنی حماقت سے ہوشیار ہوکر ہے اصلاح کی جانب مائل ہو جاتا ہےلیکن ۱۱ستمبر کے حملے کے بعد وہ بھی نہ ہوسکا۔مہا بے وقوف اس طرح پہچانا جاتا ہے کہ وہ اپنی حماقت بیجا توجیہ کرتاہے ۔اس پر اصرار کرکے یکے بعد دیگرےحماقت کرتا چلا جاتا ہے ۔امریکی حکومت نے گزشتہ دس سالوں میں یہی کیا اوربالآخر نشانِ عبرت بن گیا۔ ۱۱ ستمبر کا پیغام یہی ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے دس سال قبل اس صدی کی جس جنگ کا اعلان کیا تھا اس میں امریکہ شکستِ فاش سے دوچار ہو چکا ہے ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1454807 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.