سیاسی حریف سے "سیاسی حکمت عملی "سے مقابلہ کا دور ختم ہوا!

حال میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے سربراہ اور قدآور سیاستداں شردپوار نے اڈانی گروپ کے خلاف ہنڈن برگ ریسرچ رپورٹ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی(جے پی سی) تحقیقات پر شبہات کا اظہار کرتے اپنے ریمارکس کے ایک دن بعد نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) صدر شردپوار نے دعویٰ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کی زیرنگرانی تحقیقات کے حق میں ہیں،بلکہ کہاکہ مہنگائی‘ بے روزگاری اور کسانوں کے بڑے مسائل کے بجائے مرکز کی بی جے پی حکومت کو نشانہ بنانے امبانی۔ اڈانی جیسے صنعتکاروں کے مسائل اٹھانے پر بھی ناراضگی ظاہر کی۔ ان کے اس متنازع ریمارکس پر ہنگامہ کے بعد اپنا موقف واضح کرتے ہوئے شردپوار نے کہا کہ وہ جے پی سی تحقیقات کے خلاف نہیں ہیں لیکن 21رکنی کمیٹی بنی تو 15 برسراقتدار محاذ کے اور 6 اپوزیشن ارکان ہوں گے۔اکثریت کافیصلہ اثردار رہیگا،لیکن اس سچائی سے منہ نہیں موڑ سکتے ہیں کہ شردپوار ہمیشہ متوازن رہتے ہیں۔جیسے وہ حزب اختلاف کے ایک ہردلعزیز رہنما بھی بنے رہنا چاہتے اور ارباب اقتدار سے بھی "پنگا" لینے کے حق میں نہیں رہتے ہیں۔یعنی توازن رکھنا یا دکھانااور اصل میں اس عمل کو اچھے تناسب میں ترتیب دیتے ہیں۔

شردپوار ایک تیز طرار اور منجھے ہوئے سیاستداں سمجھے جاتے ہیں۔باغیانہ تیور بھی رکھتے ہیں،1978ء میں ریاست میں وسنت دادا پاٹل کاتختہ پلٹ کر کے وزیر اعلٰی بنے اور سب سے نوجوان وزیراعلی کا اعزاز حاصل کرلیا تھا۔پھر پیچھے نہیں دیکھا ایک قدآور لیڈر بن گئے۔

فی الحال راشٹروادی کانگریس پارٹی کے صدرہیں اور 12 دسمبر 1940ء کو مہاراشٹر کے شہر پونے ضلع میں واقع بارامتی میں پیدا ہوئے۔ وہ پہلی بار 1967ء میں مہاراشٹر ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ 1978 میں کانگریس پارٹی میں بغاوت کے بعد وزیراعلی بن بیٹھے،1980میں اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار میں آنے پر ان کی حکومت کو برخاست کردیاتھا۔

دوبارہ بغاوت کرتے 1998 میں سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کا معاملہ اٹھا تو پوار نے سونیا گاندھی کے خلاف موقف اختیار کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ دی اور 1999ء میں راشٹروادی کانگریس پارٹی(این سی پی) قائم کی،لیکن ۔ 2004 میں یو پی اے حکومت میں شامل ہوگئے۔ 2009ء میں ’مراٹھا مانوش‘ کو وزیر اعظم بنانے کی بات کرکے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی۔ ان کی اس بات کی حمایت مہاراشٹر میں حزب اختلاف کی جماعت شِو سینا نے بھی کی۔ تین دفعہ مہاراشٹر کے وزیر اعلٰی رہے۔ 1995 میں معلق اسمبلی بننے کے بعد گورنر نے انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی ،لیکن انہوں جوڑ توڑ کرنے سے انکار کردیا حالانکہ انہیں "جوڑتوڑ" کا ماہر ہی سمجھا جاتا ہے۔بلکہ سیاسی حلقوں میں یہ کہا جاتا تھا کہ شیوسینا سربراہ بالا صاحب سے قربت کے سبب انہیں مبینہ طور پر حکومت سازی کاموقعہ دیا تھا۔اور پرانی دوستی کا حق ادا کردیا تھا۔

ان کی اس بات میں دم توہے کی اس عدم توازن 15_6 کی وجہ سے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومت کی اکثریت کے مدنظر جے پی سی کے بجائے سپریم کورٹ کے مقررہ کمیشن کے ذریعہ تحقیقات زیادہ مستند اور آزاد ہو گی۔ وہ نہیں سمجھتے کہ جے پی سی کے مطالبہ کا اپوزیشن اتحاد سے کوئی لینا دینا ہے۔ شیوسینا یو بی ٹی رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے بھی عجیب بات کردی کہ شردپوار نے کچھ بھی نیا نہیں کہا ہے۔

جبکہ کانگریس لیڈر الکالامبا نے انتہائی جذباتی بیان دے مارا،وہ آمرانہ اقتدار کے گن گارہےہیں۔راہل گاندھی اکیلے ملک کے عوام کی جنگ لڑرہےہیں۔ سرمایہ دار چوروں سے بھی اور چوروں کی حفاظت کرنے والےچوکیدار سے بھی۔ یہ بیان انہوں نے سوشل میڈیاہینڈل پرپوسٹ کی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے این سی پی لیڈر شرد پوار اور گوتم اڈانی کی تصویر بھی شیئر کی ہے۔

بی جے پی کو موقع مل گیا ہے،کیونکہ الکا لامبا نے اپنی پوسٹ میں شرد پوار پرناقابل یقین حملہ کیا ہے۔الکا نے انہیں لالچی اور بزدل کہاہے۔ ایک مہاراشٹرین ہونے کے ناطے میں اس واقعہ سے حیران ہوں۔حالانکہ بعد میں الکانے کہاکہ شرد پوار پر ان کاتبصرہ پارٹی کا سرکاری بیان نہیں ہے۔ باضابطہ بیان ان کی پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری کیاگیاہے۔

شردپواراور پھر بھتیجے اجیت پوار کابیان ایسے وقت میں کیوں آیا جب اپوزیشن مسلسل مرکزی حکومت سے اڈانی ہنڈن برگ معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی(جےپی سی) کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس بھی ہنگامہ آرائی کی نذرہوگیا۔۲؍دن قبل،این سی پی کے سربراہ شرد پوارنے ایک ٹی وی کو دئیےگئے ایک انٹرویو میں جےپی سی کے لیے اپوزیشن کے مطالبے کو غلط قرار دیا اور سپریم کورٹ کی انکوائری کمیٹی کو کافی بتایا۔تمام اپوزیشن نے جے پی سی کا مطالبہ کیاہے،یہ سچ ہے۔ ہماری پارٹیبھی اس میں شامل ہے، یہ بھی درست ہے۔ لیکن جے پی سی کی تشکیل میں 21؍ لوگ ہوں گے اور ان میں سے 15؍ لوگ حکمراں جماعت کے ہوں گے۔ اپوزیشن کے 5؍تا6، لوگ ہی ہوں گے توسچ کیسے سامنے لائیں گے۔ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس لیے میں کہتا ہوں کہ سپریم کورٹ نےکمیٹی بنانے کے لیے جو دوسرا آپشن دیا ہے وہ بہتر ہے۔

اس درمیان پوار کے بھتیجے نے بھی وزیر اعظم کی تعریف کی،شرد پوارکےبیان کے بعد ان کے بھتیجے اجیت پوار نےمودی حکومت کی تعریف کی۔ اجیت پوار نے بی جےپی کی مسلسل جیت کے لیے ای وی ایم نہیں بلکہ مودی کے چہرے کو سبب بتایاہے، اجیت پوار نے کہاکہ مجھے ذاتی طور پر ای وی ایم پر پورا بھروسہ ہے۔اگر ای وی ایم میں خرابی ہوتی تو چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، راجستھان، پنجاب، کیرالہ، تمل ناڈو، تلنگانہ، آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت نہیں ہوتی۔

دراصل یہ بات سبھی کو پتہ ہے ،اجیت پوار پر بدعنوان کے الزامات عائد کیے گئے ،جن میں کئی سے وہ فڑنویس کے ساتھ نائب وزیراعلی بن کر نکل گئے اور مذکورہ بیان کے بعد ایک خبر کے مطابق ای ڈی نے انہیں کلین چٹ دے دی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اڈانی نے بارہ متی میں بجلی سپلائی کے ایک منصوبے پر توجہ دی ہے،کچھ عرصہ قبل اڈانی اجیت پوار کے جواں سال بیٹے اور سیاست دان کے ہمراہ بارہ متی کے دورہ پر بھی گئے تھے اور اجیت کے بیٹے نے خود کار ڈرائیوکی تھی۔

گزشتہ تین دہائیوں میں صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نےشردپوار کی سر گرمیوں کا جائزہ لیا تو یہ علم ہوا ہے کہ اپنے سیاسی حریف سے سیاسی انداز میں ہی لڑنے کے حامی ہیں۔میں اپنی یاداشت سے نکال کر یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت شرد پوار بعد وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی کابینہ میں وزیر دفاع تھے اور ممبئی کے شدید فسادات کے بعد اور خود کو مزید مستحکم کرنے کے مقصد سے واپس مہاراشٹر کا وزیراعلی بناکر بھیج دیاتھا ،6،مارچ 1993 کو ان کے وزیراعلی بننے کے محض چھ روز بعد ممبئی میں 12،مارچ 1993 کو سلسلہ وار بم دھماکے ہوگئے ۔اور ان دھماکوں کی تحقیقات کے دوران اقلیتی فرقے کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کی گئیں اور اس کے پیش نظر مسلمانوں میں ناراضگی فطری عمل تھا ،اس درمیان کئی مسلم لیڈروں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا،لیکن مولانا ضیاء الدین بخاری کو تو گولی مار دی گئی تھی۔ اقلیتی فرقے میں ناراضگی اور عدم اعتماد پیدا ظاہری بات تھی۔جس کی شرد پوار کو بھنک لگ گئی اور مسلم رہنماؤں اور اردو اخبارات سے وابستہ صحافیوں کو ایک مسلم وزیر جاوید خان کی رہائش گاہ پر مدعو کیا گیا۔ون کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیئے گئے اور مسلمانوں کی خفگی سے بھی آگاہ کیا گیا۔

شردپوارکا طریقہ کار ہے کہ بڑی تسلی اور خاموشی سے مسائل سنتے ہیں اور پھر بڑی میانہ روی سے جواب دیتے ہیں۔مسلم لیڈران اور صحافیوں کی عام شکایت رہی کہ 12 مارچ 1993 کے بم دھماکوں کے بعد پولیس نے جو مستعدی دکھائی ہے،وہ مستعدی پولیس نے دسمبر 1992 اور جنوری 1993 کے بم دھماکوں کے ملزمین کی گرفتاری میں نہیں دکھائی ہے،شردپوارباتیں سن کر نے بڑی شائستگی سے جواب دیا کہ "میں نے اس تعلق سے حکمت عملی تیار کرلی تھی ،لیکن 12 ،مارچ کے دھماکوں نے اسے ناکام بنا دیا ،ویسے بھی میرا لائحہ عمل رہا ہے کہ سیاسی پارٹی اور اس کے لیڈر سے سیاسی انداز میں ہی نمٹاجائے ، اُس کے لیے سرکاری مشنری کا بیجا استعمال نہ یں ہونا چاہئیے۔" اور یہ حقیقت ہے کہ اس کی وجہ سے ممبئی فسادات کے ملزمین آزاد گھومتے رہے اور اونچے اونچے عہدہ حاصل کرلیے۔اور 1995 میں انہیں ریاست میں طشتری میں اقتدار بھی سونپ دیا گیا،شردپوار اس قول پر عمل پیرا ہیں اور ہمیشہ "سیف سائٹ" یعنی "محفوظ پرواز" رہنا چاہتے ہیں اور کامیاب بھی ہیں۔لیکن عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے انہیں اندازہ نہیں ہے کہ آج جو لوگ برسراقتدار ہیں ،وہ اس کے قائل نہیں ہیں،بلکہ محترم اعلی آج کے سیاستداں کی سوچ بدل گئی ہے،"سیاسی حریف سے سیاسی حکمت عملی سے مقابلہ آرائی کادور اب ختم ہوچکا ہے۔

 

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 40038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.