مسئلہ کشمیر کے دو حل ہیں ایک اسلامی جہاد اور دوسرا
مغربی حق خود ارادی۔ اگلے 75 سال اسی لیپا پوتی میں گزر گئے کہ جہاد کا
راستہ بند کرنے والی اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو ان کا مسلمہ انسانی حق بھی
نہ لے کردیا۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی سرکردہ طاقتیں اسلام یا الحاد، کسی بھی
صورت میں مسلمانوں کوریلیف دینے کو تیار نہیں ، چاہے ان کے مسلمہ نظریات کا
بھانڈا ہی نہ پھوٹ پڑئے ۔ جبکہ کشمیر ایشو کے تینوں فریق، کشمیری،
ہندوستانی اور پاکستانی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں. کشمیری پچھلے 75
سالوں میں کشمیر پر پاکستانی موقف اور بے اثر پالیسیوں سے میں کوئی ربط پر
کشمیری عوام اکتا چکے ہیں اور پاکستان انٹرنیشنل فورم پر کشمیر کا کیس لڑنے
میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے. لہذا
اس وقت کی اور آئندہ آنے والے دنیا بھر میں سیاسی اور مفادات کی پالیسیوں
سے پاکستان حکمران کی سیاسی کمزوریوں اور محدود لائین کی آزادی سے اب ضرورت
یہ ہے کہ کشمیریوں کو خود ان کا کیس بین الاقوامی طور پر لڑنے دیا جائے. اس
پر کوئ مضائقہ نہیں. ، گزشتہ ادوار میں مختلف سیاسی و آمریت پاکستانی
حکمراں کی کشمیر پالیسی کمزور خارجہ پالیسی اور اپنی ناقص حکمت عملی کی وجہ
سے آج ہورا خطہ اور اس میں بسنے والے بلین سے زیادہ انسان موت کے دہانے پر
کھڑے ہیں۔ کشمیر پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے قطع نظر سابق
وزیراعظم پاکستان عمران خان کا موقف بہت واضع، قابل قبول اور حقائق بر مبنی
رہا ہے، اپنی کئی انٹرنیشنل دورے پر اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں سابق
وزیراعظم عمران خان نے واضع طور پر اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ کشمیر کے
مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے
دینا ہے. جبکہ گزشتہ ادوار اور حالیہ حکمرانوں سے صرف لیپا پوتی سے کشمیر
کاز پر ایک دو سوال کا منٹوں میں مختضر جوابات دیکر اپنا پلو جھاڑتے رہے.
جبکہ پاکستان حکمراں اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور عوام میں یہ سمجھا
جاتا ہے کہ یہ لائین آف کنٹرول کے پار کے لوگوں کا، یعنی کشمیریوں کا
معاملہ ہے، جبکہ یہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط معاملہ ہے، جس طرح
آئے دن پانی کے معاملے میں دیکھا کہ ہندوستان نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں
آبی ذخائر کو چینالائیز کر لیا ہے، ہندوستان اب مقبوضہ جموں وکشمیر کے پانی
کو پاکستان کے خلاف '' واٹر بم '' کی طرح استعمال کر سکتا ہے۔ اور ہماری
اسٹیبلیشمنٹ اور حکمران و حزب اختلاف کشمیر مسئلے کو ایک طرف کرکے آپس میں
برسرپیکار ہیں. پاکستانی حکمرانوں نے تو ہر محاذ پر پسپائی اختیار کی ہوئی
ہے، عملی میدان میں تو پہلے ہی ہتھیار ڈالدیے اور سفارتی سطح پہ تو بہت کچھ
ہوسکتا ہے. گزشتہ ادواروں میں ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر پہر
اپنے سفارت خانوں کو متحرک کررہے ہیں، اس کا مطلب کیا لیا جائے کہ ابھی تک
حکومتوں نے کشمیر کے مسئلے پر سرد مہری و خاموشی اختیار کی ہوئی تھی کیا۔
مسئلہ کشمیر پہ پاکستان اسٹیبلیشمنٹ و حکمران و حزب اختلاف جماعتوں نے جو
لاتعلقی اختیار کی ہوئی ہے. اور کشمیریوں کو جس طرح ظالم اور جابر ہندوستان
کے رحم و کرم پر چھوڑدیا ہے، یہ اقدام پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے
برابر ہے۔ اس میں آزاد کشمیر کی حکومتوں،سابقہ اور موجودہ حکومت بھی برابر
کی ذمہ دار ہیں، آزاد کشمیر حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ پاکستان حکمرانوں
سے پوچھے کہ آپ نے کیا کیا ہے ؟ آئندہ کیا کرنے کا ارادہ ہے؟وہ تو اپنے
مقامی مفادات میں محدود ہو گئے ہیں۔جب تک پاکستان کشمیر کے معاملے میں
متحرک تھا، ہندوستان کی ہمت نہیں ہوئی ،جب سے پاکستان نے پسپائی اختیار کی
تب ہندوستان نے پاکستان میں بھی مداخلت بہت زیادہ کر دی۔ جب اقوام متحدہ
میں کشمیر کیس گیا تھا. اقوام متحدہ کے آرٹیکل 35 ؍اے کے مطابق ( کوئی شخص
صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے، اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔
کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ
ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے۔
)
اب ان قوانین کے خاتمے کا نتیجہ یہ ہے کہ انڈیا کے ایک اَرب، 10 کروڑسے
زائد غیر مسلم بھی وہاں زمین کی خرید وفروخت کرسکتے ہیں تو پھر کشمیر ی
عوام کی اکثریت تحلیل ہونے میں چند ماہ کا عرصہ ہی درکار ہے جو تاریخی طور
پر 96 فیصد مسلم اکثریت پر مشتمل رہی ہے۔ جس طرح فلسطین کے شہر غزہ میں جو
کبھی %90 فیصد آبادی فلسطین مسلمانوں کیں تھیں. بعد میں اسرائیل نے اس ہی
طرح کے قوانین نافذ کرکے یہودیوں کو دنیا بھر سے لاکر زبردستی بسانا شروع
کردیا. اور فلسطینیوں کو غزہ سے مار مار کر ہجرت پر مجبور کردیا اب مسلمان
فلسطین کی آبادی % 40 سے بھی کم رہیگی ہے یہی چال انڈیا نے مقبوضہ کشمیر
میں اس کی شروعات کردی ہیں. پاکستان کو اب اقوام متحدہ یا دنیا کی طرف
دیکھنا تو کیا اب عرب ممالک بھی مشرق وسطی یا عرب دنیا کے لیے کشمیر سے
کہیں زیادہ اہمیت انڈیا کی ہے۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد
محمد بن زید النہیان نے ابو ظہبی کو نریندر مودی کا ’دوسرا گھر‘ بھی قرار
دے دیا۔ عرب ممالک کے حکمران اپنے اپنے مُلکوں کا مفاد انڈیا سے وابستہ
قرار دے چکے ہیں. اس کی خاص وجہ انڈیا کی سفارت کاری و آبادی کے لیحاظ
دوسرا دنیا کا بڑا ملک ہے. کشمیر کے مسئلے پر انڈین سفارت کاری مغربی ایشیا
میں کس طرح ان کی کارگردگی نظر آئی ’کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مغربی
ایشیا کے ممالک کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ یہ انڈیا اور پاکستان کا باہمی
معاملہ اور اسے انھیں آپس میں سلجھانا چاہیے۔ یہ بین الاقوامی مسئلہ نہیں
ہے اور جو ابھی آرٹیکل 370 ہٹایا گیا ہے وہ پوری طرح سے انڈیا کا اندرونی
اور آئینی مسئلہ ہے نہ کہ دوطرفہ مسئلہ۔ مغربی ایشیا میں ہر لیڈر اس بات کو
گہرائی سے سمجھتا ہے۔ عرب ممالک نے اپنے مفادات کی بھینٹ فلسطین پر جو کہ
عرب بھی ہیں اور ان کے ہم زبان بھی کبھی ان کی کُھل کر حمایت نہیں کی اور
نہ ہی اسرائیل کی مزحمت تو پاکستان اور کشمیر کے حکمراں اور عوام کو عرب
ممالک کی طرف دیکھنا سوائے وقت ضائع کے کچھ نہیں. اس کے لیے اب پاکستان
اسٹیبلیشمنٹ اور حکمرانوں دلیرانہ فیصلے کرتے ہوئےآزاد کشمیر اورگلگت
بلتستان پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کروا کر چین اور چند عرب ممالک سے
اسے بحثیت الگ ملک تسلیم کروا کر کشمیریوں کو ان کا کیس خود لڑنے دے اس میں
ہر لحاظ سے پاکستان کا ہی سراسر فائدہ ہے، ہندوستان ایک بند گلی میں داخل
ہوجائے گا اور ایسے مجبورا کشمیر پر رائے شماری کروانی پڑے گی. اگراب بھی
مزید انتیظار دیر ہوئی تو ہندوستان اہنے مقبوضہ حصے کی ڈیموگرافی بدل کر
رکھ دے گا پھر رائے شماری کا فائدے بجائے الٹا نقصان ہوگا دوسرا ممکنہ حل
جنگ ہے اور جنگ کی صورت میں دونوں ملکوں کے پاس صرف زمین کے ٹکڑے رہ جائیں
گے انسان نہیں اور اس وقت پاکستان جنگ کیا سرجیکل اسٹرائیک بھی نہیں کرسکتا.
جس طرح سے پاکستان کے معاشی، سیاسی ، داخلی و خارجی مسائل میں اُلجھا ہوا
ہے. اب نئی آنے والی حکومت کو فی الفور دلیرانہ فیصلہ کرکے آزاد کشمیر
اورگلگت بلتستان پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کروا کر چین اور چند عرب
ممالک سے اسے بحثیت الگ ملک تسلیم کروا کر کشمیریوں کو ان کا کیس خود لڑنے
دے. اس ہی میں تمام کشمیریوں اور پاکستان کی عزت و بہتری ہے.
|