2004؍ کا قومی انتخاب وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی
قیادت میں لڑا گیا اور بی جے پی شکست فاش سے دوچار ہوگئی۔ اس نتیجے نے اٹل
جی کے سیاسی سفر کو ختم کرکے لال کرشن اڈوانی کو خوش کردیا۔ انہوں نے سوچا
اب ان کے اور وزیر اعظم کی کرسی کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ بڑی
آسانی سے ایک غیر سیاسی شخصیت کے حامل منموہن سنگھ کو ہر ا کر وزیر اعظم
بن جائیں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 2009؍ میں مودی سمیت ساری
بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی مگر کانگریس نے پہلے سے زیادہ بہتر
فرق کے ساتھ کامیابی درج کروا ئی۔ اس طرح بی جے پی زبردست مایوسی کا شکار
ہوگئی ۔ 2014کے لیے اس نے اڈوانی کے متبادل کی تلاش شروع کی اور اس طرح
نریندر مودی کی قسمت کھُل گئی۔ انہیں بلاواسطہ امیدوار بنایا گیا اور بی جے
پی غیر متوقع طور پر انتخاب جیت گئی۔ اس طرح نریندر مودی کو وزیر اعظم کا
عہدہ نصیب ہوگیا۔
قومی انتخاب میں کامیابی نے وزیر اعظم کے دماغ کو آسمان پر پہنچا دیا اور
اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر دنیا بھر کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔ اگلے سال دہلی
کےصوبائی انتخابات آئے ۔ کل یگ کے چانکیہ نے اس میں کامیابی کی خاطر ساری
طاقت جھونک دی کیونکہ وہ اس وقت نئے نئے پارٹی صدر بنے تھے اور انہیں اپنا
جلوہ دکھانا تھا لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ بی جے پی تیس سے تین پر آگئی۔
یہ زبردست ناکامی امیت شاہ سمیت مودی جی کو آسمان سے پاتال میں لے گئی۔ اس
طرح عام آدمی پارٹی کو سبق سکھانے کے لیے ڈگری کے کھیل کا آغاز ہوا۔ عام
آدمی پارٹی کے سابق وزیر قانون جتیندر سنگھ تومر پر حلف نامہ میں فرضی ڈگری
داخل کرنے کا الزام لگا اورانہیں گرفتار کرلیا گیا ۔اس خبر کی تشہیر کے لیے
ان کو فیض آباد میں آر ایم ایل اودھ یونیورسٹی اور کے ایس سیکٹ پی جی
کالج کے کیمپس لے جایا گیا کیونکہ انہوں نے اس کالج سے بی ایس سی ڈگری حاصل
کرنے کا دعوی کیا تھا ۔وہاں اساتذہ اورادارےکے عہدیداروں سے ملاقات کرواکر
بیانات قلمبند کئے گئے۔ پولیس نے بتایا کہ وہ اپنے کلاس روم، فزکس
لیباریٹری اور واش روم کی نشاندہی میں ناکام رہے ۔ اگلے دن ان کو بشونت
سنگھ انسٹی ٹیوٹ آف لیگل اسٹیڈی کالج واقع مونگیر اور بھاگلپور میں
تلکاماجھی یونیورسٹی لے جایا گیا ۔ یہ خبر ٹیلی ویژن پر خوب چلی اور عام
آدمی پارٹی کی زبردست بدنامی ہوئی جس کی وہ مستحق تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ڈگری کے جعلی ثابت ہوجانے
پر جیتندر تو مر کی طرح تفتیش سے گزرنا پڑے گا؟ مگرجب اسمرتی ایرانی جیسی
معمولی وزیر اس رسوائی سے بچ گئیں تو مودی کو کیا ڈر؟ اس بابت پرشانت بھوشن
سوال کرتے ہیں سپریم کورٹ نے تمام امیدواروں کو اپنی ڈگریاں ظاہر کرنے کی
ہدایت کی تھی۔ کیا وزیراعظم پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا؟تومر کا معاملہ جب
منظر عام پر آیا تو اس کی کوکھ سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری کےتنازعہ
نے جنم لیا۔ عام آدمی پارٹی نےوزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی ڈگری دکھانے
کا چیلنج کردیا ۔ یعنی نہ بی جے پی تومر پر ہاتھ ڈالتی اور نہ یہ پنڈورا
بکس کھلتا ۔ وزیر اعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک پرانے انٹرویو میں اینکر
راجیو شکلا کے ساتھ کیمرے کے سامنے اعتراف کرچکے ہیں کہ انھوں نے ہائی سکول
تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ 17 سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
کنڑ زبان کے جریدے ترنگ کو سنہ 1992 میں انھوں نے خود کو میکینیکل انجینیئر
بتایا ہے اور انتخابی حلف نامہ میں ’انٹائر پولیٹیکل سائنس‘ میں ڈگری کا
انکشاف کردیا۔ ان متضاد بیانات نے وزیر اعظم کی صداقت کو مشکوک بنادیا اور
لوھ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر سچ کیا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے سال 2014 کے قومی انتخابات میں الیکشن کمیشن کو
جمع کرائے گئے حلف نامہ کے اندرپہلے تو یہ کہہ کر ساری دنیا کو چونکا دیا
کہ وہ شادی شدہ ہیں ۔ اس سے پہلے وہ یہ کالم خالی چھوڑ دیاکرتے تھے۔ اس کے
علاوہ فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت سال 1978 میں دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور
سال 1983 میں گجرات یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کا بھی انکشاف
کردیا۔ جیتندر تومر کی وجہ سے ہاتھ آنے والی رسوائی کا انتقام لینے کے لیے
عام آدمی پارٹی نے نریندر مودی کی ڈگری کے حوالے سے وزیر اعظم کے دفتر،
الیکشن کمیشن، دہلی یونیورسٹی اور گجرات یونیورسٹی میں آر ٹی آئی دائر
کروادی ۔ اس کے بعد ایک دلچسپ پنگ پانگ کا کھیل شروع ہوگیا ۔ وزیراعظم کے
دفتر نے الیکشن کمیشن سے پوچھنے کی تلقین کرکے اپنا پلہ جھاڑ لیا ۔ الیکشن
کمیشن نے ویب سائٹ دیکھنے کا مشورہ دے کر جان چھڑائی ۔ گجرات یونیورسٹی کا
جواب تھا کہ 2005 کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اس معلومات کو عام نہیں
کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہی جواب پی ایم او اور الیکشن کمیشن نے
کیوں نہیں دیا کہ جس سے نہ رہتا بانس اور نہ بجتی بانسری ؟ کیا دہلی کے
اندر الیکشن کمیشن اور خود وزیر اعظم کے دفتر میں وہ جرأت نہیں تھی جس کا
مظاہرہ گجرات یونیورسٹی نے ببانگ دہل کردیا ۔ اس اختلاف نے بھی شکوک و
شبہات کو بڑھایا۔
عام آدمی پارٹی کے حملوں سے پریشان ہوکرمرکزی حکومت کےایماء پر سینٹرل
انفارمیشن کمیشن نے کیجریوال سے ان کی الیکشن آئی ڈی کے بارے میں جانکاری
طلب کرلی ۔ یہ بی جے پی کی دوسری غلطی تھی کیونکہ اس کے ردعمل میں اپریل
2016 کے اندر اروند کیجریوال نے چیف سی آئی سی شریدھر آچاریلو کو ایک خط
لکھ کر نریندر مودی سے متعلق معلومات کو عام کرنے کی درخواست کردی ۔سینٹرل
انفارمیشن کمیشن نے اسے آر ٹی آئی کے زمرے میں ڈال کر گجرات اور دہلی
یونیورسٹی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری سے متعلق معلومات دینے کا حکم
دےدیا۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی جب بری طرح گھر گئی تو دونوں کے ایک ایک
نمائندے امیت شاہ اور ارون جیٹلی نے ٹیلی ویژن پر نمودار ہوکر تیسری بہت
بڑی غلطی کردی ۔ ان لوگوں نے ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کی بی اے اور
ایم اے کی ڈگریوں کو عام کرکے اروند کیجریوال پر ملک کی بدنامی کاالزام
لگاکر معافی کا مطالبہ کردیا ۔ یہ کام نہایت گھبراہٹ اور جلد بازی میں کیا
گیا تھا اس لیے کئی خامیاں رہ گئیں اور ڈگری کافرضی ہونا واضح ہوگیا۔وزیر
اعظم کی ڈگری کو پیش کرنے میں جو بے احتیاطی کی گئی اس سے سنگھ پریوار اور
بی جے پی کی شبیہ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
بی جے پی والوں نے وزیر اعظم کے لیے انٹائر پولیٹیکل سائنس نام کا ایک
مضمون ایجاد کرڈالا ۔ اس میں داخلہ لینے والے اور امتحان دے کر ڈگر ی
لینےوالے وزیر اعظم تنہا طالبعلم تھے اس لیے کسی نے انہیں کالج آتے جاتے
نہیں دیکھا ۔ اس مضمون کی بابت 2014 سے قبل گجرات یونیورسٹی سمیت کسی کو
علم نہیں تھا۔ مودی جی کو اس ڈگری سے وائس چانسلر کے ایس شاستری نے 30 مارچ
1983 کو نوازہ جبکہ وہ بیچارے 1981 میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوچکے تھے ۔
سنجے سنگھ کے مطابق یونیورسٹی کی ہجے میں ایک جگہ انگریزی حرف ’بی ‘ اور
دوسرے مقام پر ’وی ‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے سبب جعلی ڈگری بنانے والوں
کی تعلیمی لیاقت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ ان غلطیوں کو دیکھ کر پوئلو کائیلو
کا ناول الکیمیا یاد آجاتا ہے جس میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ خیر کے کام
میں فطرت کے سارے عناصر تعاون کرتے ہیں یہاں ایسا لگتا ہے کہ شرکے کام میں
وہ سارے عناصر مخالفت پر تُل گئے تھے ۔
گجرات یونیورسٹی کی ڈگری پر تو عدالتِ عالیہ کا فیصلہ آگیا مگر دہلی کی
ڈگری معاملہ ہنوز زیر سماعت ہے اور وہ ڈگری بھی مختلف نقائص سے اٹی پڑی ہے۔
وزیر اعظم کی دہلی یونیورسٹی والی ڈگری میں کئی خامیاں ہیں مثلاً1978 کے
اندر یہ ڈگری انہیں ٹائپ کرکے دی گئی جبکہ اس کے دس سال بعد 1988 تک دہلی
یونیورسٹی میں دیگر طلباء کی ڈگری پر نام ہاتھ سے لکھے جاتے تھے۔ کون جانے
کس انتریامی نے عملہ کو بتا دیا کہ یہ آدمی آگے چل کر وزیر اعظم بننے
والا ہے اس لیے ان کی ڈگری کا خاص خیال رکھا جائے۔ مودی جی کا نام لکھنے کے
اس فونٹ کا استعمال کیا گیا جو 1992 میں ایجاد ہونے والا تھا یعنی اپنی
پیدائش سے بارہ سال قبل اس فونٹ کو مودی جی کی ڈگری میں شامل ہونے کا اعزاز
حاصل ہوگیا۔ اس پر تاریخ ثبت کرنے کے لیے اتوار یعنی چھٹی کے دن کا انتخاب
کیا گیا تاکہ کوئی اور خلل اندازی نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستانی آئین
کا کوئی شق یا عوامی نمائندگی ایکٹ کسی دفعہ میں رکن پارلیمان یا رکن
اسمبلی کے انتخاب کو تعلیمی اہلیت سے مشروط نہیں کیا گیا یعنی ہندوستان میں
پارلیمانی یا اسمبلی کی رکنیت کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان ارکان
کا اپنے انتخابی حلف نامے میں فرضی ڈگری درج کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ اس کی
سزا جلد یا بہ دیر وزیر اعظم کو مل کر رہے گی۔
|