دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ایوان اسمبلی
کے اندر داستانوی انداز میں وزیر اعظم نریندر مودی علامتی آپ بیتی سناکر
انہیں چوتھی پاس راجہ کے لقب سے نواز ہ ہے۔ اروند کیجریوال نے یہ حرکت وزیر
اعظم کی ڈگری سے متعلق سوال کرنے کی پاداش میں پچیس ہزار روپیہ جرمانہ ادا
کرنے کے بعد کی اور یہ ثابت کردیا کہ وہ اس طرح کی گیدڑ بھپکیوں سے نہیں
ڈرتے ۔ اس بیچ احمد آباد کی ایک عدالت نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعلیمی
لیاقت سے متعلق مبینہ طور پر طنزیہ اور تضحیک آمیز بیان دینے کے الزام میں
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا
ممبرسنجے سنگھ کو سمن جاری کرکے طلب کیا ہے ۔ ایڈیشنل چیف میٹرو پولیٹن
مجسٹریٹ جیش بھائی چوٹیا کی عدالت نے ان دونوں عآپرہنماوں کو 23 مئی کے دن
پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔ عدالت کے مطابق گجرات یونیورسٹی کے رجسٹرار پیوش
پٹیل کی شکایت پر ان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 500 (ہتک عزت) کے تحت
مقدمہ بنایا گیا ہے۔عدالت نے اس کیس میں اروند کیجریوال کو انفرادی حیثیت
سے مخاطب کرتے ہوئے ان کے نام سے ‘وزیر اعلی’ کا لقب ہٹانے کا بھی حکم دیا
۔
اروند کیجریوال اور سنجے سنگھ نے یہ تبصرے گجرات ہائی کورٹ کی طرف سے گجرات
یونیورسٹی کو وزیر اعظم کی ڈگری کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے چیف
انفارمیشن کمشنر کے حکم کی منسوخی کے بعد کیے تھے ۔ یونیورسٹی کو شکایت ہے
کہ ان لوگوں نے پریس کانفرنسوں اور ٹویٹر پر مودی کی ڈگری کو لے کر
یونیورسٹی کو نشانہ بناتے ہوئے "تضحیک آمیز” تبصرے کیے۔ گجرات یونیورسٹی کے
خیال میں ان تضحیک آمیز بیانات عوام میں اپنا نام روشن کرنے والے ادارے کی
ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ۔ ہتک عزت کی شکایت کرنے والی گجرات یونیورسٹی اس
بات کو بھول گئی ہے کہ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 191 کے مطابق فرضی ڈگری پیش
کرنے کا مطلب امیدوار کے ذریعہ غلط معلومات دے کررائے دہندگان کو گمراہ
کرنا ہے۔ اس قابل سزا جرم کا ارتکاب کرنے والے سیاستداں کی رکنیت منسوخ
ہوسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا ضابطہ کہتا ہے کہ اگر اس کے دفتر میں
جمع کرائی جانے والی ڈگری جعلی پائی گئی تو رکنیت مسترد ہو سکتی ہے۔ اس
فراڈ کا مرتکب ہونے کے بعد نہ تو وہ فرد ایم پی بچ پائے گا اور نہ الیکشن
لڑ سکے گا۔
نریندر مودی کو بچانے کے لیے گجرات ہائی کورٹ پہلی ہی ایک نہایت مضحکہ خیز
فیصلہ سنا چکا ہے اور اب چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ دوسری حماقت کرنے جارہے
ہیں ۔گجرات یونیورسٹی اس سے قبل نریندر مودی کو ڈگریوں کی بابت سی آئی سی
کے حکم کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کرچکی ہے ۔ یونیورسٹی نے کمیشن کے حکم
کو ناقص قرار دےکر اسے منسوخ کرنے کی عرضی داخل کی تھی ۔ سات سال تک یہ
معاملہ ٹھنڈے بستے میں پڑا رہا اور راہُل گاندھی سے متعلق سورت مجسٹریٹ کے
متنازع فیصلے کے بعد فیصل ہوا جس سے ایک نیا تنازع پیدا ہوگیا۔ اس میں شک
نہیں کہ مرکزی حکومت کے ایماء پر یہ جن بوتل سے باہر آیا مگر اس کی حکمت
ناقابلِ فہم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وزیر اعظم آئندہ قومی
انتخاب سے قبل اپنے دامن سے سارے داغ دھبے دھو لینا چاہتے ہوں۔ اس لیے کون
جانے آگے یہ موقع ملے یا نہ ملے؟ یہی وجہ ہے کہ گجرات ہائی کورٹ کی سنگل
بنچ کےجسٹس بیرین ویشنو سے سی آئی سی کے 2016 میں دیے گئے حکم کو منسوخ
کروا دیا گیا لیکن اس کے ساتھ نہ جانے کیوں اروند کیجریوال پر 25 ہزار روپے
کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا؟
گجرات ہائی کورٹ کے اندر وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری معاملے میں مدعی
گجرات یونیورسٹی تھی اور مدعا الیہ ایک سرکاری ادارہ سی آئی سی تھا۔ اس
لیے یہ فیصلہ وزیر اعلی اروند کیجریوال کے خلاف نہیں بلکہ معلومات فراہمی
کے مرکزی ادارے کے خلاف ہے ایسے میں اروند کیجریوال پر جرمانہ عائد کرنا
تعجب خیز ہے۔ اروند کیجریوال کا نریندر مودی کی ڈگری کے بارے میں تفصیلات
طلب کرنا سی آئی سی کے نزدیک کوئی جرم نہیں ہے اور وہ عدالت میں بھی نہیں
گئے اس لیے ان پر 25,000 روپے کا جرمانے کی منطق ناقابلِ فہم ہے۔ عدالت
سوال کرتی ہے کہ وزیر اعظم کی ڈگریوں کے عام ہونے پر بھی ایسے معاملے کو
متنازع بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟اپنے حکم نامے میں گجرات کی عدالت نے
کہا کہ وزیر اعظم کو کسی بھی بڑے عوامی مفاد کی عدم موجودگی میں اپنی
تعلیمی ڈگریاں دکھانے کے لیے آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8 (1) (ای) اور (جے)
کی شقوں کے استثنیٰ حاصل ہے۔ جسٹس ویشنو کے مطابق اروند کیجریوال کا آر ٹی
آئی کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعلیمی ڈگری حاصل کرنے پر اصرار ان
کی دیانتداری اور مقصد کے متعلق شک پیدا کرتا ہے گویا شک کی بنیاد پر انہیں
سزا دے کر عوام کو سوال کرنے سے خوفزدہ کیا جارہا ہےحالانکہ عدالت یہ بھی
کہتی ہے کہ اروند کیجریوال کے مقصد میں اس عدالت کو جانے کی ضرورت نہیں
ہےاگر ایسا ہے تو جرمانہ لگانے کی حاجت کیا ہے؟
گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال بالکل خوفزدہ
نہیں ہوئے انہوں نے ایوان اسمبلی میں نریندر مودی کو ہندوستان کی تاریخ کا
سب سے کم پڑھا لکھا اور سب سے زیادہ بدعنوان وزیر اعظم قرار دیا۔ ان کے
مطابق اس فیصلے کے بعد ڈگری سے متعلق شکوک وشبہات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ عوام
کو یہ جاننے کاحق ہے کہ ان کا وزیراعظم کتنا پڑھا لکھا ہے؟ عوام کے ذہن میں
سوال ہے کہ یہ جعلی تو نہیں ؟کیجریوال کے مطابق اکیسویں صدی میں وزیراعظم
کا پڑھا لکھا ہونا چا ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہونے کے سبب وزیر اعظم نریندر
مودی ڈرین گیس سے چائے بنانے اور ہوائی جہازکے بادلوں کے پیچھے سے رڈارمیں
نہیں آنے کی بات کرتے ہیں ۔ کیا کوئی پڑھا لکھا وزیراعظم یہ کہہ سکتا ہے
کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسی باتیں جگ ہنسائی کا سبب بنتی
ہیں ۔ اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم کو سینکڑوں فائلوں
پر دستخط کرنے ہوتے ہیں، اگر وہ پڑھے لکھے نہیں ہوں گے تو ان سے غلط فائل
پر دستخط کرائے جاسکتے ہیں ۔
اس صورتحال پر ایک نہایت دلچسپ کارٹون ذرائع ابلاغ کے اندر گردش کررہا ہے۔
اس میں ایک مداری کو دو بندر کے ساتھ دکھا کر لکھا گیا ہے کہ مداری انپڑھ
ہوتا ہے لیکن پڑھے لکھے لوگوں سے تالی بجواتا ہے اور آخر میں جھولا اٹھا
کر چل دیتا ہے۔ تالی بجوانا اور جھولا اٹھانا کس سے منسوب ہے یہ بچہ بچہ
جانتا ہے۔ احمد آباد میں کامیابی کے باوجود بی جے پی فی الحال مدافعت کی
پوزیشن میں ہے۔ وہ سانس روک کر دہلی کے فیصلے کی منتظر ہے۔ ایک زمانے میں
بی جے پی والوں نے شہریت کےقانون میں ترمیم کرکے ملک کے باشندوں سے ثبوت
مانگا تو اس کے خلاف نعرہ لگا ’کاغذ نہیں دکھائیں گے ‘۔ آج وہی بی جے پی
والے کہہ رہے ہیں ’ڈگری نہیں دکھائیں گے‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈگری اصلی ہے
تو چھپاتے کیوں ہو؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آئین کی روُ سے وزیر اعظم بننے
کے لیے ڈگری کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن دستور ہند کسی وزیر کو حلفیہ کذب
گوئی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔
وزیر اعظم ایک طلسماتی شخصیت کے حامل ہیں۔ 2013 کی انتخابی مہم کے دوران
میں عوام کی ہمدردیاں بٹورنے کے لیے انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ وہ بچپن (چھ
سال کی عمر )میں ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتے تھے ۔ گودی میڈیا نے آنکھ
موند کر اس پر یقین کرلیا اور اس کی تشہیر کرنے لگے لیکن کھوجی میڈیا کے
صحافیوں نے اس بیان کی تصدیق شروع کی تو پہلا سوال یہ تھا کہ کس سال بال
مودی اس پریشانی سے گزر رہے تھے ۔ یہ پتہ لگانے کے لیے کاغذات کی تفتیش کے
دوران ایک اختلاف سامنے آگیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ان کی تاریخِ پیدائش
17ستمبر1950 ہے مگر ڈگری کے مطابق وہ 29 اگست1949 ہے۔ اس طرح گول مال کی
ابتداء تاریخ پیدائش سے ہوگئی اب یہ پتی کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی سالگرہ کب
مناتے ہیں؟ ظاہر ہے وہ الیکشن کمیشن والی تاریخ کو منائی جاتی ہے اس لیے ان
تیرہ مہینوں کے فرق نے ڈگری کو مشکوک کردیا ۔ حیرت کا دوسرا جھٹکا اس وقت
لگا جب پتہ چلا مودی جی کے شہر واڈ نگر کا اسٹیشن 1973 میں بنا۔ جب یہ
اسٹیشن بنا تو وزیر اعظم کی عمر 23سال تھی اور سنگھ کی خاطر اپنی زندگی وقف
کرنے کے لیے 17سال کی نوعمری میں گھربار چھوڑ کر نکل چکے تھے ۔ اب سوال یہ
ہے کہ مودی جی کے بچپن جو ریلوے اسٹیشن موجود ہی نہیں تھا اس پر انہوں نے
چائے کیسے بیچی؟ مگر ملک کے عوام نے اس کی پروا کیے بغیر چائے والے مودی کو
وزیر اعظم بنادیا ۔
اس کامیابی پر خو ش ہوکر مودی جی کو پڑھائی لکھائی کا خیال اپنے دل سے نکال
دینا چاہیے تھا مگر انہوں نے 2014میں عام آدمی پارٹی کے وزیر قانون جیتندر
تومر پر جعلی ڈگری پیش کرنے کا الزام لگوایا اور ان کی رکنیت منسوخ کرواکر
انہیں جیل کی سیر کروائی۔ اب دہلی کی عدالت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی
جعلی ڈگری سے متعلق ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اس بابت دہلی عدالت کا فیصلہ
اگر گجرات ہائی سے مختلف آجائے تو ایک بڑا کہرام مچ جائے گا ۔ دہلی کی
عدالت بھی الہ باد ہائی کورٹ کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے جرأتمندی کا
مظاہرہ کیا تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی کرسی بچانے کے اندرا گاندھی
کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں
بچے گا۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمرجنسی کے بعد اندرا گاندھی جیسی
مقبول رہنما کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تو نریندر مودی کیا چیز ہے؟
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|