بد ترٰین دور ہے ۔ہم سیاسی ،سماجی اور اخلاقی ہر لحاظ سے
پاتال کی طرف گامزن ہیں۔سیاسی ماحول کے حوالے سے بات کریں توانسانی رویوں
میں اس قدر گھٹیا پن کبھی نظر نہیں آیا تھا جس قدر اب ہے۔سیاست کل بھی تھی
سیاست آج بھی ہے مگر کل تک لوگ ذاتیات پر نہیں آئے تھے۔ذاتی زندگی کے حوالے
اس قدر فضول کلام لوگوں کے دہن پر نہیں آیا تھا۔ اگر کچھ لوگ اس شغل سے
وابستہ بھی تھے تو انہیں کچھ نہ کچھ اخلاقی بندش تھی، وہ کوئی ایک آدھ ہلکی
بات کر بھی دیتے توان کے ساتھی بھی انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے
تھے۔ذاتیات کے بارے بات کرنے والے آج جن گھٹیا حدوں کو چھو رہے ہیں ماضی
میں اس حد تک نہیں گرتے تھے۔ آج کے سیاسی لوگ تو لگتا ہے مادر پدر آزاد ہیں۔
وئی روک ٹوک نہیں۔ آج ہر سیاست دان اپنے مخالف کو ننگا کرنے پر تلا ہے۔ بعض
ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کوشش کرکے بہت سے با اثراشخاص کی ایک آدھ قابل
اعتراض وڈیو بنائی ہوئی ہے، ایسی وڈیو جو لوگوں کو ٹریپ کرکے بنا لی جاتی
ہیں ، جو انسان کی پستی اور ذلت کی تشہیر کرتی ہیں اور ایسی وڈیو سے بچنے
کے لئے وہ با اثر لوگ اپنا جھکاؤ ان کی طرفٖ رکھنے پر مجبور ہیں۔ کہتے ہیں
کہ انسان کو اپنی خامیوں پر نظر رکھنی چائیے اور اس کا بہترین ذریعہ آپ کے
مخالف ہیں جو آپ کی خامیوں کو اجاگر کرنے میں دیر نہیں کرتے ، مگر آج جو
کچھ منظر عام پر آ رہا ہے ، وہ خامیاں اجاگر کرنا نہیں، مخالف کی خامیوں کو
منظر عام پر لانے کے نام پر ایک گندی ذہنیت کو فروغ دینا ہے۔ مخالف سے
زیادہ خود کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے، لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ جنگ
اور سیاست ہر اصولی ضابطے سے بالا ہوتی ہیں۔ گر حقیقت میں ایسا نہیں۔ گھٹیا
پن ہر حال میں گھٹیا پن ہی ہے۔جس پر جس قدر بھی ا فسوس کیا جائے ، وہ کم ہے۔
مہنگائی جب بڑھتی ہے تو لوگ بھوکے مرنے کی بجائے گھر کی چیزیں بیچنے لگتا
ہے ۔ جب چیزیں ختم ہو جاتی ہیں تو انسان خود بکنے لگتے ہیں۔ جی ہاں موجودہ
حالات میں وہ سٹیج آتی نظر آتی ہے۔وہ جو اپنے کپڑے بیچ کر لوگوں کے حالات
بہتر کرنا چاہتے تھے، ان کے کپڑے تو وہیں ہیں ، عام آدمی کے کپڑے کب کے اتر
چکے۔انہیں سیاست سے فرصت ہی نہیں لوگوں کے بارے کیا سوچیں گے۔عوام کا کوئی
چارہ ساز اور کوئی غم گسار نہیں۔ سب سے افسوس ناک یہ کہ کسی کو احساس ہی
نہیں ۔ جو حالات ہیں لگتا ہے کہ جلد افراتفری کا دور آیا چاہتا ہے اور کیسے
نہ آئے۔ لوگ سڑکوں پر آئیں گے۔ آج ایک حکومت تو ہے گو بڑی بے حس مگر لوگ
باہر آگئے تو ان لوگوں کو پناہ کی جگہ نہیں ملے گی۔ساحر نے کہا ہے ، ’’بھوک
آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی‘‘۔ ایک ایم پی اے بتا رہے تھے کہ میں اپنے
حلقے ہی میں رہتا ہوں۔ سارا دن لوگوں کے درمیان ہوتا ہوں اور ان سے ملاقات
رہتی ہے۔ ان کے ہر دکھ درد میں شریک ہوتا ہوں۔ مگر اس مہنگائی نے یہ عالم
کر دیا ہے کہ لوگ بے بس سمجھ کر منہ پھیر لیتے ہیں یا پھر میرے سامنے میری
پارٹی کو کھلی گالیاں نکالتے ہیں۔ سب سننا پڑتا ہے اس لئے کہ ہم ان کے
مسائل کا کوئی حل نہیں نکال سکے بلکہ ان کے مسائل کو پہلے سے دوگنا کر دیا
ہے۔ ہم نے انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔قصور جب اپنا ہے تو گالیں بھی
سننا پڑیں گی لیکن الیکشن لڑنے کے قابل ہم نہیں رہے۔
یہ وزیر اور مشیر جو آج سرکاری خرچ پرسانڈوں کی طڑھ پل رہے ہیں انہیں عام
لوگوں کی کچھ پرواہ نہیں ۔وہ عوام کی نہیں ، اپنے اقتدار کی سوچتے
ہیں۔یورپی ممالک میں کسی سیاسی رہنما کی طرف کوئی انگلی بھی اٹھ جائے تو وہ
حکومت چھوڑ گھروں کو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ان کے نزدیک لوگوں کی کہی ہوئی
ہلکی سی بات بھی ناگوار ہوتی ہے۔ انہیں تھوڑی سی بے عزتی بھی قابل قبول
نہیں ہوتی۔وہ عذت سے سیاست میں جیتے ہیں۔ یہاں جوتیاں بھی پڑیں تو انہیں
سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں سوجتا۔ عزت ان کے نزدیک دوسرے درجے کی چیز
ہے۔ عزت کی قیمت پر اقتدار چھوڑنا انہیں کبھی قبول نہیں ہوتا۔ایک حکومتی
وزیر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔ لیکن وزیر
موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ یہ دونوں چیزیں کہاں ہوتی ہیں، کچھ نشاندہی تو
کرتے ۔ مجھے تو حکومتی حلقوں میں بلکہ اپنی موجودہ اسمبلی میں ایسی کوئی
چیز کبھی نظر نہیں آئی، ڈائیلاگ اچھا ہے ، لیکن کبھی کبھی عملی زندگی میں
بھی اس کا اطلاق بھی ضروری ہے سوچتا ہوں کہ اگر ایسا ہو جائے تو اچھا ہے
مگر تب یہ سارے وزیر کہاں جائیں گے۔
ایک قصبے میں ایک صاھب کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی۔ ان کے کچھ دوستوں کو پتہ
چلا تو وہ افسوس کرنے ان کے پاس آئے۔آپس میں اس بچی کے بارے باتیں ہو رہی
تھیں تو اس کے والد صاحب کہنے لگے کہ ویسے تو بھاگ گئی ہے اس نے غلط کیا ہے
مگر تھی میری بیٹی بڑی پہنچی ہوئی چیز۔ اسے سب پتہ ہوتا تھا کہ کیا ہونے
والا ہے۔مجھے بہت سی باتیں قبل از وقت بتا دیتی تھی۔ دو دن پہلے مجھے بتا
رہی تھی کہ اباجی لگتا ہے ہمارے گھر میں ایک بندہ کم ہونے والا ہے۔ اب
دیکھیں واقعی اس سے جانے سے ایک بندہ کم ہو گیا ہے۔ہماری سیاست میں بھی بڑے
پہنچے ہوئے لوگ ہیں۔ انہیں مستقبل کی ساری خبر ہوتی ہے۔وہ جو باتیں کرتے
ہیں ، وہی ہوتی ہیں۔ شاید ایسے پہنچے ہوئے لوگ ہی اس ملک میں جمہوریت کے
لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ایسے پہنچے ہوئے لال بجھکڑوں کی ساری مستی ان کی
حرام دولت کی وجہ سے ہے، اپنے سیاہ کارناموں کی وجہ سے ہے۔ اگر آئندہ آنے
والی حکومت ہمت کرکے ان پر صحیح ہاتھ ڈال دے تو یہ سب پہنچے ہوئے لوگ اپنی
اوقات پر پہنچ جائیں گے۔
بہر حال آ ج کے اس بد ترین دور میں لوگوں کو جمہوری آمریت مبارک ہو۔ پہلا
آئین جو ہمارے لیڈروں کی ہٹ دھرمی سے ختم ہو چکا، آئین جسے کوئی مانتا ہی
نہیں،اس کی کتاب اب ردی کا ایک ڈھیر ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ اب موجودہ
حکومت اگر باقی رہی تو ا س کی جگہ ایک نیا عوامی آئین تشریف آئے گا۔ وہ
آئین ان حکام کا غلام ہو گا۔ وہ اس بھینس کی طرح ہو گا جو صرف اور صرف ان
ھکمرانوں کی کی لاٹھی سے ہی کنٹرول ہو گا۔وہ قوتیں جنہیں آج انتہائی متھرک
ہونا تھا، جانے کس مصلحت کے تحت بہت نرمی سے کام لے رہی ہیں ۔ ان قوتوں کو
اندازہ ہی نہیں کہ تمام تر سستی اور نرمی کسی بھی وقت ان پر بھاری پڑ سکتی
ہے۔لیکن ہر وقت بھلائی کی امید رکھنی اور وہ بھی موجودہ حکمرانوں سے یہ کچھ
ٹھیک نہیں کیونکہ یہ خود تو کسی رحم اور رعایت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب
بھی موقع ملے اپنا کمال دکھانے میں دیر نہیں کرتے۔ ویسے صورت حال ایسی ہی
ناقابل یقین ہے کہ جب تک میرا کالم آپ تک پہنچے، کوئی قوت حرکت میں آ چکی
ہوجس کے نتیجے میں وقت بدل گیا ہو۔ رب العزت سے دعا بھی کیجئے اور اچھے
حالات کا سوچیں بھی کیونکہ اچھی باتیں سوچنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ |