شائد پھر سے اک اور امتحان مقصود ہے

میں کیا ہوں۔ایک لکھاری یا ایک کالم نگار لیکن میں کسی نہ کسی مقصد کو مدنظر رکھ کر لکھتا ہوں۔ تخلیق برائے مقصد کے تحت میں برسوں سے لکھ رہا ہوں۔جب ضرورت محسوس ہوئی تومیں بطور کالم نگار صحافت میں اپنا کام،مختلف موضوعات پر پبلش اپنے آرٹیکلز اور ملکی سطح پر گاہے بگاہے پیش آنے والے اہم ایشوز پر اپنے تجزیوں و تبصروں کا ذکر کروں گا نیز صحافت کے حوالے سے اپنی کارکردگی بھی بتاؤں گا مگر آپ جواب میں کیا پیش کریں گے ماسوائے اس کے کہ اپنے دوسروں کو دئیے لوہے و پیتل نما میڈلز پیش کرسکتے ہیں جس میں بھی آپ کے اپنے کاروباری،مالی و ذاتی مفادات زیادہ اور صحافت کیلئے بس نام نہاد جھوٹے حوالے ہیں۔۔کسی میڈیا گروپ میں لکھنا لکھانا شروع کردیا یا پریس کارڈ بنوالیا اور صحافی کہنا شروع کردیا۔ پیشے کچھ اور ہیں اور بتاتے صحافی ہو۔یقینا متعدد صحافی صحافت کے علاوہ بھی کسی نہ کسی کام سے منسلک ہیں مگر انہوں نے کبھی تو باقاعدہ صحافت کی ہے یا کسی گروپ کے ساتھ تو باقاعدہ صحافی وابستہ ہیں۔آپ بتائیں کہ آپ کون سے صحافی ہیں۔معاف کیجیے کہ آپ تو نمائندہ بھی نہیں۔نمائندے کے بھی کچھ اوصاف اور شرائط ہوتی ہیں۔آپ کو تو پریس کلب کی رکنیت کی خواہش ہے۔آپ بھی پلاٹ گیم کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔آپ ڈی جی پی آر سے بطور ممبر شناخت چاہتے ہیں۔آپ کو صحافی کی حاصل کردہ مراعات یا سہولیات سے غرض ہے مگر ایک صحافی کو کیا کیا قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور کن کن محاذوں پر کھپنا پڑتا ہے۔آپ کو یہ پتا نہیں آپ صحافت کا باز تو کیا،اس کی چڑیا بھی نہیں۔مجھے بتائیے کیا جب کبھی کسی جگہ جاتے ہیں،تو کیا وہاں اپنے ایوارڈز یا میڈلز لے کر جاتے اور دکھاتے ہیں۔میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو، یقینا آپ کے دیئے یہ ایوارڈذ یا میڈلز کسی بھی کام کے نہیں یا کسی بھی جگہ کام نہ آنے والے ہیں۔باوقار اورمعتبر لوگ کام دیکھتے ہیں نہ کہ یہ ایوارڈ اور شیلڈذ۔یہ تو کوئی بھی خرید کر اپنا شوکیس سجا سکتا ہے۔رب کو حاضرناظر جان کر بتائیے کہ یہ سراب ایوارڈ/میڈلز/تعریفی اسناد آپ کی زندگی میں کہاں کہاں کام آئے ہیں۔گھر، دفتر، پبلک مقامات کوئی ایسی ایک جگہ بتائیں؟جواب ندارد آئے گاتو پھر یہ سراب ایوارڈ/میڈلز/تعریفی اسناد ڈرامہ کس بات کا؟ان سے آپ کو جھوٹی شہرت ضرور مل گئی ہوگی مگر سچی عزت یا ساکھ نہیں۔اس سے اچھا ہے کہ کسی کو اچھی کتاب دے دو،یا مل جل کر اس کی کتاب شائع کرادو۔کسی کی صحیح رہنمائی کردو،کسی غریب کے کام آجاؤ،کسی کے دکھ چن لو،کسی کی راہ گزر آسان بنادو، کسی کے مشکل اور آڑے وقتوں کے ساتھی بن جاؤ، کسی کے پاؤں میں پڑے کانٹے ہٹا دو،فریب اور دھوکہ دہی چھوڑتے حق و سچ کا راستہ پکڑ لو مگر کیا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہوتا ہے۔ کیا بات ہے کہ اِن ایوارڈز/میڈلز/تعریفی اسناد کی بارش میں کام کی بات ایک بھی نہ ہے۔سارا جھوٹ فریب کا کاروبار ہے مگر سچ نام کو بھی نہ ہے۔تکلیف دینے کی باتیں زیادہ اور درد چننے کا سامان ذرا سا بھی نہیں ہے۔ہر سمت کانٹوں کی باڑ ہے آسان راہ گزر کہیں بھی نہیں ہے۔ہر طرف کانٹے اور جھاڑیاں اُگا رکھی ہیں اور پھول،شبنم اور گھاس نام کوبھی نہ ہے۔یہ کیسی ایوارڈ/میڈلز حوصلہ افزائی تقریب ہے کہ جہاں حقیقی قلمکاروں کا یکسرفقدان اور چند گنے چنے سلیکٹڈافراد ہیں۔یہ ہے اس کی معتبریت،اس کی ساکھ۔اتنے سارے ایوارڈذ کس کام کے جب کہ معتبر ایک بھی نہیں ہے۔ایک ایوارڈ اورکا نعرہ کتنا اوچھا انداز ہے۔ایک ایوارڈ اور کہتے شرم نہیں آتی،کتنے ایوارڈوں سے جی بھرے گا۔کریڈٹ میں ایک بھی اچھا کام نہیں اور ایک ایوارڈ اور۔۔۔۔۔کس لیے اور کو ن سا کام ہے جو آپ کو ایوارڈ پر ایوارڈ دلا رہا ہے تو پھر اب تو حسن کارکردگی ایوارڈ بنتا ہے۔وہ ایوارڈ سے کمرہ بھر دیا ہے یا گتے کے ڈبے میں رکھتے جاتے ہیں۔ چمچوں کڑچھوں، جی حضوری کے دلدادہ افراد کیلیے یہ ایوارڈ کا انبار ہی اعزاز ہے جن کے نصیب میں ڈھنگ کا کام ایک بھی نہیں ہے کبھی کسی درکبھی کسی در ایوارڈ لینے کے لیے کھجل خراب ہورہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری عزت بڑھ رہی ہے۔ایوارڈ لینے کے بعد اپنے تنظیمی کرتا دھرتا کی شان میں قصیدہ گوئی کا قصہ بھی لکھنا واجب ہے کیونکہ ان کی طرف سے ہدایات ملتی ہیں کہ تقریب میں شرکت کے بعد ہماری تعریف کرنی ہے اور ایوارڈوں کو سر پر چڑھانا ہے مگر افسوس کہ یہ رپورٹ بھی احسن انداز سے لکھنے سے عاری ہیں۔ان کو ڈھنگ سے ایک پیراگراف لکھنا نہیں آتاہے تو رپورٹ کیسے لکھیں۔کچھ پڑھے لکھے ڈاکٹر، وکیل،صحافی تقریب میں مہمان خصوصی بننے کے چاؤ میں اور مراسم کی بناء پر تنظیمی عہدے دار،ان ایوارڈوں کو متبرک اور مقدس قرار دے رہے ہیں مگر جن کو لکھنا نہیں آتا۔ان کی شان الگ ہے۔۔۔۔۔کیا ''کمال'' قلمکاروں کا چاپلوسی گروپ لیے پھرتے ہیں کہ میرے لکھے ایوارڈکہانی آٹھ آرٹیکلز کے جواب میں ’’وہ ایک صاحب۔۔۔۔۔۔۔جو بہت عظیم،ملنسار اور شفیق ہیں انہیں لکھنا آتاہے اور کچھ لکھنا نہیں آتا ہے‘‘راقم الحروف نے اپنے آٹھ آرٹیکلز میں ان صحافتی جونکوں،بیمار ذہنیت افراد،شہرت کے بھوکے،ذہنی مریضوں کا کچھ نہ چھوڑتے ہوئے جس حد تک ممکن ہوا،خاصا پوسٹ مارٹم کر دیا ہے اور یہ میریلکھے ان آٹھ آرٹیکلز کا تسلی بخش جواب دینے سے بھی یکسر قاصر ہیں۔بھئی میں غلط ہوں تو جواب دیں۔یہ قلمکاروں کی نقلی فوج کی بھرتی ہے جواصلی کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ مختلف تنظیمات اور افراد کی طرف سے دیے گئے یہ کیسے ایوارڈز اور میڈلز ہیں جن کی نہ کوئی ساکھ ہے نہ وقار۔دراصل کوئی جج ان کا جائزہ لے تو بتائے کہ یہ جعلی گولڈ میڈل اور بے کار ایوارڈ ہیں۔ان کی تو اکثر تنظیمیں نان رجسٹرڈ اور بازاری شہرت کی حامل ہیں۔ان کا حال ذرا چیک کیجئے کہ ان کے کرتا دھرتا کا اپنے ایوارڈز ساتھیوں،اپنے چاہنے والوں کو میسج کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو سپیڈ بڑھاؤ،تعریف بڑھاؤ میسج زیادہ لگتا ہے۔اس حوالے سے جتنا کسی کو زور دے کر،''کچھ کرو جلدی ہو جائے'' کامیسج کرتے،دوسرا اتنا ہی اور زیادہ مصروف ہو جاتا ہے۔میسج کیا ہے''جلدی مچاؤ،کچھ فرماؤ'' جیسا معاملہ ہے۔یہ بے شرم ٹولہ واٹس ایپ میسج کرکے،اپنی ایوارڈ تقریب بارے دوسروں کو کہہ اور فرما کر اپنے تنظیمی و پرسنل تعریفی آرٹیکل /ایڈیشن اخبارات میں چھپواتا ہے۔دوسروں کو ہمراہ انکی نامزدگی میڈل ساتھ اپنی ایک تصویر لگی خبراور مشہوری کی پوسٹیں بنا کر از خود دوسروں کو سینڈ کرتا ہے اور پھر ان سے کہہ بول کر شیئر کرواتا ہے۔میری بات غلط ہو تو موقع پر ہی فوری طور منہ پر دے مارو وگرنہ شرمندگی وندامت کی چادر میں لپٹے،زمانے بھر کی تمام تر جگ ہنسائی کے ساتھ اپنے منہ پر مل لو۔ان کی ایوارڈ تقریب کا مزید عالم یہ ہے کہ جو ان کی تقریب میں چلا گیا مہان،جس نے ان کی پوسٹ شیئر کر دی،وہ'' بھگوان''جو بلاوے پر نہ گیا،وہ مجرم،جس نے مخالفت کر دی وہ گناہ گار،موردالزام ٹھرتا ہے۔جس نے حق بات کہہ کر میرا ساتھ دیا،وہ ان کی نظر میں برا ہوگیا۔بھلا یہ ایوارڈ نہ لینے سے ان کی معتبر ساکھ پر کیا اثر پڑے گا۔کیا ان کا کام اور نام تمہارے ایوارڈ پر منحصر ہے۔جن کو بھوک ہے ان کا کام معیاری ہو تو یہ بھوک نہ ہو۔یہ ایک عجیب مافیا،پیسے بٹورنے میں بد نام گینگ ہے جس نے بھی ان کی اصلیت واضح کرنے کی کوشش کی،اس کے خلاف ہی ہوا ہے اور ایک منظم مہم جوئی/شرارت شروع کر دیتاہے۔ اپنے نا موافق افراد کو اپنے رائٹر گروپ سے ریموو کر کے خود ان کے گروپ سے سمیت اپنے جیسے کچھ افراد لیفٹ ہو جاتاہے۔کیا ''کمال'' کام کرتا ہے ''مہان'' جادوگر ''بیمثال'' فنکار۔افسوس جو ایسی تقریبات میں مہمان خصوصی بن کر فخر کر رہے ہیں۔حیرت ہے کہ ایوارڈ جس شخصیت کے نام یا مناسبت سے دیے جاتے ہیں ان کا کوئی علمی و ادبی کردار ہی نہیں ہے۔ کوئی بھی اٹھ کر اپنے نام یا اپنے ماں باپ کے نام پر دے رہا ہے جن کا کوئی علمی و ادبی قد ہی نہیں ہے اور نہ ہی ایوارڈ کے منتظم کا کوئی علمی و ادبی قد ہے۔ایوارڈ لینے والے یہ نہیں پوچھتے کہ آپ کی اماں کوئی ادیبہ،شاعرہ یا صحافی تھیں۔کیا لکھتی تھی۔۔۔گھرکا سودا سلف یا ڈائری۔۔کچھ تو فرمائیں کہ آپ کے ابا اور اماں کیا کرتے تھے۔بھئی پھر کسی لکھاری حقیقی لکھاری کے نام کا ایوارڈ دے دیں۔مانا کہ ماں باپ بھائی باعث عظمت و شرف رشتے ہیں لیکن ان کا لکھنے سے تعلق ہی نہیں تو ایوارڈ دینا کس ضمن میں ہے۔ان کے نام پر واٹر کولر لگوا دو یا مسجد کو چٹائی دے دو مگر اس میں شہرت نہیں اور ایوارڈ دینا سب سے بڑی نیکی ہے۔قبر میں جانیوالوں کو ان ایوارڈذ کا ثواب ضرور ملتا ہوگا۔کیوں ایسا کرکے ان کی روحوں کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ نجانے کس بات پر فخر کر رہے ہیں یہ سب۔ حضور والا باتوں سے زندگی نہیں بنتی، عمل اورکردار سے بنتی ہے۔یہ آپ کی جاہلانہ پھبتیاں کستی باتیں سننے والے لوگ کوئی اور ہوں گے ہم جیسے درویش نہیں،اس لیے کہ ہم بات،کام اور کلام دونوں میں اپنا بھرپور اثر اوردم رکھتے ہیں۔ ہمارا ماضی حال اور مستقبل خاصاروشن اور رب کے بندوں کی خیر خواہی والا ہے۔اپنی تحریر میں مجھے چند دن کا مہمان اور سو میں اکیلا لکھنے والو! چند دن کا مہمان اور سو میں اکیلا میں نہیں،آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں۔کیابات ہے کہ آپ اور آپ کے لوگ تو منظر نامے سے بھی غائب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ابھی تک میں نے آپ کے کئے کی کہانی پوری لکھی بھی نہیں ہے اور آپ کے مختلف افراد کو کئے میرے نام،اسے سمجھاؤ کے میسجز بھی سرعام سربازار عام نہیں کیے ہیں۔راقم الحروف کو سو میں اکیلا بتانے والو تمہیں کیاپتہ کہ جہاں سے تمہاری لائن ختم ہوتی ہے وہاں سے میری شروع ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر آپ یہ جاننے سے یکسر عاری ہیں کہ سینکڑوں ایڈیٹروں کا ساتھ اوربیشتر قلمکاروں کی محبت والفت ہی دراصل میرا حقیقی سرمایہ ہے۔ یہ ایوارڈ کہانی سفر جو میں جاری رکھے ہوئے ہوں،یہ میرے سینئر اور قابل احترام رائٹر دوستوں کی مجھے دی ہوئی وہ قوت ہے کہ بفضل باری تعالی وہ مجھے سایہ فراہم کرتے ہیں۔آپ کے میرے لیے اور دیگر کو کئے گئے واٹس ایپ میسجز کی زبان کیاخوب ہے کہ جہالت کا پیش خیمہ زیادہ لگتاہے اور علمی و ادبی چاشنی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہے اورانداز گفتگو انتہائی جاہلانہ و معتصبانہ ہے۔نام نہاد بے سروپا،ہڑبونگ مچی تقریب سجانے والو، کچھ کرنا ہے تومیرے لکھے آٹھ آرٹیکلز کا جواب دیں، اپنی تعریفی کارروائی ذراکم چلائیں۔کیا کمال بات ہے کہ میری تحریروں میں سوال کچھ اور ہوتا ہے اور جواب کچھ اورملتا ہے جو مناسب بات نہ ہے۔لکھئے مگر ایسا نہیں، کچھ خاص خاص اورخاص کہ آپ کے کاسہ لیس افراد، جی حضوری دلدادہ افراد کے کلیجوں کو بھی ٹھنڈک پہنچے، جو میرے لکھے آٹھ ایوارڈ کہانی آرٹیکلز کی تپش سے بیمار اور ہلکان سے ہوئے پڑے ہیں اور اب اپنے موبائل پر دوبارہ ایڈ کرنے کی صورت میں ’’No Add‘‘ کا آپشن لگائے بیٹھے ہیں۔علم و ادب سے وابستہ حقیقی سرمایہ صحافت و ادب پر ممتکن شخصیات کو سرمحفل سربازار اپنے مخصوص سٹائل میں کاٹتے پھر رہے ہیں مگر ان کی ہر کوشش بے کارجاتی ہے۔چھوڑوجی سب باتیں ایک اچھا سا تجربہ کار وکیل ڈھونڈیے اور آ جائیں میدان میں،ہم بھی تمام تر مستند اور ناقابل تردید دستیاب حقائق کی روشنی میں آپ کو تیار ملیں گے کہ شائد پھر سے خدا کو ایک اورامتحان مقصود ہے
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47559 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.