اداروں کی بدنامی یا ملک کی

عجب دور حکمرانی ہے کہ ہر ادارے کو بدنام کیا جارہا ہے بلکہ پاکستان کو بدنام کیا جارہا ہے یہاں تک کہ ہم نے اپنی فوج کو بھی نہیں بخشا ہمارے فوجی جوان جو شہادتیں دے رہے ہیں وہ ملک کی خاطر ہیں غریب گھرانوں سے نوجوان بچے رزق حلال کی تلاش میں جب کسی نہ کسی ادارے میں نوکری کرنے کے لیے جاتے ہیں تو ان کے اندر ایک جذبہ ہوتا ہے پاکستان کی خدمت کا لیکن ہم اور ہمارے حکمران انہیں زندگی کی رنگینیوں سے دور بھیج کر مشکل ترین حالات کے سپرد کردیتے ہیں ذہین اور قابل ترین بچے بھی جب اس نظام میں داخل ہوتے ہیں تو انکی سبھی کی سبھی ذہانت مٹی میں مل جاتی ہے انگریز کے بنائے ہوئے اس قانون نے تو ہمیں محکوم بنا کررکھا ہوا تھا جو اب بھی ہے ایک کانسٹیبل بھرتی ہونے والا ساری عمر مزدوروں کی طرح کام کرکے کانسٹیبل ہی ریٹائر ہو جاتا ہے اور اس سے ملنے والے پیسوں سے اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتا ایک نوکری کرنے کے بعد دوسری نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے کبھی سیکیورٹی گارڈ بھرتی ہوتا ہے تو کبھی چوکیدار بن جاتا ہے اور تو اور ہمارے استاد جو سکولوں میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں انکی ترقی ہے اور نہ ہی کوئی سہولت ایک خاتون ٹیچر جو دور دراز سے پڑھانے آتی ہے اسے ہم کوئی سہولت نہیں دے سکے بلکہ کچھ تو ہوس کے مارے ہوئے مفاد پرست قسم کے افسر ان کی اس مجبوری سے ناجائز فائدے اٹھاتے ہیں اور رہی سہی کسر محکمہ ایجوکیشن کے کلر ک پوری کردیتے ہیں امید ہے پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی اس پر بھی توجہ دیں گے کہ جن اساتذہ کی نوکری کو 10سال سے زائد ہوگئے ہیں انہیں اگلے سکیل میں پرموٹ کردیں گے اور دور دراز سے آنے والی خواتین ٹیچر ز کو گھر کے قریبی سکول میں تعینات کردیا جائے یا انہیں سواری دی جائے کیونکہ محسن نقوی نے پنجاب میں وہ کام کردیے ہیں جو آج تک کوئی نہیں کرسکا خاص کر پنجاب پولیس میں ریٹائر ہونے والے چھوٹے ملازمین کو ایک درجہ ترقی دیکر ریٹائر کرنے کا حکم جاری کردیا ہے جس سے بہت سے ملازمین کو فائدہ پہنچے گا میں بات کررہا تھا اداروں کو متنازعہ بنانے کی جس میں ہم بہت حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں آئے روز کسی نہ کسی کی باتیں ریکارڈ ہو کر میڈیا کی زینت بن رہی ہیں حالانکہ یہ اتنا سنگین جرم ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا مگر ہم یہاں نہ صرف دھڑلے سے کررہے ہیں بلکہ فخربھی کرتے ہیں بعض اوقات تو ایسا محصوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے اور اسے طویل کرنے کے لیے وہ ہر طریقہ استعمال کررہے ہیں اداروں کی بدنامی سے لیکر آئین کی پامالی تک جبکہ سیاست کو تجارت بنانے والے اب عدلیہ پر انگلی اٹھارہے ہیں اور پارلیمنٹ کوعدلیہ کے خلاف صف آراء کررہے ہیں جو جماعتیں آج حکومت میں ہیں ان کا ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی فوج اور کبھی عدلیہ کو ٹارگٹ کر کے کمزور کرنے کی کوشش کی اس وقت ریاست کو مافیاز سے خطرہ ہے 23کروڑ عوام کی گردنیں مافیا کے شکنجے میں ہیں چوں چراں بھی نہیں کررہا حالانکہ اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزررہا ہے عوام مہنگائی سے تنگ ہیں ملک میں مہنگائی کی شرح44.49فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے مجموعی طور پر ملک کے 70فیصد کاروباری ادارے مشکل حالات کا شکار ہیں پنجاب کے 64فیصد کاروباری ادارے خراب صورتحال کا سامنا کررہے ہیں ملکی برآمدات 10فیصد کم ہوگئیں ہیں جو مسلسل کمی کا شکار ہے شرح نمو6 فیصد سے کم ہوکر0.4فیصد پر آگئی ہے روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر میں اضافہ سے معیشت دباؤ کا شکار ہے ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی تیزی سے بڑھ رہی ہے برآمدات میں کمی خام مال، ضروری سپیئر پارٹس کی درآمد پر پابندی، مسابقتی قیمتوں پر توانائی کی مناسب فراہمی کی کمی اور سیلز ٹیکس ریفنڈ سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے 50 فیصد انڈسٹری بندہو چکی ہے پاچھلے دور میں پاکستان میں غیر ملکی موبائل فون کمپنیوں نے اپنے پلانٹ پاکستان میں لگائے تھے جسکی وجہ سے موبائل فون سستا بھی تھا اور لوگوں کو روزگار بھی ملا ہوا تھا اب ان حالات میں پاکستان میں موبائل فون بنانے والی تمام کمپنیاں بندہو چکی ہیں اور زیادہ تر کمپنیوں نے ملازمین کو فارغ کر دیا اس وقت 3 غیر ملکی کمپنیوں سمیت ملک کی تقریباً 30 موبائل فون کمپنیوں کی پیداواری سرگرمیاں بندہو چکی ہیں ملک کا تباہ کن معاشی بحران موبائل فون انڈسٹری کو کیوں نگل گیااسکی وجہ یہ ہے کہ درآمدی پابندیوں کے سبب ان کے پاس خام مال ختم ہو گیا ہے اس لیے جب سامان ہی نہیں ہوگا تو موبائل فون کیسے تیار ہونگے اس لیے پلانٹ بند ہیں جس سے تقریباً 20 ہزار ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے زیادہ تر کمپنیوں نے ملازمین کو اپریل کی تنخواہوں کا نصف ایڈوانس ادا کرنے کے بعد فارغ کر دیا ہے اگر ہماری معیشت کی یہی صورتحال رہی تو آنے والے دنوں میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا حکمران پاکستان میں نظر آئیں گے یا پھر وہاں چلے جائیں گے جہاں انہوں نے گھر بنا رکھے ہیں آخر میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی اور تجارتی رہبر احسن سلیم بریا ر کے مطابق تاریخی مہنگائی نے صارفین کی قوت خرید کو کم کردیا ہے جس کے باعث پنجاب کے64فیصد کاروباری ادارے خراب صورتحال کا شکار ہیں اور 38فیصد کاروباری اداروں نے افرادی قوت میں کمی کر دی ہے 72فیصد کاروباری ادارے پاکستان کے ممکنہ ڈیفالٹ کی وجہ سے پریشان ہیں حکومت نے اب تک کوئی معاشی روڈ میپ نہیں دیا آئی ایم ایف کی ایما پر بجلی، گیس ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تسلسل سے سے اضافہ سے صنعتی شعبہ بحران کا شکار ہے درآمدی صنعتی خام مال بندر گاہوں میں ڈالر نہ ہونے سے رکا ہوا ہے جس سے کاروباری ادارے بند ہورہے ہیں جو خراب معاشی صورتحال کی نشاندہی کررہے ہیں جس سے صنعتکاروں و تاجر پریشانی کا شکار ہیں اور ملک میں استحکام دیکھنا چاہتے ہیں۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.