گرگٹ کے رنگوں کی طرح بدلتے بیانات

اک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا ہ کی اسمبلیاں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے مشورے پر تحلیل کیں، صدر علوی کی موجودگی میں جنرل باجوہ کے ساتھ جو میٹنگ ہوئی اس میں جنرل باجوہ نے کہا تھاکہ آپ الیکشن چاہتے ہیں تو اپنی حکومتیں ختم کر دیں۔عمران خان کے اس دعوی کے تناظر میں ماضی قریب میں ہونے والے معاملات کو پرکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یاد رہے جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ نومبر 2022میں ہوئی جبکہ پنجاب کے پی اسمبلیوں کی تحلیل جنوری 2023میں ہوئی تھیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ عمران خان بعد از ریٹائرمنٹ بھی انہیں قمر باجوہ کے مشوروں پر عمل پیرا رہے، جنہوں نے بقول عمران خان کی حکومت کو سازش کے تحت ختم کروایا، سبحان اللہ۔ یاد رہے پی ٹی آئی دور حکومت میں پی ڈی ایم جماعتیں وزیراعظم عمران خان کو سیلیکٹڈ اور کٹھ پتلی کہا کرتی تھیں تو انصافی دوست برا بھلا کہا کرتے تھے، اور آج ہر وقت عمران خان صاحب برملا اپنی بے بسی کا اظہار پوری دنیا کے سامنے کررہے ہیں۔ اک پارٹی چیرمین (جو کہ پنجاب و کے پی کی اسمبلیوں کا ممبر بھی نہ تھا حتی کہ قومی اسمبلی کا ممبر بھی نہ رہا) نے اک ریٹائرڈ جنرل یعنی قمر باجوہ کے ساتھ صدر عارف علوی کی بدولت ہونے والی خفیہ ملاقات میں آئینی و منتخب حکومتوں کو اک ریٹائرڈ جنرل کے مشورہ کے بعد تحلیل کردیا۔ کیا اک ریٹائرڈ جنرل کے مشورہ پر اسمبلیوں کو تحلیل کرنا آئینی عمل تھا ؟ جب دل چاہا آئین کا سہارا لیکر قومی اسمبلی کو یک جنبش ختم کرنے کا اعلان کردیا، جب دل چاہا دو منتخب صوبائی اسمبلیوں کو ختم کروا دیا۔جناب عمران خان صاحب کے حالیہ انکشافات پر مزید کچھ لکھنے سے پہلےموصوف کے چند بیانات عمران خان کی حالت زار کو واضح کردیں گے۔ اور یہ بیانات ایک ہی شخص یعنی عمران خان کے ہیں۔"پی ڈی ایم کے جلسوں میں جنرل قمر جاوید باوجوہ اور فیض حمید کا نام لینے پر شدید غصہ پایا جاتا ہے۔’جنرل باجوہ ایک سلجھے ہوئے آدمی ہیں۔ ان کے اندر ٹھہراؤ ہے۔ اس لیے وہ برداشت کر رہے ہیں۔ کوئی اور فوج میں ہوتا تو بڑا ردعمل آنا تھا۔ غصہ تو اس وقت فوج کے اندر بہت ہے۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ برداشت کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔میں اپنی حکومت میں بے بس تھا، جنرل باجوہ فیصلہ کرتے تھے نیب نے کس کو چھوڑنا اور کسے اندر کرنا ہےسارے اختیارات باجوہ کے پاس تھے۔ہماری تو حکومت ہی نہیں تھی ۔باجوہ نے چوروں کو NRO دیا۔ باجوہ میر جعفر اور میر صادق ہے اس نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔باجوہ کو الیکشن تک ایکسٹنشن دو"۔ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ بتانا ضروری ہوگا کہ عارف علوی کی بدولت ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل قمر باجوہ کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں سال 2022کے اگست اور ستمبر میں ہوئیں تھیں جب جنرل قمر باجوہ حاضر سروس تھے۔اور جنرل قمر باجوہ نے یہ ملاقاتیں وزیر اعظم شہباز شریف کے نوٹس میں لانے کے بعد کی تھیں۔ او ر میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ان ملاقاتوں میں بھی عمران خان کی جنرل قمر باجوہ سے یہی خواش رہی کہ وہ کسی نہ کسی طرح پی ڈی ایم حکومت کو ختم کروانے کا بندوبست کریں۔یعنی ایک طرف عمران خان صاحب آرمی کو غیر سیاسی ہونے کا حکم نامہ جاری کرتے ہیں مگر دوسری جانب آرمی کے چیف ہی سے سیاست میں ملوث ہونے کی استدعائیں بھی کرتے رہے ہیں۔ آپکو یاد ہوگا کہ اکتوبر 2022میں ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لیے بغیرانکشاف کیا کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع کی ’پرکشش پیشکش‘ دی گئی،مگر جنرل باجوہ نے یہ پیش کش ٹھکرادی۔ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا تھا کہ عجیب بات ہے کہ اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں؟ عمران خان کے پنجاب اور کے پی کے حکومتوں کے خاتمہ کے لئے جنرل قمر باجوہ کے مشورہ کے دعوی پر پہلے یہ بات طے کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر جنرل باجوہ نے عمران خان کو دونوں صوبائی حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے اگست/ستمبر2022کی ملاقاتوں میں مشورہ دیا تھا تو پھر اس مشورہ پر اتنی تاخیر کے ساتھ جنوری 2023میں عمل درآمد کیوں کیا گیا؟ یا پھر عمران خان کی جنرل قمر باجوہ کے ساتھ انکے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کوئی خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں ۔دونوں صورتوں میں ایک بات قابل غور ہے کہ عمران خان کو ایسی کونسی مجبوری تھی کہ کسی سرکاری ملازم کے مشورہ پر صوبہ پنجا ب اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی آئینی و منتخب اسمبلیوں کو ختم کردیں۔آپکو یاد ہوگا کہ مذکورہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے حوالہ سے سپریم کورٹ کی کاروائی میں جسٹس اطہر من اللہ نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی وجوہات کیا تھیں؟عمران خان جب وزیراعظم تھے تو دو ٹوک انداز میں کہتے تھے کہ کوئی بھی فیصلہ ان سے پوچھے بغیر نہیں ہوتا،جو بھی فیصلہ ہوتا ہے اس کا ذمہ دار میں ہوں لیکن جیسے ہی عدم اعتماد کی صورت میں حکومت سے نکالے گئے تو اپنی لاچاری کا اظہار شروع کردیا۔مسئلہ یہ ہے کہ جب عمران خان کے پاس کوئی نیا بیانیہ نہیں بچتا تو باجوہ صاحب کو رگڑا دینا شروع کردیتے ہیں۔ویسے باجوہ صاحب کےساتھ بھی بہت اچھا ہورہا ہے انکو کس نے کہا تھا نوازشریف کی حکومت گراو اور عمران خان کو وزیراعظم بناؤ ۔اب بھگتیں جناب باجوہ صاحب۔ویسے جناب عمران خان صاحب بھی قسمت کے دھنی ہیں کیونکہ انکے چاہنے والے ان کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ملانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے عمران خان کے یوٹرن اور گرگٹ کے رنگوں کی طرح آئے روز بدلتے بیانات پر کسی انصافی دوست میں یہ جرات نہ ہوگی کہ وہ اپنے لیڈرکو حرف تنقید بنائیں۔ جیساکہ آجکل ٹک ٹاک پر مشہور زمانہ ڈائیلاگ ہے "جو رانے نے کہہ دتا کہہ دتا"۔

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.