بھوٹان کو ”ڈریگن کا ملک“بھی کہا جاتا ہے،یہ چین اور
بھارت کے درمیان ایک چھوٹا سا پہاڑی ملک ہے۔اس ملک کی ایک دلچسپ بات سے بہت
ہی کم لوگ واقف ہوں گے کہ یہاں مچھروں کو مارنا ایک گناہ سمجھا جاتا
ہے۔بھوٹان میں بدھ مت مذہب کو ماننے والے زیادہ ہیں جن کے مذہبی عقیدہ کے
مطابق کسی بھی جاندار خواہ جانور ہی کیوں نہ ہو اس کوجان سے مارنا گناہ
تصور کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے جب دنیابھر میں مچھروں کو تلف کرنے کا
پروگرام شروع کیا تومچھر مار ٹیموں کوبھوٹان میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا
پڑا کیونکہ وہاں کے لوگ ٹیموں کو اپنے گھروں کے اندر مچھر مار سپرے کرنے
نہیں دیتے تھے حالانکہ مچھروں کی وجہ سے وہاں ہلاکتیں بڑھ رہی تھیں۔آخر کار
بھوٹان کی حکومت نے مچھروں سے بچاو کے لئے احتیاطی تدابیر کا پروگرام شروع
کیا جس میں لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،حکومت نے لوگوں کو بڑی بڑی
مچھر دانیاں مفت فراہم کیں اورہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتیں بھی مفت
کردیں جبکہ لوگوں نے حکومت کے پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے اپنے گھروں
اور علاقوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیا جس کانتیجہ یہ نکلا کہ ملیریا کے
باعث ہونے والی ہلاکتوں میں کمی آنے لگی۔ایک رپورٹ کے مطابق بھوٹان میں سن
1994میں ملیریا کے چالیس ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے اور 68افراد موت کے
منہ میں چلے گئے لیکن بھوٹان حکومت کے احتیاطی پروگرام کے آغاز کے بعد سن
2018تک بھوٹان میں صرف 54کیس رپورٹ ہوئے۔
پاکستان میں گذشتہ چند برس قبل مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماری ملیریا اور
ڈینگی پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا تھا لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے
والے سیلاب اور قدرتی آفات نے ملک میں ایک مرتبہ پھر مچھروں سے پیدا ہونے
بیماریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ایک عالمی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق
گلوبل فنڈ کے ڈائریکٹر پیٹر سینڈز کا کہنا ہے کہ”پاکستان میں حالیہ سیلاب
کی وجہ سے متعدی بیماریوں میں اضافہ ہوا،ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آنے
کی وجہ سے ملیریا کے کیس چار گناہ بڑھ کر سولہ لاکھ ہوگئے ہیں۔“ موسمیاتی
تبدیلیوں کے بعد پاکستان میں پائے جانے مچھروں میں ایک حیرت انگیز بات
مشاہدے میں آئی ہے کہ حالیہ سیلاب کے بعد ملیریا پھیلانے والا مچھر غائب
ہوگیا جبکہ اس کی جگہ بے ضرر سمجھے جانے والے مچھر نے تیزی سے
ملیریاپھیلانا شروع کردیا ہے۔ایک مقامی ویب سائٹ میں شائع رپورٹ میں
ڈائریکٹر آف ملیریا کنٹرول کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ موسمیاتی
تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں ملیریا پھیلانے والاروائتی مچھر تو غائب
ہوگیا لیکن اس کی جگہ”اینا فلیس پلچیری“ نامی مچھر نے سیلاب زدہ علاقوں میں
ملیریا پھیلانا شروع کردیا ہے جو پہلے یہ کام نہیں کرتا تھا۔اس راز کو
جاننے کے لئے ماہرین نے اس نئے مچھر کے نمونے امریکہ میں بھجوادیئے ہیں
تاکہ جدید تحقیقات سے یہ پتہ لگایا جاسکے کہ آخر یہ تبدیلی کس طرح ہوئی ہے؟
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس نئے مچھر نے ملیریا کو پھیلانے کا
کام شروع کردیا تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ملیریا کی شرح میں
اضافہ ہونے لگے گا کیونکہ ”اینا فلیس پلچیری“ مچھروں کی تعدادملیریا اور
ڈینگی پھیلانے والے مچھروں سے بہت زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سن2021کے دوران تین
لاکھ پچاس ہزار کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے ایک سو تیرہ افراد کی موت ہوئی
اسی طرح اسی سال میں ڈینگی کے انچاس ہزار کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 183
افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر
میں ہر سال 200ملین سے زائد ملیریا کے کیس رپورٹ ہوتے ہیں حالانکہ ملیریا
اب ایک قابل علاج بیماری ہے۔ بی بی سی میں شائع ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا
گیا کہ سائنس دانوں نے ایک ایسی دوائی بنا لی ہے جس کی ایک خوراک سے ملیریا
کا علاج ممکن ہے۔دنیا میں ملیریا کی روک تھام سے متعلق آگاہی کے لئے اقوام
متحدہ کے زیراہتمام ہر سال 25اپریل کو ملیریا سے بچاو کا عالمی دن منایا
جاتا ہے اس سال کا تھیم ہے ”REACHING THE ZERO MALARIA TARGET“ پاکستان میں
ملیریا کنٹرول پروگرام سن1950سے جاری ہے اس کے باوجود ملیریا کے کیسز میں
اضافہ کی بنیادی وجہ حالیہ سیلاب،موسمیاتی تبدیلیاں،علاج معالجہ کی ناکافی
سہولیات،دیسی ٹوٹکوں کا ستعمال،مچھروں کی بیماری سے بچاوکے لئے اقدامات و
شعور کا فقدان اور مچھروں سے بچاو کے لئے سپرے،کوائل،مچھر مارالیکٹرک آلات
اور مچھر دانیوں کی بڑھتی ہوئے قیمتیں ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ بھوٹان کی طرز
پرعوام کو مچھروں سے بچاو کے لئے مچھر دانیاں،الیکٹرک آلات اورسپرے مفت
فراہم کرنے کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں میں ملیریا سے بچاو کی ادویات
اورویکسین کی مفت فراہمی کویقینی بنائے تاکہ اقوام متحدہ کے ٹارگٹ کے مطابق
ملک میں ملیریا کیس زیرو کئے جاسکیں۔
|