وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا
ووٹ لے لیا مبارک ہو پی ڈی ایم نے 180ارکان کی حمایت حاصل کر لی اس کے بعد
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مخالفین کو خوب لتاڑا شیخ رشید کو شیخ حرم بھی
کہہ ڈالا مگر انہوں نے محکمہ ریلوے کے اس حادثے کا ذکر نہیں کیا اس حادثے
میں کراچی ایکسپریس کی بوگی میں آگ لگ گئی سات مسافر جان سے چلے گئے اﷲ
تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس بوگی میں حکمران خاندان کا کوئی فرد نہیں
تھا کیونکہ ان سب کے پاس ملکی خزانہ سے کروڑوں روپے کی گاڑیاں موجود ہیں جو
عوام کے پیسوں سے خریدی گئی ہیں تاکہ ہمارے یہ لیڈر ہمیں ملک میں آسانیاں
پیدا کرکے دیں کیونکہ انہیں اقتدار تک جانے کے لیے انہی عوام کے ووٹوں کی
ضرورت ہے جو کبھی آگ میں جل کر مرجاتے ہیں تو کبھی بم دھماکوں میں جان دے
دیتے ہیں خیر یہ ایک معمولی سا وقعہ ہے اسی لیے تو کسی بھی میڈیامیں نہیں
چلا اور نہ ہی اس پر سنجیدگی دکھائی صرف سوشل میڈیا پر اس حادثے کی تفصیلات
شیئر کی گئی تو پھر کیوں نہ آج ہم بھی سوشل میڈیا کی ہی بات کر لیں کہ اس
پر کیا چل رہا ہے کیونکہ ایک طرف سپریم کورٹ ہے دوسری طرف پی ڈی ایم کی
حکومت ہے تو تیسری طرف پی ٹی آئی ہے اگر دیکھا جائے تو عوام کہیں نظر نہیں
آتی جنکی خبریں جلنے اور مرنے کے بعد آتی ہیں وہ بھی اب نہیں آرہی اﷲ خیر
کرے کہ جب سے الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں گیا ہے تب سے سوشل میڈیا بھی
بہت زیادہ گرم ہے یہاں چونکہ اظہار کی آزادی ہے اس لیے ہر کوئی کھل کر اپنے
اپنے خیالات کا بیانیہ چلا رہے ہیں اس حوالہ سے مختلف گروپوں میں کیا کیا
سیاسی رنگ بھکرے ہوئے ہیں آج ان کو ہی ہم پڑھتے ہیں ایک گروپ میں حکومت پت
شدید تنقید کرتے ہوئے تحریر ہے کہ پاکستان سے پاکستان میں مار کرنے والے
میزائل PDM-13 کا کامیاب تجربہ جس نے پورے ملک میں تباہی مچا کر رکھ دی
میزائل نے پاکستانی اکانومی کو نشانہ بنایا اور مکمل تباہ کیا میزائل لانچ
کرنے والوں میں خوشی کی لہر ایک اور گروپ میں کسی منچلے نے تحریر کیا 50
کروڑ سے کم کرپشن والے اسمبلی میں ہوں گے اور 25 من سے زیادہ گندم رکھنے
والے جیل میں ہوں گے۔الیکشن کا نام آتے ہی دھماکے کون کروا رہاہے ذرا سوچئے
کہیں الیکشن رکوانے کیلئے تو خون بہانہ ضروری تو نہیں ہوگیا اور جو کہتے
ہیں ہماری مرضی کے بغیر ملک میں نہ کوئی آ سکتا ہے نہ جا سکتاہے پھردہشت
گرد کیسے آگئے مراد سعید اصل نشانہ تھا پختونوں کا ایک بار پھر خون بہایا
جائے گا۔نگران حکومت کا کام ''الیکشن'' کی نگرانی ہوتا ہے یہ پہلی نگران
حکومت ہے جو کرپٹ عناصر کی نگرانی پر مامور رہ کر الیکشن سے فرار ہونے میں
مدد کرتی رہی اور جمہوریت کی چیمپئن جماعتیں الیکشن سے بھاگ رہی ہیں۔ فردوس
عاشق اعوان سے کمپنی کے لوگوں کے خفیہ ملاقاتیں کچھ دن بعد عمران خان کے
خلاف لانچ کیاجائیگا ۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے چیزیں مہنگی ہوگئی لیکن
پشتونوں کا خون آج بھی 2007 کے نرخوں پر ہی فروخت ہو رہا ہے۔ انڈیا نے ایک
چارجنگ پر 850کلو میٹر چلنے والی کار بنالی ہے اور پاکستان میں ابھی تک صرف
ایک پلیٹ بریانی کی خاطرایک دوسرے کے کپڑے پھاڑتے ہوئے نظر آئیں گے ایک
گروپ میں تحریر ہے کہ عوام کے پیسے سے اربوں روپے مالیت کی ٹیکنالوجی خرید
جاتی ہے کہ دشمن ملکوں کی جاسوسی کی جاسکے لیکن پاکستان میں اس ٹیکنالوجی
سے وزیراعظم ،چیف جسٹس، ججز فیمیلیز کی جاسوسی کی جاتی ہے کہ وہ کیا باتیں
کرتے ہیں ۔معروف ٹی وی اینکر صابر شاکرنے آصف علی زرداری کے اس بیان پر کہ
میرے بعد بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری آگے آئیں گے لکھا ہے کہ
ماشاﷲ باقی غلاموں کے لیے اپنے جیتے جی زرداری کا پیغام۔ن لیگ کا ٹکٹیں
جہاز سے پھینکنے کا فیصلہ جو پکڑے وہی الیکشن لڑے۔!!عمران ریاض خان!!کی
تحریر ہے کہ پنجاب اسمبلی تحلیل تقریباً 99 دن خیبرپختونخوا اسمبلی کے
تقریباً 95 دن ہوگئے آئین کہتا ہے 90 دن میں الیکشن ہونگے مگر نہیں ہوئے جس
کا مطلب ہوا آئین ٹوٹ چکاہے آئین اور قانون کا جنازہ ہے میرا خیال ہے آج کے
لیے اتنا ہی کافی ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو یہ بھی ہضم نہیں ہوگااب کچھ
باتیں ان سرکاری ملازمین کی جو عرصہ دراز سے اپنے ہی افسران کے ناروا رویوں
کے شکار ہیں محکمہ لوکل گورنمنٹ کے کچھ افسران عرصہ دراز سے ترقیوں کے
منتظر ہیں انکی فائلیں ایک جگہ سے دوسری جگہ گردش تو جرور کرتی ہیں مگر ان
پر کاروائی نہیں ہورہی اسی طرح محکمہ تعلیم کے اساتذہ ہیں جو تقریبا 15سال
سے ترقیوں کے منتظر ہیں اور انکی کہیں شنوائی نہیں ہورہی پنجاب کے نگران
وزیراعلی محسن نقوی اس حوالہ سے بہت کام کررہے ہیں خاص کر ہمارے سرکاری
ہسپتالوں کی جو حالت ہو چکی تھی انہیں ٹھیک کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں
ہر روز کسی نہ کسی شہر کے ہسپتال میں جاتے ہیں مریضوں سے ملتے ہیں اور
سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہیں اسی طرح اگر محکمہ تعلیم کے
اساتذہ کے مسائل کے حل پر بھی توجہ دیں تو یہ ان معمار وطن پر احسان ہوگا
جن کے ہاتھوں سے وہ بھی پڑھ کر اس منصب پر فائز ہوئے ہیں اگر ہمارے اساتذہ
خوشحال ہونگے تو وہ محنت اور لگن سے بچوں کو پڑھائیں گے ویسے تو ہمارے
استاد کسی بھی معاشرے کے استاد سے بہتر ہیں لیکن معاشی پریشانی کی وجہ سے
کچھ استاد بچوں پر اتنی توجہ نہیں دے پاتے خاص کر ہمارے سرکاری سکولوں میں
کیونکہ ایک تو تنخواہ کم اور اوپر سے ترقیاں نہ ہونے کے برابر اور رہی سہی
کسر ہمارے ان افسران نے پوری کررکھی ہے جو محکمہ تعلیم کا حلیہ بگاڑنے میں
مصروف ہیں محسن نقوی جس طرح محکمہ صحت اور دوسرے اداروں کی بہتری کے لیے
کام کررہے ہیں بلکل اسی طرح محکمہ تعلیم پر بھی توجہ دیں تو ہماری آنے والی
نسلیں بہت کچھ کرنے کی ہمت کرپائیں گی۔
|