پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی انڈیا کے شہر گواہ ( ایس سی او) کانفرنس میں کارگردگی کیسی رہی؟

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس انڈیا کے سیاحتی شہر گوا میں 4 اور 5 مئی کو منعقد ہوئی جس میں پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی ۔ یہ 12 سال بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا انڈیا کا دورہ تھا جو ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات متعدد متنازع امور کے باعث سرد مہری کا شکار ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے اب ان ممالک کی تعداد 20 ہوگئی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد ایس سی او کی سرحدیں اب بحرِ ہند کے ساحل کو چھونے لگی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد ایس سی او کے آٹھ مستقل اراکین کی آبادی‘ دنیا کی کل آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہے اور رقبے کے اعتبار سے یہ ممالک ایشیا کے 77فیصد حصے کے مالک ہیں۔ ایس سی او ایک ایسی علاقائی تعاون کی تنظیم ہے جو مزید کئی پہلوؤں سے اپنی ہم عصر تنظیموں سے منفرد ہے۔ مثلاً اس میں چار ایٹمی طاقتیں شامل ہیں یعنی روس‘ چین ‘ پاکستان اور بھارت۔ اس کے علاوہ تین اہم تہذیبوں چینی‘ ہندی اور اسلامی کے باہمی ملاپ کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کررہی ہے. اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے رسمی طور پر نہ سہی لیکن کوشش کرنا چاہیے غیر رسمی انداز میں ہی ہو کشمیر اور افغانستان جیسے علاقائی تنازعات کے کل کے لئے درپردہ کوششوں کا آغاز ہوسکتا ہے۔ پاکستان وزیر خارجہ کی آمد سے کچھ دن پہلے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پونچھ کے علاقے میں قابض انڈین سکیورٹی فورسز پر خود ساختہ دہشت گردانہ حملے سے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے ہی سرد فضا میں دونوں طرف سے الزامات کی بھر مار میڈیا میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہیں ۔ پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے گذشتہ سال انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو ’گجرات کے قصائی‘ کے الفاظ کے سے پکارا گیا تھا. اور اس کے بعد بی جے پی کے ایک عام مقامی رہنما کی جانب سے سنگین مغفلات کہی گیں تھیں . اس دورے میں اس ہی بات پر مودی کی جماعت بے جی پی کے انتہا پسندوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کی آمد پر مظاہرے اور ریلیاں نکال کر پاکستان اور پاکستانی وزیر خارجہ کے خلاف مظاہرے میں احتیجاج کیا اس ہی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کسی مثبت پیشرفت کے امکانات نظر نہیں آتے.وزیر خارجہ بلاول کے بھارت جانے پر انٹرنیشنل اور ُملکی میڈیا میں یہ ہی سمجھا گیا کہ شائد کوئی مصالحت کی کوشش پرکام ہو رہا ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ اسلام آباد کے لیے یہ دورہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے اور اپنی خارجہ پالیسی کے مفادات آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئی دہلی کے ساتھ تعلقات جو سرد مہری کا شکار ہیں اُن میں دوبارہ جان ڈالنے کی بہتر کوشش کی ابتدا تھی مگر انڈیا کی ہٹ دھرمی اور انڈین صحافی و میڈیا کی طرف سے متصابانہ کوریج نے اس کانفرنس کی کارگردگی کو ماند کردیا ۔ یہ اُمید لگائی جاسکتی ہے کہ دورے کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان برف پگھلنے کی امید کی ایک کرن کسی بھی طرح پھوٹی تو سہی مگر گوا میں ایس سی او اجلاس کی نمایاں جھلکی بھی یہی تھی کہ پاکستان اور انڈیا کے نمائندوں نے اگرچہ اتنے قریب آ کر بھی دو طرفہ رابطے بحال نہ کیے مگر اپنی اپنی حیثیت میں ایک دوسرے کو خوب ’منھ توڑ جواب‘ دیے۔۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں وسطی ایشیا میں سلامتی اور اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کے لیے رکھی گئی تھی جس کی سربراہی پاکستان کا اہم اتحادی اور پڑوسی مُلک چین اور پاکستان کا ایک اہم ابھرتا ہوا دوست روس کر رہا ہے۔تنظیم میں وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے 4 ارکان بھی شامل ہیں، ایک ایسا خطہ جس میں اسلام آباد تجارت، رابطے اور توانائی کے لیے مزید تعاون کی امید رکھتا ہے. اگر پاکستان اپنے معاشی اور سیاسی، داخلی و خارجی محاذ پر بروقت فیصلے کرے تو آئندہ کی صدی ترقی کرنے کی اس ہی خطے کی ہے. اگر پاکستان کانفرنس میں شرکت نہ کرتا تو پاکستان ایک ایسی تنظیم سے الگ تھلگ ہونے کا خطرہ مول لیتا جو آج کل کے دور میں کسی بھی ملک سے کٹ کر رہنا اپنے آپ پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے. کانفرنس کے دوران بلاول اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جئے شنکر کے درمیان دو طرفہ ملاقات کی بازگشت سنائی دی مگر انڈین حکمراں اپنے میڈیا کی پاکستان اور پاکستانی وزیر خارجہ کے خلاف متعصابانہ کوریج پر اپنے ہی میڈیا سے سہما اور خوفزدہ آنے لگا اور انڈین وزیر خارجہ آیس جے شنکر میڈیا کے سامنے پاکستانی وزیر خارجہ سے میڈیا اور صحافی حضرات کے سامنے سرد مہری کا مظاہرہ کرتے اور ان کی غیر موجودگی میں ان کا رویہ معزرت خواہ لگتا تھا. تاہم سیاسی امور پر گہری نظررکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ وسیع تر دو طرفہ تناظر میں بہت اہم ہے۔ کانفرنس کے دوران بلاول اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جئے شنکر کے درمیان دو طرفہ ملاقات کا حتمی کوئی امکان نظر نہیں آیا مگر بیک ڈور مُلاقات متوقع نہیں، اس کے باوجود پھر بھی ان دونوں خطوں کے وسیع تر دو طرفہ تناظر میں بہت اہم ہے۔ اس وقت اسلام آباد کے لیے بلاول کا دورہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ تعلقات کو مضبوط اور پائیدار بنانے اور اپنی خارجہ پالیسی کے مفادات کو آگے بڑھانا ہے ناکہ یہ نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ابتدا ہے. سوچنے کی بات یہ ہے کہ تاریخی طور پر چین اور روس نے اس گروپ کی قیادت کی ہے۔ چین اسلام آباد کا ایک قریبی اتحادی اور اہم دوست ہے جبکہ روس کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کی آدھی سے زیادہ رکنیت وسطی ایشیا میں مقیم ہے، جہاں پاکستان تجارت اور رابطوں کو وسعت دینے کے لیے روابط کو گہرا کرنے کی امید رکھتا ہے. پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنے دفتر خارجہ کے تعاون سے شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو با خوبی سے نبھایا کہ اس تنظیم کا روح رواں چین ہے اور پاکستان کو رکنیت بھی چین ہی کے باعث ملی تھی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے چین کی جس قدر تعریف کی اس سے بھارتی اسٹیبلیشمنٹ اور بھارتی حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھائی اس سے یقیناً بھارتی حکمران اپنے ہی میڈیا اور عوام کے سامنے کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی مثال انڈین وزیر خارجہ کی تھی جیسے پاکستانی وزیر خڑجہ کے ان فقروں نے پٹرول کا کام کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فیصلوں کی خلاف ورزی عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے. کانفرنس والی تقریر میں جو (تحریری تھی) ڈپلومیٹک الفاظ تھے. جبکہ پریس کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کھلے الفاظوں میں بہت واضح طور پر بھارتی طرز عمل پر کھل کر تنقید کی اور ترکی بہ ترکی جواب دیا اور واضح کر دیا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط کا حامی ہے. اس لئے گیند اب بھارت کے گول میں ہے اسے بات چیت کا دروازہ کھولنے کے لئے کشمیر کے حوالے سے 5 اگست کے متنازعہ فیصلے کو واپس لینا ہوگا. پاکستانی وزیر خارجہ بلاول نے دہشت گردی کے الزاماات کا کے جواب بڑی خندہ پیشانی سےمثالیں دے کر واضح کیا کہ بھارت خود دہشت گرد ہے اور حکمراں بی جے پی جماعت نے اقلیتوں کا رہنا دشوار کیا ہوا ہے. اس طرح سے اس کانفرنس میں جہاں نئے دوستوں کی تلاش میں کامیابی اور خطے کی سلامتی اور اقتصادی تعاون کے لیے ایک اچھی بیٹھک رہی وہاں ہی انڈین عوام اور میڈیا کے سامنے پاکستانی وزیر خارجہ سرخرو ہوئے ہیں.
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 83703 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.