غزوہ احد ……معرکہ حق و باطل

جنگ احد 7 شوال 3ھ میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان احدکے پہاڑ کے دامن میں ہوئی، مشرکین کے لشکر کی قیادت حضرت ابوسفیان کے پاس تھی(یاد رہے کہ وہ اس وقت حالت کفر میں تھے) اورانہوں نے تین ہزار سے زائد مشرکین کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررکھی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی، مسلمانوں کی قیادت جناب نبی کریم ﷺ نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا،غزوہ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی تھی اس کے بعد قریش مکہ اور یہودیوں کو اندازہ ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے، شکست کھانے کے بعد مشرکین مکہ نہایت غصے میں تھے اور نہ صرف اپنی ناکامی کا بدلہ لینا چاہتے تھے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی، جنگ کے شعلے بھڑکانے میں حضرت ابوسفیان ؓ،ان کی بیوی ہندہ (جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا) اور ایک یہودی کعب الاشرف کے نام نمایاں ہیں، ہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کر دیں جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی، حضرت ابو سفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے، ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری حضرت ابوسفیان کے پاس تھی جس کی قیادت میں مکہ کے دارالندوہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے اس مقصد کے لیے مال و دولت بھی اکٹھا کیا گیا، جنگ کی بھر پور تیاری کی گئی، تین ہزار سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے سات سو زرہ پوش تیار کئے گئے، ان کے ساتھ دوسو گھوڑے اورتین سواونٹ بھی تیار کیے گئے کچھ عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں،حضرت ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے یہ ارادہ کیا کہ حضورﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کا کلیجہ چبائے گی چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے قتل کے لیے اپنے ایک غلام کو خصوصی طور پر تیار کیا۔ بالآخر یہ فوج مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئی۔جناب نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓنے، جو مکہ ہی میں رہتے تھے، انہیں مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا، حضورﷺ نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے چنانچہ 6 شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضور ﷺنے صحابہ کرامؓ کو استقامت کی تلقین کی اور ایک ہزارکی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے، اشواط کے مقام پر ایک منافق عبداﷲ بن ابی تین سو سواروں کے ساتھ جنگ سے علیحدہ ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا، ہفتہ 7 شوال 3ھ کو دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آ گئیں۔ احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ وہاں ایک درہ پر حضور ﷺ نے حضرت عبداﷲ بن جبیر ؓکی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے۔جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا جب ابوعامر نے تیر اندازی کی،اس مرحلہ پر نو مشرکین آئے جو سب قتل ہوگئے، دوسرے مرحلے میں مشرکینِ مکہ نے اکٹھا بھر پور حملہ کر دیا اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ ابتداء کی زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں چنانچہ درہ عینین پر تعینات صحابہ ؓنے حضور ﷺ کی یہ ہدائت فراموش کر دی کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا اور درہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا صرف دس افراد درہ پر رہ گئے ،حضرت خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یکدم پیچھے سے وار کر دیا اسی اثناء میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت محمدﷺ شہید کر دئیے گئے ہیں، یہ سن کر اکثر صحابہؓ نے ہمت ہار دی کچھ لوگ میدان جنگ چھوڑ گئے اور تیسرے دن واپس آئے کچھ ارد گرد کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ حضور ﷺ کے بعد زندگی کسی کام کی نہیں کچھ لوگ حضور ﷺ کے ساتھ رہ گئے اور ان کی بھر پور حفاظت کی، اس موقع پر حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو ایک تلوار بھی عنایت کی جو’’ذوالفقار‘‘ کے نام سے مشہور ہے اس دوران حضورﷺکے دانت مبارک شہید ہوئے۔ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ بھی شہید ہو گئے۔ اس بارے میں اﷲ نے قران میں فرمایا۔جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول ﷺ اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو، اور اﷲ تمہارے کاموں سے خبردار ہے(سورۃ آل عمران آیت 153)کچھ وقفے بعد صحابہؓ میدان میں واپس آنا شروع ہو گئے، چونکہ مشرکین اپنے بھاری سامانِ جنگ مثلاً زرہ بکتر کی وجہ سے احد کے پہاڑ پر چڑھ نہ سکے اس لیے کئی مسلمانوں کی جان بچ گئی،حضرت ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ہندہ نے حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کا کلیجہ نکال کر چبایا جس کا حضور ﷺ کو بے حد رنج رہا۔ کچھ مسلمانوں کے واپس آنے اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ حضور ﷺ شہید نہیں ہوئے، مشرکین نے جنگ سے مکہ کی طرف واپسی اختیار کی۔جبل احد یہ وہ مقدس پہاڑ ہے جس کے متعلق حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:اُحد،یہ ایک شان والا پہاڑ ہے،جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں(صحیح بخاری شریف،کتاب المغازی، باب احد یحبنا ونحبہ،حدیث نمبر:4084) اس غزوے میں بہت سی مسلم خواتین نے شرکت کی، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت انس ؓ کی والدہ حضرت ام سلیم نے زخمیوں کو پانی پلانے کا فریضہ سرانجام دیا۔ وہ مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور زخمیوں کو پلاتی تھیں مشک خالی ہوجاتی تو پھر بھر لاتیں، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوسعید خدری ؓ کی والدہ حضرت ام سلیطؓ نے یہی خدمت انجام دی اس جنگ میں ستر مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے۔ لیکن مسلمانوں کی مالی حالت اس قدر ابتر تھی کہ اتنا کپڑا بھی نہ تھا کہ شہداء کی پردہ پوشی ہوسکتی تھی، حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کا پاؤں چھپائے جاتے و سر کھل جاتااور سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے، آخر پاؤں اذخر کی گھانس سے چھپا دئیے گئے۔

 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 187588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.