اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہمارے یہاں اکثر لوگوں کے منہ سے یہ بات سننے کو ملتی ہےکہ موسیقی روح کی غذا ہے ( نعوذوبااللہ) اب ایسے لوگوں سے کوئی یہ پوچھے کہ اگر ان کے نزدیک موسیقی روح کی غذا ہے تو مرنے والے کی میت پر موسیقی کااہتمام کیوں نہیں کرتے اس وقت روح کو سکون اور غذا کی شدید ضرورت ہوتی ہے لہذہ ایسے الفاظ کہنا کہ موسیقی روح کی غذا ہے بہت بڑے گناہ کے زمرے میں آجاتا ہے اور ہمیں اس سے بچنا چاہیئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے جملوں کے سبب ہماری دین سے دوری کے سبب ہم دائرئہ اسلام سے خارج ہوجائیں اور ہمیں علم تک نہ ہو ہماری ساری نیکیاں اور عبادتیں رائیگاں ہوجائیں گی اور ہم مسلمان ہوکر بھی مسلمان نہیں ہوں گے۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں فی زمانہ یہ دیکھا گیا ہے انسان اگر دنیاوی اعتبار سے کسی ٹینشن یا پریشانی کا شکار ہوتا ہے تو وہ اس سے نکلنے کے لیئے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتا ہے کوئی شراب و کباب کی محفل سجا کر سوچتا ہے کہ یہ میرے ٹینشن کا حل ہے تو کوئی تنہائی میں غمگین گانے سن کر سمجھتا ہے کہ اس دل کو سکون اس طرح سے ہی حاصل ہوگا جبکہ یہ تمام راستے سوائے ہماری تباہی اور بربادی کے کہیں نہیں جاتے کیوں ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب زرا غور کیجیئے اللہ تبارک وتعالی نے قران مجید فرقان حمید کی سورہ الرعد کی آیت نمبر 28 میں فرمایا ہے کہ
الا باذکر اللہ تطمئن القلوب
" سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے "

جب اللہ رب العزت نے واضح طور پر ہمیں بتادیا کہ دلوں کا سکون اور چین صرف اللہ ہی کے ذکر میں پنہا ہے تو ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم اپنے رب العالمین کے بتائے ہوئے راست پر چلنے کی بجائے غلط راستوں کا انتخاب کیوں کرتے ہیں شاید اس لیئے کہ یہ شیطان مردود کے بہکاوے کا نتیجہ ہے اور شیطان کا وار صرف ان لوگوں پر ہی کام کرتا ہے جو اللہ تبارک وتعالی کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ کر دین سے دوری کا شکار ہیں اگر آپ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے ذکر سے ہمارے انبیاء کرام علیہم السلام نے کیا کیا حاصل کیا اور آنے والے ہم جیسے گناہ گاروں کو کیا پیغام دیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی کا ذکر کیا ہے ؟ دیکھیں قران مجید کی تلاوت اللہ رب الکائنات کا ذکر ہے نماز کی پابندی اللہ رب العزت کا ذکر ہے اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرکے دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرنا اللہ تعالی کا ذکر ہے کسی کو معاف کردینا اللہ تعالی کا ذکر ہے کسی سے حسن اخلاق سے پیش آنا بھی اللہ تعالی کے ذکر میں شمار ہوتا ہے گویا ہر وہ کام جس میں اس رب الکائنات کی مرضی ، منشاء ، مصلحت اور اس کی رضا بھی شامل ہو وہ اس کے ذکر میں شامل ہے اس رب العزت کے ذکرکے لیئے کوئی تو راستہ اپنا کر دیکھیں اگر آپ کے دل کو سکون اور چین نہ ملے تو دیکھیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تعالی کے قرب کا اصل ذریعہ روحانیت ہے اور ررحانیت کا اصل جوہر اللہ تبارک تعالی کا ذکر ہے روحانیت اصل میں روح کا اپنے خالق و مالک سے وابستہ ہوجانے کا نام ہے اور ذکر اللہ اس وابستگی کا عمدہ اظہار ہے صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق سرکار مدینہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک زندہ ہے اور ایک مردہ ( الوابل الصیب ) جیسی معروف تصنیف میں حضرت علامہ قیم علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ذکر سے دل کو زندگی ملتی ہے میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کو کہتے سنا ہے کہ دل کے لیئے ذکر ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کے لیئے پانی اگر مچھلی پانی سے جدا ہوجائے تو اس کی کیسی کیفیت ہوجاتی ہے بلکل دل کا ذکر اللہ کے بغیر یہ ہی حال ہوتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ذکر سے روح کو قوت ملتی ہے جو اس کی حفاظت کرتی ہے ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق اللہ رب الکائنات کے ذکر کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے پیچھے اس کا کوئی دشمن بڑی تیز رفتاری سے پیچھا کررہا ہو اتنے میں اسے کوئی محفوظ قلعہ میسر آجائے اور وہ اس میں خود کو محفوظ کرلے بلکل اسی طرح بندے کو اپنے سب سے بڑے دشمن یعنی شیطان مردود سے بچانے والی کوئی چیز ہے تو وہ ذکر اللہ ہے ذکر جب روح کو قوت بخشتا ہے تو پھر شیطان اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اسلام میں ذکر کا تصور یہ نہیں ہے کہ دنیا کے تمام مشاغل چھوڑ کر صرف اللہ رب العزت کے ذکر میں لگ جائو اسلام کا تصور یہ ہے کہ تمام جائز مشاغل کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کا بھی ذکر ہوتا رہے یعنی اپنے کاروبار زندگی میں بھی ذکر کے ساتھ مصروف رہے یعنی جسم کے ضروری تقاضے پورے ہوتے رہیں اور روح کو اس کی غذا ملتی رہے اپنی روح کی صحت کے بارے میں فکرمند رہنے والے ذکر کی قدروقیمت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں علامہ ابن قیم علیہ الرحمہ اپنے استاد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فجر کی نماز ادا کی اور پھر ذکرواذکار میں مصروف ہوگئے یہاں تک کہ قریب آدھا دن بیت گیا پھر میری طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے کہ یہ میری دن کی غذا ہے اور اگر میں یہ کھانا نہیں کھائوں تو اپنی طاقت کھودوں گا ( الوابل الصیب )۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جہاں ہم اللہ رب العزت کے ذکر اور روح کی غذا کی بات کرتے ہیں تو آپ اس رب العالمین کی شان و عظمت دیکھیں کہ بارہ مہینوں میں وہ ہمیں رمضان المبارک جیسا بابرکت مہینہ بھی عطا کرتا ہے جس میں ہم اللہ رب العزت کی رضا کے لئے روزہ رکھتے ہیں قران کی تلاوت کرتے ہیں اور مساجد میں نماز پڑھنے والوں کا ایک جم غفیر نظر آتا ہے دراصل روزہ ایک ریاضت ہے جہاں جسم کو روح کا فرمانبردار بننے کی مشق کرائی جاتی ہے اس ریاضت کی بدولت روزے کے باہر بھی جسم روح کے احکام کا پابند رہتا ہے انسانی شخصیت پر روزے کی گہری تاثیر ہوتی ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں روزے کی حالت میں صرف کھانے پینے سے ہی رکنا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تبارک وتعالی کے ذکر میں مصروف رہنا بھی ہوتا ہے تاکہ روزے کے اعلی مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے روزے کا مقصد جسم کو کمزور کرنا نہیں ہوتا بلکہ جسم پر پابندیاں عائد کرکے روح کو طاقتور بنانا ہے اسلام میں روزہ دن کا ہوتا ہے اور اس وجہ سے روزے کی حالت میں دن میں آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے تاکہ جسم کی کمزوری کو آرام ملے لیکن رات کو اس پابندی سے نکل کر اللہ تبارک وتعالی کی حلال اور پاکیزہ نعمتوں کا استعمال کرکے اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی عبادت میں مصروف ہوجاتا ہے یہ عمل انسان کو ایک بہت عظیم روحانی کیفیت تک پہنچادیتی ہے اور یہ کیفیت رمضان المبارک کے پورے مہینے تک رہتی ہے (روح کی طاقت سے اقتباس )

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بیشک اگر دلوں کا چین اور سکون کسی جگہ پوشیدہ ہے تو وہ صرف اورصرف اللہ تبارک وتعالی کے ذکر میں ہی ہے اپنے روز مرہ کے معمولات اور فرائض منصبی کے ادائگی کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کا ذکر بھی ہوتا رہے تو ہماری دنیاوی عارضی زندگی بھی سنور جائے گی اور آخرت کی ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی بھی اس لیئے اپنے معمولات میں ذکر اللہ کو بھی شامل کریں اور جب بھی کسی بھی لمحہ فراغت ہو تب بھی اور اپنی مصروفیات کے ساتھ ساتھ بھی زبان پر ذکر کی کثرت جاری رکھیں اس کی وجہ سے آپ کے دلوں کو سکوں بھی ملے گا اور چین بھی میسر آئے انشاءاللہ العزیز ۔

 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 166 Articles with 133913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.