پاکستان بننے کے بعد سے لے
کر آج تک سامراجیت کے لیے ایک سونے کی چڑیا کی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے
کہ برطانیہ نے نہایت چالاکی سے برصغیر کی تقسیم کرتے ہوئے ایسی حدود بندی
کی کہ پاکستان کبھی اپنے سرحدی مسائل حل نہ کرسکے۔ مسئلہ کشمیر، ڈیورنڈ
لائن کا مسئلہ اور بعد میں مشرقی پاکستان کی تقسیم اسی منافقانہ پالیسی کے
مرہون منت ہیں۔ اس نومولود ریاست کو جہاں سرحدی اعتبار سے کمزور کیا گیا
وہیں اندرونی طور پر بھی اس ریاست میں ایسے عناصر کو پروان چڑھایا گیا جو
لسانیت اور قوم پرستی کو ملک و ملت کے اجتماعی مفادات پر فوقیت دیتے تھے ۔قائد
اعظم کو بھی اس لسانیت پسندی کے عفریت کا سامنا کرنا پڑا اسی لیے قائد اعظم
ؒنے لسانیت پرستوں کو 1948 میں بنگال میں آڑے ہاتھوں لیا اور واشگاف الفاظ
میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہی ہوگی۔قائد اعظم کی
وفات کے بعد ان عناصر کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کھل کھیلنے کا موقع
مل گیا اور یہ لسانی اور قوم پرست عناصر پاکستان کے طول وعرض میں پھیل گئے
اور پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے لگے۔
ان لسانیت پرست اور قوم پرست عناصر کی دیکھا دیکھی پاکستان میں 80 ءکی
دہائی میں مذہبی انتہا پسندوں نے بھی اپنا اثر و نفوض قائم کرناشروع کردیا
اور اس طرح پاکستان کے زیر اثر قبائلی علاقہ جات اورصوبہ خیبر پختونخواہ
میں مذہبی انتہا پسندی نے جنم لیا ۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان کے
دشمنوں نے انتہائی چالاکی سے مذہبی انتہا پسندی اور لسانیات کو پاکستان میں
اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ان غیر ملکی عناصر کو مزید کامیابی ہمارے
کرپٹ، مفاد پرست اور بے ضمیر سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی سے ملنے لگی۔ یہی وجہ
ہے کہ کراچی میں بہت عرصے سے امن مفقود ہے۔
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے شمالی علاقہ جات میں مذہبی انتہا پسندوں کے
خلاف2001 ءمیں کارروائی کا آغاز کیا تو یہاں موجود عسکریت پسندوں نے
پاکستان کے دیگر علاقوں کا رخ کرنا شروع کیا اسی دوران بہت سے مذہب انتہا
پسند گروہ کراچی بھی آدھمکے ۔اتنے بڑے شہر میں جہاں لسانی بنیادوں پر پہلے
ہی کئی گروہ کام کر رہے تھے ان انتہاپسند دہشت گردوں کی آمد سے کراچی شہر
پر کوئی خاص فرق نہ پڑا مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر میں فسادات ہونے لگے
اور کراچی میں ایک دفعہ پھر خون کی ہولی کھیلی جانے لگی، ماؤں کی گود اجڑنے
لگی، بہنیں صف ماتم بچھانے لگیں اور بیویاں اپنے اپنے سہاگ کے اجڑنے سے
جیتے زندہ لاشیں بن کر رہ گئیں۔ماؤں کی گود اجڑنے کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے
جاری رہا جو کوئی بھی اس ظلم کے خلاف بولتا موت کی نیند سلا دیا جاتا یا اس
کے کسی قریبی عزیز کی موت کی صورت میں اس سے بولنے اور احتجاج کرنے کا حق
چھین لیا جاتا۔
اس دورانیے میں تمام سیاسی جماعتوں نے بھی کراچی میں لاشوں کی سیاست کی
اورکراچی کے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونینز اور آرگنائزیشنز
بنوائیں ، طلبہ کو نہ صرف بے دریخ اسلحہ دیا بلکہ ان کے دل میں ایک دوسرے
کے خلاف اتنی نفرت پیدا کر دی کہ کراچی کے تعلیمی ادارے آئے دن میدان جنگ
کا منظر پیش کرنے لگے ۔یہی نہیں نئے آنے والے طلبہ کے لیے یہ ضروری قرار
دیا گیا کہ انھیں بھی ان طلبہ یونینز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا۔ یہی
طلبہ آگے چل کر قومی سطح کے سیاست دان بنے تو انھوں نے اسی تنگ نظری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے مزاکرات کرنے کے بجائے ہتھیاروں کو ترجیح دی جس کا سب سے
زیادہ نقصان کراچی میں بسنے والے غریب اور نادار عوام کا ہوا۔
گزشتہ ماہ سے ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی کے حکومت سے علیحدہ ہوتے ہی جو
فسادات کراچی میں شروع ہوئے وہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے یہاں تک کہ اب ہر
زبان زد عام یہ پکار رہی ہے کہ کراچی میں فوج کو بلا لیا جائے۔ کراچی کے
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے چند باتیں نہایت توجہ طلب ہیں۔ جب بھی ایم کیو
ایم حکومت کی کسی بات سے متفق نہیں ہوتی کراچی فسادات کی نظر ہو جاتا ہے،
جب بھی ایم کیو ایم حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے کراچی کا سکون غارت ہو
جاتا ہے، جب بھی حکمران جماعت، اے این پی یا کسی دوسرے جماعت کا کوئی
عہدیدار ایم کیو ایم کی کسی پالیسی یا ایم کیو ایم کے کسی عہدیدار کے خلاف
بیان بازی کرتا ہے کراچی میں خون کی ہولی شروع ہوجاتی ہے۔دوسری طرف ایم کیو
ایم اورپارٹی لیڈران اس بات کا واویلا شروع کر دیتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو
دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
عین ممکن ہے اس تمام ہنگامہ آرائی میں واقعی ایم کیو ایم کے ساتھ زیادتی ہو
رہی ہو ۔ہمیں تنقید برائے تنقید کو رد کرتے ہوئے دلائل و براہین اور باہمی
مشاورت کے ذریعے کراچی کے مسائل کا حل نکالنا چاہیے اور اس مسئلے کے تمام
فریقین کو ان مذاکرات میں شمولیت دینی چاہیے تاکہ کسی کی بھی حق تلفی نہ ہو
اور کراچی کا کوئی بھی طبقہ احساس محرومی کا شکارنہ ہو۔
کراچی کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے جس میں پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران
ساڑھے سات سو کے قریب بے گناہ افراد کو قتل کردیا گیا ہے اور ان فسادات کی
وجہ سے ملک کو یومیہ 3 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ بہت سے
حالات حاضرہ کے ماہرین ، سیاسی کھلاڑی اور طالع آزما صحافیوں کی یہ رائے ہے
کہ کراچی کاکنٹرول فوج کو دے دیا جائے ۔ان افراد کی جانب سے یہ سفارشات اس
وقت اور بھی درست معلوم ہوتی ہیں جب حکومت کی جانب سے کراچی کے فسادات پر
لاتعلقی دکھائی جاتی ہے یا ان فسادات کو روکنے میں حکومت کی مکمل ناکامی
کھل کر سامنے آجاتی ہے مگر کراچی کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ہمیں
صحیح معنوں میں جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینا ہوگاکیوں کہ کراچی کے
حالات خراب کرنے میں کوئی ایک فرد یا گروہ شامل نہیں ہے بلکہ ہر کوئی اپنی
ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں غریب اور پسماندہ
طبقے کو موت کی نیند سلا رہا ہے۔ ایسے میںمیری ان تمام افرادسے دست بستہ
گزارش ہے جو کراچی کو فوج کے کنٹرول میں دینے کے حق میں ہیں کہ کراچی میں
لسانیت پرستی اور قومیت پرستی بہت عرصے سے پروان چڑھ رہی ہے جو کہ ایک
سیاسی مسئلہ ہے ان لسانی گروہوں کو بیرونی عناصر کی جانب سے پشت پناہی بھی
حاصل ہے۔ اگر اب کی بار فوج نے کراچی کے رہائشیوں کے خلاف 1992ءکی طرز کا
آپریشن کیا تو اسے 1992 ءسے زیادہ بدنامی اور جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑے
گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کے معاملات میں دخل اندازی کرنے والے تمام
بیرونی عناصر کے خلاف سختی سے نمٹا جائے اور کراچی کے رہائشیوں کی محرومیوں
کا جلد از جلد ازالہ کیا جائے اور علاقائی زبانیں بولنے والے تمام طبقوں جن
میں سندھی، اردو بولنے والے، بہاری، بلوچی،پنجابی اور دیگرشامل ہیں میں
برداشت اور عزت و احترام کا تعلق پیدا کیا جائے تاکہ کراچی ایک بار پھر
صحیح معنوں میں روشنیوں کا شہر بن سکے ۔ اگر بدقسمتی سے ہم نے کراچی کے
مسئلے کو حل کرنے میں کسی پس و پیش سے کام لیا تو ہمارا زیرک دشمن ہمیں
پچھتانے کا موقع بھی نہیں دے گا۔ |