مودی کو الزام سے نجات کہاں ملی؟

فروری 2002میں گجرات میں سرکار ی مشینری کی سرپرستی میں رونما ہونے والے مسلم کش فسادات کی ایک مظلومہ محترمہ ذکیہ جعفری کی عرضی پر ایک خاص مرحلے تک کاروائی کے بعد سپریم کورٹ نے گزشتہ پیر 12 ستمبر کو ضابطہ کے تحت سماعت کا کام متعلقہ ٹرائل کورٹ کے سپرد کردیا ۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی اعلا عدالت نے کوئی معاملہ ذیلی عدالت کو بھیج دیا ہو۔ اب ذیلی عدالت میںجو کاروائی ہوگی، اس کے خلاف اپیل کےلئے اوپر کی عدالتوں کے دروازے بند نہیں ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس حکم کو کسی فریق کی ہار یا جیت قرار دینا سراسر سیاسی عیاری اور مغالطہ آرائی ہے جس میں مودی کی پارٹی کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ اس مغالطہ آرائی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں بلکہ اس کے اسباب صریحاًسیاسی ہیں۔

محترمہ ذکیہ جعفری کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ ہیں۔ 77سالہ احسان جعفری ان 69افراد میں شامل تھے جن کو 28فروری کو گلبرگ سوسائٹی میں ہندتووا نظریہ کی تابع انسانوں کے خون کی پیاسی ایک منظم بھیڑ نے بے رحمی سے قتل کردیا گیا تھا۔ مسٹر جعفری کو ان کے اہل خانہ کی نظروں کے سامنے بری طرح زود کوب کرکے گھر کے احاطے میں زندہ جلادیا گیا ۔کئی عورتوں کو تلواروں سے کاٹ ڈالا گیا اور ایک حاملہ خاتون کو تلوار سے پیٹ پھاڑدیا گیا جس سے بچہ باہر نکل آیااور دونوں کی موت ہوگئی۔ یہ سب کچھ ذکیہ کی نظروں کے سامنے ان کے گھر کے احاطے میں ہوا۔سوسائٹی کے سامنے ہجوم صبح سے ہی جمنا شروع ہوگیاتھا۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مسٹر جعفری اور کانگریس کی کئی لیڈرمسلسل ریاستی حکام کو فون کرتے رہے، وزیر اعلا نریندر مودی کو بھی فون کیا گیا لیکن بقول سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی مودی نے اپنا راج دھرم نہیں نبھایا۔ مزیدسیکیورٹی فراہم کرنے کے بجائے وہاں موجود پولیس کوبھی ہٹالیا تاکہ فسادی بلا روک ٹوک موت کا کھیل کھیل سکیں۔ ریاست بھر میں رونما ہونے والے ان فسادات میں سرکار اور پارٹی کا گھناﺅنا کردار مختلف ذرائع سے سامنے آچکا ہے۔

اس بھیانک جرم کے بعدمقدمات کے اندراج میں بھی دھاندلی کی گئی۔ بہت سارے معاملات میں گجرات پولیس نے متعین شکایات کے باوجود کوئی کاروائی نہیں کی۔سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور دس معاملات کی جانچ دوبارہ کرانے کا حکم دیا۔ عدالت عالیہ نے ان کیسوں کی جانچ پڑتال کے لئے سابق سی بی آئی ڈائرکٹر مسٹرآر کے راگھون کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی خصوصی ٹیم(ایس آئی ٹی) بھی مقرر کردی۔ گلبرگ معاملہ کی پیروی کرتے ہوئے محترمہ ذکیہ جعفری نے 8جون 2006کو 119 صفحات پر مشتمل ایک شکایت نامہ ریاست کے ڈائرکٹر جنرل پولیس کو پیش کیا جس میں وزیر اعلا سمیت 63 افراد کو نامزد کیا اور شکایت کی کہ یہ ہلاکتیں دراصل وزیر اعلا اور ریاستی حکام کی چشم پوشی اور فرض کی عدم ادائیگی کے سبب ہوئیں لہٰذا وزیر اعلامودی سمیت تمام نامزدافراد کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کاروائی کی جائے۔جب اس درخواست پر کاروائی نہیں ہوئی تو انہوں نے 28فروری 2007 کوریاستی ہائی کورٹ میں ایک اپیل دائر کرکے استدعا کی کہ جرم میں شریک افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے اور معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کرائی جائے۔ ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان نے تو معاملہ کی سماعت سے ہی منع کردیا ۔ بعد میں جسٹس ایم آر شاہ نے ستمبر 2007 میں ایک ہفتہ سماعت کے بعداوائل نومبر میں تکنیکی اسباب بنیاد درخواست کوخارج کردیا اور کہاکہ شکایت کنندہ کو ذیلی عدالت میں عرضی گزارنی چاہئے۔

اس کے بعد عرضی گزار نے سپریم کورٹ میں ایس پی ایل دائر کی۔سپریم کورٹ نے ان کی درخواست پرسماعت کے دوران ایک مشاہدہ میں گجرات سرکار پرسخت تنقید کی اور عرضی گزار کو بے بس مظلومہ اورگلبرگ خونریزی کو انتہائی دہلا دینے والا افسوسناک اور ہولناک واقعہ قرار دیا ۔عدالت نے معاملہ کی جانچ 27اپریل 2009کو مسٹر راگھون کی سربراہی والی ایس آئی ٹی کے سپرد کردی اور تب سے گزشتہ پیر تک خود جانچ کی پیش رفت کی نگرانی کرتی رہی۔ اس خصوصی جانچ ٹیم (ایس آئی ٹی) نے فسادات میں مودی، ان کے وزیروں اور سرکاری حکام کے رول کی جانچ پڑتال کی جس کےلئے وزیر اعلا مودی سمیت متعدد سیاسی لیڈروں اور انتظامی افسروں اور عام شاہدین کے بیانات قلم بند کئے ۔اسی ٹیم کی کاروائی کے تحت مودی کابینہ کی ایک وزیر مایا بین کوڈیانی کو مستعفی ہونا پڑا جو آج کل جیل میں ہیں۔

تفتیش کی پیش رفت سے سپریم کورٹ کو باخبر رکھنے کےلئے ایس آئی ٹی نے دو عبوری رپورٹیں داخل کیں۔ اگرچہ یہ رپورٹیں ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہیں مگر سمجھا جاتا ہے کہ ان میںدرج شواہد اور اخذ کردہ نتائج میںمطابقت نہ ہونے کی وجہ سے ہی سپریم کورٹ نے ایک سینیر وکیل راجورامچندرن کی خدمات حاصل کیں۔ انہوں نے ریکارڈپر موجود مواد اور اس سے اخذ کردہ نتائج میں عدم مطابقت کی نشاندہی کردی اور خود اپنی ایک رائے بھی رپورٹ کی صورت میں پیش کی ہے۔ لیکن قیاس یہ کیا جارہا ہے کہ مسٹر راگھون اور مسٹر رامچندرن نے جو نتائج اٰخذ کئے ہیں ان میں مطابقت نہیں ہے ۔شواہد کی بنیاد پر مودی سرکار کا رویہ سوالوں کے گھیرے میں بہر حال ہے۔

درایں اثناایس آئی ٹی نے جانچ پوری کرلی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ فائنل رپورٹ متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کی جائے۔ تفتیش اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ مزید نگرانی کی ضرورت نہیں رہی۔تمام ممکنہ شواہد ریکارڈ پر آگئے ہیں جن پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے انصاف کا تقاضا ہے کہ ٹرائل کورٹ (جوڈیشیل مجسٹریٹ ، احمدآباد) دونوں فریقوں کے موقف اور اعتراضات کو سنے اور اس کے بعد یہ طے کرے کہ اصل میں کون کون ملزم ہے اور کس کس کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کیاکاروائی کی جانی چاہئے۔ ہمارے نظام قانون سے ادنیٰ طور پر واقف شخص بھی یہ جانتا ہے اس مرحلہ کی سماعت ٹرائل کورٹ میں ہی ہوتی ہے ،عدالت عالیہ میں نہیں ہوا کرتی۔ سپریم کورٹ نے اپنی نگرانی میں جو اہم اور بنیادی کام تھا وہ بخوبی کرادیا ہے اوروضاحت بھی کردی ہے کہ ایس آئی ٹی کی رپورٹوں کو قانونی درجہ حاصل ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب مزید پولیس تفتیش کی ضروت نہیں ۔ چنانچہ مجسٹریٹ کو اس کی بنیاد پر کاروائی کا اختیار ہوگا۔ یہ معاملہ کیونکہ سپریم کورٹ کی نگاہ میں اچھی طرح آچکا ہے اس لئے اس گمان کی گنجائش بہت کم ہے کہ کوئی مجسٹریٹ جان بوجھ کر مکھی نگلنے کی کوشش کریگا۔ چنانچہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ حکم عدالتی ضابطہ کے تحت قانونی کاروائی کو آگے بڑھائے گا اور اب جو عدالتی کاروائی ہوگی اس میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوکر رہے گا۔ محترمہ ذکیہ جعفری نے جو قانونی کاروائی کی ہے وہ اس فیصلے سے اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے ۔ یہ ان کی شکست نہیں ہے۔

یہ درست ہے اس مرحلہ پر عدالت عالیہ نے مودی اور ان کے کارندوں کو مجرم قرار دیا نہیں دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی درست ہے ان کو ان الزامات سے بری بھی نہیں ٹھہرایا گیاہے جو ذکیہ جعفری نے اپنی پی آئی ایل میں عائد کئے ہیں۔ قانونی نقطہ نظر سے یہ قطعی درست اقدام ہے اور ہم کو اس بات پر بھروسہ رکھنا چاہئے کہ مقدمہ کی پیروی اگر مستعدی سے ہوتی رہی تو دیر یا سویر انصاف اجاگر ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں عوام کو اس مغالطے میں ڈالنے کی کوشش کرنا کہ مودی کو کلین چٹ مل گئی ہے یا ان کے کارندوں کو نجات مل گئی، عوام کو دھوکہ میں ڈالنے کی کوشش ہے اور یہ بات بھاجپا کے کردار کے عین مطابق ہے۔جو جماعت رام کے نام پر عوام کو دھوکہ دے سکتی ہے وہ ہوس اقتدار میں کچھ بھی کرسکتی ہے۔

بی جے پی اس وقت داخلی خلفشار میں گرفتارہے۔ بدعنوانی کے معاملات میں ماخوذ کرناٹک کے وزیر اعلا یدیورپا کے استعفے کے بعد پارٹی نے بدعنوانی کے شدید الزامات میں گھرے ہوئے ایک اوروزیر اعلا نشانک پوکھریال(اترا کھنڈ) کوخاموشی سے چلتا کردیا ہے۔اس کے دو سابق لوک سبھا ممبران نوٹ کے بدلے ووٹ کیس میں جیل میں ہیں۔ کرناٹک کے ایک دولت مند سابق وزیر جناردھن ریڈی اور ان کے بھائی کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے جن کے قبضے سے بڑی مقدار میں کالی دولت نکلنے کی خبر ہے۔ اب تک تو یہ معلوم تھا ریڈی برادران پر محترمہ سشما سوراج بڑی مہربان ہیں، تاہم ملزمان کے لین دین کی جانچ پڑتال میں ایسے اندرجات ملنے کی خبر ہے جن میں ’گڈکری سرکے دوستوں‘ کے ہزار ہا روپیہ کے ہوٹلوں کے بل ادا کئے گئے ہیں۔ ایسے موقع پر جب کہ انا ہزارے کی پراسرار تحریک کے بعد بھاجپا کے اندر یہ قیاس آرائیاں شباب پر ہیں کہ لوک سبھا کے وسط مدتی چناﺅ ہوسکتے ہیں ، مسٹر لال کرشن آڈوانی کا چھٹی رتھ یاتر ا کا اعلان بھی پارٹی کی نئی نسل کی قیادت کو مخمصے میں ڈالے ہوئے ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے مسٹر آڈوانی ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کے لئے بیتاب ہیں تاکہ اگرآئندہ الیکشن کے بعد این ڈی اے کو حکومت بنانے کا موقع مل جائے تووزیر اعظم کے منصب کےلئے 85 سال کی عمر کے باوجود ان کا امکان برقرار رہے۔ اس کے جواب میں بی جے پی کی نئی نسل کی قیادت بلاجواز ہی یہ ڈھنڈورہ پیٹنے میں مصروف ہوگئی ہے کہ سپریم کورٹ کی ضابطہ کی کاروائی مودی کی فتح ہے۔ مقصد اس کا سیاسی یہی ہوسکتا ہے کہ آڈوانی کے مقابلے وزیراعظم کی ریس میں مودی پچھڑنے نہ پائیں۔

سپریم کورٹ کے اس حکم پر بھاجپا کے خوش ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ اس کو ریکارڈ پر موجود شواہد کے بنا پر بجا طور پریہ کھٹکا تھا کہ کہیں سپریم کورٹ کوئی ایسا حکم صادر نہ کردے جس سے مودی کا مجرم ہونا واضح ہوجائے۔ اب اس کو یہ راحت مل گئی ہے کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں جو کاروائی ہوگی اس کا نتیجہ آئندہ سال یوپی، اتراکھنڈ، گجرات ، پنجاب اور منی پور کے اسمبلی انتخابات سے پہلے نہیں آئےگا اور پارٹی انسانیت کش فسادات میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کی خفت سے بچی رہیگی۔رہا مظلومین کو انصاف کا سوال توبیشک گجرات کے فساد اس اعتبار سے انتہائی شدید ہیں ان میںبڑی ڈھٹائی کے ساتھ بھاجپا کی ریاستی اور مرکزی سرکاروں نے انسانی حقوق کی پامالیوں کی سرپرستی کی اور مظلوموں کی دادرسی اس سانحہ کے 9برس بعد بھی نہیں ہوسکی ہے۔ مگر یہ پہلا موقع نہیں کہ جب سرکاری مشینری کی چشم پوشی یا سرگرم معاونت سے فسادات ہوئے اور مظلوموں کی دادرسی نہیں ہوئی۔البتہ اطمینان کی بات یہ ہے اب فسادات اتنے تسلسل کے ساتھ نہیںہورہے ہیں جیسے گزشتہ دہائیوںمیں ہوتے تھے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.