مہاراشٹر کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے ایکنا تھ شندے
حکومت کی تشکیل پر جوفیصلہ سنایا ہے ،وہ بالکل بابری مسجد کی قطعہ اراضی کے
مالکانہ حقوق کے معاملہ جیسا ہے، دیئے گئے،ریاست کے سیاسی بحران پر عدلیہ
کی اگرمگر صاف نظر آرہی ہے ،کیونکہ عدالت عالیہ نے گورنر اور اسپیکرکے رول
پر سخت تنقیدیں کیں،لیکن پھر بھی شندے حکومت برقرار ہے اور بقول شیوسینا
ترجمان سنجے راوت " آپریشن کامیاب ہوا،لیکن موت واقع ہوگئی۔"یہاں سابق وزیر
اعلی ادھو ٹھاکرے کے استعفیٰ کو جواز بنا دیا ہے۔ویسے ایک بات تو واضح ہے
کہ اس فیصلہ شندے۔ فرنویس حکومت اخلاقی دباؤ ہے،پھر بھی سپریم کورٹ کا
فیصلہ مہاراشٹر میں این ڈی اے حکومت کو "آئینی چادر" فراہم کرتا ہے۔یہ جواز
مشہور وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے کہی ہے ۔دراصل سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعرات
کو اپنے فیصلے میں، درخواست گزاروں کی طرف سے کی گئی سات اپیلوں میں سے
پانچ کو مسترد کر دیا اور صرف دو کوسماعت کے لیے منظور کیا۔
راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ اور سینئر وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے یہ بھی کہا
کہ شیوسینا کے 16 ایم ایل ایز کی نااہلی سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے
فیصلے نے ریاست میں بی جے پی-ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیوسینا حکومت کو
"آئینی لباس" فراہم کیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کانگریس اور اس کے
مہاراشٹر کے اتحادی جب اخلاقی جیت کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہ ’’بھوسے پر جکڑے
ہوئے ہیں‘‘۔
خواہ وہ کسی دباؤ میں آئے یا نہ آئے۔ اس صورتحال میں ریاست میں کیا ہوسکتا
ہے اس پر اگر غور کریں تو یہ باتیں سامنے آئیں گی کہ اسمبلی کے اسپیکر راہل
نارویکر سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ایکنا تھ شندے سمیت ۱۶ ،اراکین
اسمبلی کی نا اہلی کا فیصلہ کریں۔ یہ فیصلہ اسپیکر کو بھی مخمصے میں ڈالنے
والا ہوگا، کیو نکہ راہل نارو یکر بی جے پی لیڈر ہیں۔ اگر وہ ۱۶ اراکین کو
معطل کرتے ہیں جن میں وزیر اعلیٰ بھی شامل ہیں تو ریاست میں ایک اور آئینی
بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی موجودہ حکومت پر خطرات کے بادل منڈلانے
لگیں گے ۔ اگر وہ انہیں معطل نہیں کرتے ہیں توممکن ہے کہ ادھو گروپ دوبارہ
سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا، ادھو ٹھا کرے نے یہ ارادہ ظاہر بھی کردیا ہے۔
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اخلاقی دباؤ میں آنے کے بعد شندے خود ہی استعفیٰ
دے دیں ۔ کچھ عرصہ پہلے بی جے پی کے ذریعے ان سے جان چھڑانے کی بات سامنے
آرہی تھی ،اس لیے ممکن ہے ،بی جے پی بھی یہی چاہے کہ وہ کورٹ کے فیصلے کے
بعد مہاراشٹر حکومت اور بی جے پی کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کو کچھ کم
کرے۔ شندے کے معاملہ میں بی جے پی کی حد سے زیادہ بے عزتی ہوئی ہے اور کسی
معمولی لغزش کے انتظار میں ہے۔
ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کرناٹک میں متوقع شکست کے بعد بی جے پی خود
ہی شندے حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے اور کانگریس کی کرناٹک میں شاندار
جیت کے بعد کانگریس ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کے حوصلہ بلند ہیں اور اس لیے
شندے حکومت کی حمایت کی وجہ سے پیدا ہونے والے منفی تاثر کو کم کر نے کے
لیے وہ مہاراشٹر میں سیاسی چال چل دے۔
مرکز میں بی جے پی حکومت ہوتے ہوئے شندے کے اخلاقی بنیاد پر پیدا ہوئے دباؤ
میں اقتدار سے ہٹنے کے بعد مہاراشٹر میں صدر راج نافذ کر دیا جائے اور پھر
۶ ماہ یا سال میں دوبارہ الیکشن کروالئے جائیں ۔ویسے بھی اب صرف سواسال کا
عرصہ ہی بچا ہے،اس سے بی جے پی کو نقصان کم ہونے کا امکان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شیوسینا میں شندے کی بغاوت کے بعد ادھو ٹھا کرے کی عوامی
حمایت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور سپریم کورٹ سے انہیں مظلوم قرار دیئے
جانے کے بعد تو ان کے حامیوں کی تعداد پوری ریاست میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
جوکہ ان کے حق میں ہے۔ادھو کو ملنے والی حمایت سے مہاوکاس اگھاڑی کو ہی
فائدہ ہوگا۔ سپریم کورٹ نے یکسر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ اگر ادھو ٹھا
کرے نے استعفیٰ نہ دیا ہوتا تو اس وقت ان کی حکومت بحال ہو سکتی تھی۔گزشتہ
سال جون میں جب ایکنا تھ شندے نے شیوسینا سے بغاوت کر کے ادھو ٹھاکرے کی
حکومت گرادی اور ریاست میں آئینی بحران پیدا ہوا تو ادھوٹھا کرے نے جلد
بازی میں استعفیٰ دے دیا تھا حالانکہ اس وقت شرد پوار نے انہیں مشورہ دیا
تھا کہ وہ ایوان کا سامنا کریں ، استعفیٰ نہ دیں لیکن ادھو ٹھا کرے نے
استعفیٰ دیدیا اور ان کی حکومت آزمائش سے پہلے ہی برطرف ہوگئی۔ جمعرات کو
اس معاملے میں عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے اس کے بعد ہر طرف شرد پوار کی
کہی ہوئی وہ بات ہی زیر بحث ہے لیکن ادھو ٹھاکرے کے استعفیٰ دینے کے عمل نے
ان کے سیاسی قد بڑھادیا ہے۔البتہ کوئی فیصلہ لینے سے پہلے ادھو ٹھاکرے کو
اپنی حلیف پارٹیوں کو اعتماد میں لینا تھا۔آخر میں سپریم کورٹ سے معذرت کے
ساتھ صرف یہی کہنا ہے کہ بینچ کے مطابق گورنر اور اسپیکر دونوں نے انہیں
حاصل دستوری حقوق کا غلط وبے جا استعمال کیا تو پھر شندے حکومت کو اخلاقی
چھوڑیں ،دستوری طورپر بھی ایک لمحہ اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ،
کیونکہ عدالت نے اسے واضح طور پر غیر آئینی قرار دیا ہے۔
بقول سنجے راوت عدالت کی نگاہ ہر ایک واقعے پر ہے اور اسمبلی اسپیکر
مہاراشٹر میں بابا صاحب امبیڈ کر کے آئین کا قتل نہیں کر سکتے،اب اسپیکر کا
فیصلہ ہی غیر آئینی ہے ، بلکہ۔حکومت تشکیل دینے کاہر ایک اقدام ہی غیر
آئینی ہے تو اگر مگر کی ضرورت ہی نہیں ہے۔اس اگر مگر نے انہیں ایک حد تک
بچا لیا ہے۔
|