علاقوں کے مسائل

مجھے کچہری میں کچھ کام تھا۔ متعلقہ تحصیلدار سے بات ہوئی تو اس نے تین بجے آنے کا کہا ۔ ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ بھائی اتنی دیر سے کیوں آتے ہیں۔ کہنے لگا۔ صبح سات بچے سے عملے کے ساتھ ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لئے نکلا ہوا تھا۔ہفتے کے پہلر چار دن اسی کام کی نظر ہو جاتے ہیں۔ مگر کیا کریں ۔ دس ناجائز قبضے ختم کرتے ہیں تواگلے دن پندرہ مزید ہو چکی ہوتی ہیں۔ کوئی سخت قانون ہو جس کے مطابق قبضہ کرنے والے کو سزا بھی ملے تو شاید اس میں کچھ کمی آئے ورنہ ہمیں تو اسی طرح زندگی گزارنی ہے۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ صحیح کہتے ہو۔ یہاں جس کا داؤ لگتا ہے وہ سرکاری زمین ہڑپ کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔سوچتا ہوں کہ اس دور میں کوئی حکومت ہے کہ نہیں۔ مگر عملاً کوئی نظر تو نہیں آتی ، ہاں یہ ضرور ہے کہ جن کے پاس لاٹھی ہے وہ ہر چیز کو دھکیل لیتے ہیں۔ بھینس کیا ، اونٹ بھی ان کی دسترس میں آجائے تو وہ بھی انہی کا ہوتا ہے۔میں نے اسے کہا کہ کبھی کسی کو میرے رہائشی علاقے میں بھی بھیج دو۔

میں لاہور میں رائے ونڈ روڈ کے جس علاقے میں رہتا ہوں ، وہاں سرکاری راستے کو مختصر کر دینا اور اس کا ایک بڑا حصہ اپنی زمین میں شامل کر لینا بڑی معمولی بات ہے۔کبھی کسی نے انہیں نہیں پوچھا۔راستے پر دکانداری سجا لینا اور بسیں سارا سارا دن پارک کرنا ، لوگوں کے لئے راستہ رہے یا نہ رہے۔سارے لوگ با اثر ہیں، کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔کوئی زمانہ تھا کہ اخبار میں ایسی کوئی خبر آتی تو علاقے کے اسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر پوری طرح متحرک ہو جاتے اور جب تک لوگوں کی شکایت رفع نہ ہو جاتی ، ان با اثر لوگوں کے خلاف کاروائی ختم نہیں ہوتی تھی۔اب بس وہ دائیں کان سے سنتے اور بائیں سے شکایت کو باہر نکال دیتے ہیں، ھالات ایسے ہیں کہ خود کو مشکل میں کیوں ڈالیں۔سیاسی دور ہے اور ہمارے سیاسی رہنما ووٹ کے چکر میں ہر آدمی ،چاہے وہ صحیح ہو یا غلط، کی بات سنتے اور اس کے ساتھ چل پڑتے ہیں ۔

جس سوسائٹی میں میرا گھر ہے ، رائے ونڈ روڈ سے ایک سڑک اس سوسائٹی تک آتی ہے۔اس سڑک کی ابتدا پر ایک کھلا مین ہول ہے ۔ عام آدمی کو اس میں گرنے سے بچانے کی سعی میں وہاں کے دکانداروں نے اس کے ارد گرد ایک پہاڑی سی بنائی ہوئی ہے ۔ اس پہاڑی کا ایک تو لوگوں کو فائدہ ہے کہ گٹر میں گرنے سے بچ جاتے ہیں، دوسرا ایک موٹر سائیکل مکینک نے وہیں ایک الماری نما دکان لی ہوئی ہے۔ اس مکینک کو سہولت ہو گئی ہے کہ کہ وہ فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ اور اس گٹر کے درمیان اپنی دکان سجا لیتا ہے۔ کسی نے اس سے یہ کبھی نہیں پوچھا کہ بھائی یہ کام جو تمہیں دکان کے اندر کرنا چائیے، فٹ پاتھ اور سڑک پر کیوں کر رہے ہو۔ دن میں ایک دو بار کوئی نہ کوئی اس چھوٹی سی پہاڑی سے ٹکرا جاتا ہے تو اسے وہ دکاندار باقاعدہ گھورتا ہے کہ یہ پہاڑی اسی لئے بنائی ہے کہ آپ کو دور سے پتا چل جائے ، آپ نے پرواہ ہی نہیں کی ۔ بہر حال آئندہ احتیاط کریں ۔ واقعی مشورہ تو بڑے کام کا ہوتا ہے وہ آدمی جو اس پہاڑی سے ٹکراتا ہے ، کچھ زخمی زخمی اور شرمندہ اپنی راہ لیتا ہے۔ رہی حکومت تو وہ ہمیشہ کسی حادثے کی منتظر ہوتی ہے کہ ہو جائے تو پھر اس کی ساری مشینری حرکت میں آئے۔اس گٹر سے آگے ایک گوشت کی دکان اور ایک ہوٹل ہے۔ صبح کو دونوں پر کافی رش ہوتا ہے اور پارکنگ ساری سڑک پر ہوتی ہے۔ سامنے کچھ کھوکھے سڑک کی حدود سے ہٹ کر بنے ہیں مگر دو تین رہڑی بان ان کھوکھوں سے آگے سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ گزرنے کا راستہ نہیں بچتا تو کیا ہوا۔ وہ گائیڈ کی طرح کھڑے ہو کر کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی گاڑی نکل جائے مگر ان کی رہڑی وہاں سے نہیں ہل سکتی۔ کسی کو راستہ دینے کا کہہ دیں تو ڈر لگتا ہے کہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔

اس سڑک پر دو تین بلڈنگ مٹیریل سٹور ہیں۔ ان کی ریت ، بجری اور دیگر چیزیں ہمیشہ سڑک کی زینت ہوتی ہیں ۔پہلے دن جب کوئی ٹرک آتا ہے تو قدرے جثہ آدھی سڑک اس کی ۔پھر وہ مال بکنا شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ ڈھیر سمٹنا شروع ہو جاتا ہے مگر آدھے سے کم ہونے پر اک نیا ٹرک پھر سڑک کو گھیر لیتا ہے۔ایک بس والوں کا وہاں بس سٹیشن بھی اسی سڑک پر واقع ہے ۔بسیں اپنے اھاطے میں تو شاید شام کو جاتی ہیں مگر سارا دن اسی سڑک پر استراحت فرما رہی ہوتی ہیں۔ کبھی سڑک کے ایک طرف اور کبھی دونوں طرف۔ دونوں طرف زیادہ ڈیرہ ہوتا ہے اور گزرنے کے لئے آمنے سامنے آنے والوں کو ایک دوسرے کو جگہ دینا پڑتی ہے کیونکہ جگہ اتنی کم ہوتی ہے کہ دو گاڑیاں ایک وقت میں نہیں گزر سکتی۔ایک چھوٹا سا موڑ آتا ہے اور اس موڑ سے پہلے دو پلاٹ اور پھر قبرستان ہے۔ قبرستان سے پہلے والے دونوں پلاٹ والوں نے اپنے پورے پلاٹ کے آگے پندرہ فٹ جگہ سڑک کی ڈال لی ہے۔ قبرستان کی دیوار آگے نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ڈاکہ بڑا نمایاں ہے ،صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ زمین ڈالی گئی ہے مگر کوئی حکومت ہو تو پوچھے۔ ایک دو لوگوں نے اپنے گیٹ تین فٹ آگے بڑھا کر نئی جگہ لگا لئے ہیں۔ تین چار سو فٹ دیوار گرانا ذرا مہنگا کام ہے مگر ابتدائی پیش رفت تو ہو چکی کسی وقت اگر کسی نے نہ پوچھا تو باقی کام بھی ہو جائے گا۔

ہماری مین سڑک کے متوازی دائیں طرف کے پلاٹوں کے پیچھے ایک دس بارہ فٹ کا راستہ ہے۔ یہ راستہ سیدھا سفاری پارک کو جا ملتا تھا۔اس راستے کے ساتھ نہر سے پانی آنے کا ایک چھوٹا راستہ بھی تھا۔ نہر کا پانی بند ہو چکا اب وہ دس بارا فٹ مکمل راستہ ہی ہے۔ وہ راستہ ایک جگہ پہنچ کر بند ہو جاتا ہے۔ اب یہ آگے تک نہیں جاتا کیونکہ ایک لمبی پٹی پر قبضہ ہو چکا۔ کچھ مکینوں نے وہ راستہ اپنے پلاٹوں میں شامل کر لیا ہے۔ وہاں دو تین ہمسایوں نے ایک دوسرے پر دعویٰ کیا ہوا ہے کہ میرے ہمسایوںٍ نے سرکاری جگہ کو اپنے پلاٹ میں شامل کر لیا ہے۔ مگر مجرم سارے ہیں کیونکہ سب نے یہ حرکت کی ہوئی ہے۔آپس میں ملتے ہیں تو ہنستے ہیں مگر کوئی محلے دار کہے تو کیس کا بہانہ کرکے قبضہ برقرار رکھتے ہیں۔ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اس لئے انہیں ڈر کس کا۔

سوچتا ہوں کہ ہمارے علاقے میں بھی اگر کسی ذمہ دار شخص کو خیال آ جائے تو ایک مکمل دن کا کام ہے ۔ حکومتی اراضی پر حکومتی رٹ قائم کرنا اور سرکاری راستے پر ہونے والی دکانداری اور غیر ضروری پارکنگ کا خاتمہ۔ ہم سب وہاں کے مکین چیخ چیخ کر بارہا ر ہر حلقے میں لکھ کر دے چکے ہیں مگر کوئی علمدرامد نہیں ہوتا۔ کاش کسی کو اس علاقے کا بھی خیال آ جائے۔مگر یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں ہر علاقے کا ہے اور اسے حل کرنے میں کئی مصلحتیں حائل ہوتی ہیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500312 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More