قومیت ،علاقائیت اور تعصبیت کا ناسور

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جڑوں کو جہاں فرقہ واریت ،دہشت گردی ،بدامنی ،کرپشن ،ڈکٹیٹر شپ نے تباہ کیا وہاں کلمہ کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک کو لسانیت ،علاقائیت اور تعصب نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔سب سے پہلے کراچی میں مہاجرقومی موومنٹ ،بعدازاں پنجابی ،پختون اتحاد ، خیبر پختونخوا میں پختون عوامی پارٹی وجود میں آئی اب آپ کو شہروں میں قومیت اور علاقائیت کے نام پر سیاسی ،طلباء اور دیگر تنظیمیں نظر آئیں گی۔بلوچ اتحاد ،خٹک ویلفیئر ایسوسی ایشن ،راجپوت ،محسود ،وزیر ،سدوزئی ،گنڈہ پور ،سرائیکی،بنوچی ،مروت،اعوان غرض قوم اور زبانوں کے نام پر ہم نے اپنی الگ الگ پہچان بنانی شروع کردی ہے۔ہم نے آج لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر حق دار کا حق مار کر اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔حالانکہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اگر کسی نے لسانیت کی بنیاد پر ناجائز طور پر کسی کی طرفداری یا حمایت کی تو ایسا شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جبکہ ہمارے پیارے نبی ؐ نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر ،عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں لیکن آج سیاسیوں کے ساتھ مذہبی جماعتوں کے سربراہان بھی لسانیت اور علاقائیت کے زہر میں رچے بسے ہوئے ہیں۔ان کا دامن بھی اس گناہ عظیم سے پاک نہیں۔جب سے ایم کیو ایم کے نام سے تنظیم بنی۔کراچی میں جتنا قتل عام ہوا وہ اس مکروہ فعل کی واضح مثال ہے۔پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت اے این پی سخت تعصب اور قومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبہ میں موجود نان پشتوبولنے والے علاقوں جن میں ہزارہ اور ڈیرہ اسماعیل خان قابل ذکر ہیں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک اپنے دور حکومت میں کرتی رہی ہے۔پی پی پی والے ہروقت سندھ کارڈ اور مسلم لیگ والے پنجاب کارڈ کو استعمال کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔خیبر پختون خوا ہ میں پشتو بولنے والے صاحبان تمام نان پشتوبولنے والوں کو ’’داپنجابیان دا‘‘کہہ کر پکارتے ہیں۔اسی طرح تقسیم پاکستان کے بعد آنے والے مسلمانون کو جو ہندوستان سے اپنا گھر بار ،املاک چھوڑ کر آئے تاحال مہاجر کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ان کی اولاد جن کی پیدائش یہاں پر ہوئی انہیں بھی مہاجرکہہ کر پکارا جاتا ہے۔اگر ہم زبان ،رنگ ونسل اور علاقائیت کی بنیاد پر وجود میں آنے والی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی دیکھیں تو انہوں نے عوام کو قتل وغارت ،ڈرون حملوں ،بدامنی ،بھتہ خوری ،کرپشن ،دہشت گردی اور بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔ایک موقع پر حضورؐکے زمانے میں انصار اور مہاجر اکھٹے تھے دونوں میں بحث ہورہی تھی انصار کہہ رہے تھے کہ کہاں ہیں میرے انصار بھائی۔اسی طرح مہاجرین کہنے لگے کہ کہاں ہیں ہمارے مہاجرین بھائی۔قریب تھا کہ دونوں میں جھگڑا شروع ہوجاتا ،بات حضور اکرم ؐ تک پہنچی۔آپ ؐ نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے اندرابھی تک زمانہ جاہلیت کی باتیں کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد بھی موجود ہیں۔ہمارا حال بھی تقریباًیکساں ہے۔ہم نے کلمہ کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا لیکن ا ﷲ تعالی کی حاکمیت اور حضور ؐکی زندگی پر عمل کرنے کی بجائے ہم قوموں ،نسلوں اور زبانوں کی بنیاد پر تقسیم ہوگئے۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہوافغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو؟
اگر ہم اس شعر کو یوں پڑھیں کہ

یوں تو سندھ بھی ہو پنجابی بھی ہو بلوچی اور پٹھان بھی ہو۔ تم سب ہی کچھ تو ہو بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو؟
آج مملکت پاکستان کو جتنی ہم آہنگی ،مذہبی رواداری ،اتحاد ،یگانگت ،بھائی چارہ اور اخوت کی ضرورت ہے اتنی شاید کبھی نہ ہو۔آج اگر ہر کوئی اپنی اپنی بولی بولتا رہا اور مذہبی منافرت ،لسانیت ،فرقہ واریت ،علاقیت کے پرچار میں لگا رہا تو خدانہ کر ے ہمارا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔آج ہمارے دشمن ہمارے ہمدر دوں کے بھیس میں ملک میں دندناتے پھررہے ہیں ان کے میزبان ہمارے ہی حکمران ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف مال بناؤ مہم ہے۔وہ نہ صرف ملکی خزانے کو برباد کرنے میں مصروف ہیں بلکہ وہ ہمارے نظریہ کو بھی دفن کرنے کے درپے ہیں۔انہوں نے کاسہ لیسی ،خوشامد اور بے غیرتی کی تمام حدوں کو کراس کرلیاہے لیکن اس کے ذمہ دار بھی ہم عوام ہیں کیونکہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بدترین لوگ تمہارے حکمران ہوں گے اور لوگ برے ،شرپسند اور بدکار لوگوں کی عزت ان کے شر سے بچنے کے لئے کریں گے۔آخر ہم نے ہی تو انہیں اپنا حکمران بنایا ،جیسی روح ویسے فرشتے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک کو آج لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازش میں ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ غیر بھی برابر کے شریک ہیں۔وہ Dived&Rule کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہمارا نام ونشان مٹانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن ہمیں کب عقل آئے گی ؟آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لسانیت ،قومیت ،علاقائیت سے بچنے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کا واحد حل اﷲ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور پیارے نبی ؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ہمارے نبی ؐنے ہمیں مساوات ،صلح رحمی ،عفو ودرگزر ،اخلاقات ،بھائی چارہ ،اخوت ،محبت اور امن کا درس دیا ہے۔آپ نے جب انصاف کی بات آئی تو کافر اور مسلمان کی تمیز نہ کی۔جبکہ صلح رحمی کے وقت تو بڑے بڑے دشمن کو بھی معاف کیا۔قیامت تک آنے والی انسانیت کو امن کا درس دیا۔وہ یہودی کا جنازہ دیکھ کر افسردہ ہوجاتے تھے کہ کاش اگر یہ کلمہ پڑھ لیتا اور ایمان لے آتا تو جہنم کی آگ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچ جاتا۔آج ہمارے نوے فیصد لوگ نمازی نہیں پڑتے ہیں ہم سود کے کاروبار میں ملوث ہیں۔اپنی خواتین کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دیتے۔دوسرے کا مال مارنے کے درپے رہتے ہیں۔زکواۃادا نہیں کرتے ،حج فرض ہے وہ ادا نہیں کرتے۔شرک بدعت جیسے ناقابل معافی گناہوں میں مصروف ہیں لیکن ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔جب تک مسلمان کلمہ کی دعوت کو لے کر دنیا بھر میں اجتماعی طور پر پھرتے رہے وہ لسانیت ،قومیت اور مذکورہ گناہوں سے بچے رہے ان کا دین بھی پھیلتا رہا لیکن جب سے ہم نے اجتماعی طور پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسے اہم فریضہ کو نہ صرف چھوڑا بلکہ ہم اس کو کوئی ہی کام ہیں نہیں سمجھتے۔ہم دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں (حالانکہ دنیا کے ہر مذہب کا پیروکار اپنے دین کی تبلیغ میں مصروف ہے )۔آج مسلمان اپنی گناہوں والی زندگی کے باعث دوسروں کو اسلام میں داخل ہونے میں روکاوٹ ہے۔آج ہمیں عمل والی زندگی چاہئے اور جس مقصد کے لئے ہمیں پید ا کیاگیا یعنی دعوت تبلیغ کے کام کو ذمہ داری سمجھ کرنا ہوگا۔آج اﷲ کے فضل وکرم سے ہر رنگ ونسل ،قوم وزبان کے لوگ کروڑوں کی تعداد میں اس کام سے منسلک ہیں لیکن کئی کئی ماہ اکٹھے گزارنے کے باوجود ان میں ایسا بھائی چارہ محبت اور اخوت ہوتی ہے جو آج کل کے دور میں ناپید ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ قیامت تک کسی نبی نے نہیں آنا۔اب امت کی اصلاح کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔علماء کے مطابق جو امتی اپنے اس اہم فریضہ کو سرانجام نہیں دے رہا وہ گویا اس انتظارمیں ہے کہ کوئی اور نبی آکر اس کام کو سرانجام دے گا۔میرے مسلمان بھائیو آج دنیا کی 8 ارب کی آبادی میں سے روزانہ اڑھائی لاکھ مررہے ہیں جن میں سے دو لاکھ کافر ہوتے ہیں۔کل قیامت میں اگر ان کافروں نے ہمارا گریبان پکڑ کر سوال کرلیا کہ آپ کے پاس کلمہ جیسی نعمت تھی آپ نے ہمیں دعوت اسلام کیوں نہی دی۔ہم کیا جواب دیں گے۔آج کے دور میں اس کام کی برکت سے ہمارے مدارس ،مساجد ،خانقاہیں آباد ہورہی ہیں۔اس کام کے کرنے والے کچھ لوگوں سے تو اختلاف کیا جاسکتا ہے کیونکہ اچھے برے ہر قسم کے لوگ ہر کام کی طرح اس کام میں بھی ہیں لیکن نبیوں کے اس کام سے اختلاف رکھنے والا کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ا گر ہم نے لسانیت اور قومیت کے ناسورسے نکلنا ہے تو اس کا واحد عمل امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔امام شافعی نے کیا خوب کہا ہے کہ سورۃ و العصر ہی اگر صرف نازل ہوتی توہ بھی قرآن پاک کے مکمل مفہوم کو بتانے کے لئے کافی تھی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ زمانہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تمام لوگ خسارہ میں ہیں مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور لوگوں کو نیکیوں کی تلقین کرتے رہے صبر کے ساتھ۔آج کیونکہ ہمارے اندر سے یہ کام نکلا توہما ایمان کمزور ہوا ،ہم خسارے میں پڑ گئے بعدازاں ہم لسانیت اور قومیت جیسے مکروہ فعل میں پڑ کر دنیا وآخرت سے نہ صرف غافل ہوئے بلکہ ہم نے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کردیا۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری

Sohail Azmi
About the Author: Sohail Azmi Read More Articles by Sohail Azmi: 183 Articles with 157535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.