یورپی یونین کی جانب سے فلسطین پر اسرائیل کے یکطرفہ اقدامات روکنے پر زور

 فلسطینیوں پر اسرائیل کی ظلم و بربریت روکنے کے لئے یورپی یونین نے اسرائیل پر زور دیاکہ وہ فلسطین پر یکطرفہ اقدامات کرنے سے گریز کریں۔ فلسطین پر غاصب اسرائیل کسی نہ کسی بہانے پرتشدد کارروائیاں انجام دیتا رہا ہے اور پھران ہی مظلوم فلسطینیوں کو موردِالزام ٹھہراکر انہیں حراست میں لے لیا جاتاہے جہاں ان پر سخت مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ معصوم و بے قصور فلسطینیوں پر اسرائیل کی ظلم و بربریت سے کون واقف نہیں ہے ۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر کسی بھی قسم کی کارروائی دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی ظالمانہ کارروائیوں کے بعد عالمی سطح پر صرف مذمتی بیانات سنائی اور دکھائی دیتے ہیں۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یورپی یونین کی جانب سے دیکھنے میں آئی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی یونین کے پالیسی چیف جوزف بوریل نے اسرائیل پر زور دیا ہیکہ وہ ’’یکطرفہ اقدامت ‘‘ روکے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے فلسطین میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے فلسطین میں پرتشدد واقعات کی نئی لہر کے بعدمنگل2؍ مئی کو جوزف بوریل اور اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کے درمیان برسلز میں ملاقات ہوئی۔واضح رہے کہ فلسطینی اسلامک جہاد کے 45سالہ معروف رہنماء خضر عدنان کی منگل2؍ مئی کواسرائیلی جیل میں تقریباً تین مہینے تک حراست کے دوران بھوک ہڑتال کرنے کے بعد موت واقع ہو گئی ۔امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق خضر عدنان نے اسرائیل کی جانب سے کسی قانونی کارروائی کے بغیر فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو جیلوں میں قید کرنے کے خلاف احتجاجاً انفرادی طور پر بھوک ہڑتال کرنے کا رجحان متعارف کروایا تھا۔خضر عدنان کی موت کی خبر عام ہوتے ہی فلسطینیوں میں شدید غم و غصہ کی لہر پھیل گئی ۔ احتجاج کے طور پرفلسطینی جنگجوؤں نے غزہ کی جانب سے اسرائیل کی طرف راکٹ فائر کئے جبکہ اسرائیلی ٹینکوں نے خضر عدنان کے انتقال کے چند گھنٹے بعد فلسطینی علاقوں کو نشانہ بنایا۔اسرائیل کی اس کارروائی کے خلاف جوزف بوریل نے یورپی یونین کی جانب سے ایک بار پھر اسرائیلی حکام سے کہا کہ وہ یکطرفہ اقدامات سے گریز کریں کیونکہ اس سے تشدد کی اس لہر میں اضافہ ہو سکتا ہے جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے جبکہ ایسے اقدامات سے مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان قیام امن کیلئے ہونے والی کوششوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔اس ملاقات کے بعد بتایا گیا ہیکہ اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے حالیہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کے حوالے سے کیے جانے والا وعدہ پورا کرے۔جوزف بوریل نے کوہن سے کہا کہ یورپی یونین اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط اور گہرا کرنا چاہتی ہے اور انہیں امید ہے کہ اسی سال یورپی یونین کے حکام اور اسرائیل ایسوسی ایشن کونسل کے درمیان ملاقات ہو گی۔انہوں نے اسرائیلی وزیر خارجہ پر زور دیا کہ وہ سعودی عرب، لیگ آف عرب ا سٹیٹس اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ یورپی یونین کے کام کے حوالے سے ’بات چیت‘ کریں اور امن کیلئے ہونے والی کوششوں کو بحال کریں۔ اسرائیل یہ نہیں چاہتا کہ فلسطینی عوام چین و سکون سے زندگی گزارے اور فلسطین اور سرائیل کا دوریاستی مسئلہ حل ہوجائے ، ہمیشہ سے اسرائیل کسی نہ کسی بہانے ہر چند روز یا ماہ بعد فلسطینیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرکے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی مقصد کے تحت اپنی ظالمانہ کارروائیوں کو سرانجام دیتا ہے۔

ایران اور شام کے صدور کی ملاقات!
ایران اور شام کے درمیان تعلقات جنب کے دوران بہتر سے بہتر رہے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کو بچائے رکھنے میں ایران کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ اسکے باوجود 2010کے بعد ایرانی صدر کا یہ پہلا دورہ ہے تاہم بتایا جاتا ہیکہ صدر شام بشارالاسد نے جنگ کے دوران ایران کے دو دورے کئے تھے ایران کے صدر ابراہیم رئیسیچہارشنبہ کی شام دارالحکومت دمشق پہنچ گئے ، دمشق ایئرپورٹ پر صدرایران کا استقبال شامی وزیر معیشت سمیر الخلیل نے کیا۔صدر کے ہمراہ اعلیٰ سیاسی و کاروباری شخصیات بھی موجود ہیں۔ مارچ 2011 میں بغاوت کے ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کے دوران ایران صدر بشارالاسد کی حکومت کا حامی رہا ہے اور صورتحال کو ان کے حق میں کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیاہے۔ایران نے بے شمار فوجی مشیر اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے حمایت یافتہ جنگجو ؤں کومشرق وسطیٰ سے شام بھجوائے تاکہ وہ بشارالاسد کی جانب سے لڑیں۔بتایاجاتا ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران شامی حکومت ایران اور روس کی مدد سے ملک کے زیادہ تر حصے کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب رہی ہے۔شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق دو روزہ دورے کے دوران ابراہیم رئیسی اور بشارالاسد کے درمیان ملاقات اوردونوں ممالک کے درمیان روابط کو بڑھانے کے کئی بڑے معاہدوں پر بھی دستخط کیے جائیں گے۔عرب ٹی وی چینل المیادین کو انٹرویو دیتے ہوئے ابراہیم رئیسی نے تعمیر نو اور جنگ کی وجہ سے ملک چھوڑنے والوں کی واپسی پر زور دیا۔یہاں یہ بات واضح رہیکہ ایرانی صدر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہورہا ہے جبکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کے کھولنے کا معاہدہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بعض عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے شام کے دورے کئے ہیں۔ شام میں مظاہرین کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد عرب حکومتوں کی جانب سے بشارالاسد حکومت کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور تعلقات میں خرابی کا نتیجہ شام کے 2011 میں عرب لیگ سے انخلا ء کی صورت میں سامنے آیا تھا۔لڑائی شروع ہونے سے لے کر اب تک کم از کم پانچ لاکھ افراد ہلاک اور لاکھوں افرادبے گھر ہوئے ہیں۔ جنگ سے قبل شام کی آبادی دو کروڑ 30 لاکھ تھی۔شام میں ایرانی فوج کی موجودگی اسرائیل کیلئے تشویش کا باعث رہی ہے۔اسرائیل نے حالیہ برسوں کے دوران شامی حکومت کے زیر کنٹرول حصوں پر سینکڑوں بار حملے کئے تاہم اسکی ذمہ داری شاذو نادر ہی اس نے قبول کی۔2023 کے آغاز سے شامی حکام نے درجنوں کارروائیوں کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا ہے جن میں منگل کے روز کا وہ تازہ ترین حملہ بھی شامل ہے جو شمالی شہر حلب کے بین الاقوامی ائیرپورٹ پر کیا گیا جس کے بعد اس کو بند کر دیا گیا تھا۔ اب دیکھنا ہیکہ ایرانی صدر کی شام آمد کے بعد اسرائیل کس قسم کا ردّعمل کا اظہار کرتا ہے۔

پاکستانی پارلیمنٹ کے سامنے سپریم کورٹ کی اہمیت داؤ پر
ایسا محسوس ہوتا ہیکہ حکمراں پاکستانی پارلیمانی قائدین سپریم کورٹ کی اہمیت کو جتنا ممکن ہوسکے گھٹانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف حکمراں اتحاد کی جماعتوں کی جانب سے نازیبا الفاظ اور انکے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانا یہ پاکستان اسلامی جمہوریہ کے نام پر دھبہ دکھائی دے رہا ہے۔ذرائع ابلاغ پاکستان آن لائن کے مطابق پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وہ زمانہ چلا گیا جب وزیر اعظم کی ’’بلی‘‘ دی جاتی تھی لیکن اب پارلیمنٹ اپنے وزیر اعظم کو ’’بلی‘‘ نہیں چڑھائے گی۔پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم نے آمروں کا ساتھ دیا اور اس کی قیمت بھی ادا کی انہوں نے کیا کہ لیکن کیا کبھی عدلیہ نے آمروں کا ساتھ دینے کی قیمت ادا کی ہے ؟انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی کارروائی کی فوٹیج مانگی ہے ،ا سپیکر صاحب کو چاہیے کہ وہ بھی عدالتی کارروائی کی فوٹیج طلب کرلیں۔وزیر موصوف نے کہا کہ ہماری تنخواہ ایک لاکھ 68 ہزار روپے ہے ، ججز سے بھی پوچھا جائے کہ ان کی تنخواہ کتنی ہے، جب کوئی جج باہر نکلتا ہے تو سڑکیں بلاک کردی جاتی ہیں جبکہ وزراء کے باہر نکلنے پر ایسا کچھ نہیں کیا جاتا، اب بھی اس طبقے کے لوگ ایک کروڑ 20 لاکھ رپے رشوت لیتے پھر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔خواجہ آصف کاکہنا تھا کہ عمران خان کی سہولت کاری کی جارہی ہے، پارلیمنٹ کو اس سہولت کاری کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی کارروائی کی تفصیلات فراہم کرنے کا کہہ سکتی ہے لیکن پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کی کارروائی کا فوٹیج طلب کریں۔ اب دیکھنا ہیکہ خواجہ آصف کی اس تقریر پر سپریم کا کس قسم کا ردّعمل کا اظہار کرتی ہے اور انکے خلاف کس قسم کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ موجودہ حکمراں اتحاد سپریم کورٹ کی حیثیت یا ججس خصوصاً چیف جسٹس کو خاطر میں نہ لارہا ہے اورانکے فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اسطرح پاکستان میں موجودہ حکومت سپریم کورٹ اور معزز ججس کے وقار کو پامال کررہی ہے۔

ترک فورسز کی کارروائی میں داعش سربراہ کی ہلاکت۔رجب طیب اردغان
ترکیہ کے صدر طیب اردغان نے شام میں ترک افواج کی کارروائی میں کالعدم تنظیم داعش کے سربراہ کے ہلاک ہونے کا اعلان کیا ہے۔ذرائع ابلاغ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صدر رجب طیب اردغان نے سرکاری ٹیلی ویژن ٹی آر ٹی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہہفتہ کو ترکیہ کی فوج نے ایک حملے میں داعش کے سربراہ ابو حسین القریشی کو ہلاک کر دیا ہے۔صدر اردغان نے بتایا کہ ترک انٹیلی جنس ایم آئی ٹی بہت عرصے سے داعش کے سربراہ کا پیچھا کر رہی تھی۔ترک صدر کا کہنا تھا ’ہم دہشت گرد تنظیمو ں کے خلاف بلا تفریق اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔‘واضح رہے کہ شام کی سرحد پر ترکیہ کی جانب سے داعش اور کرد گروہوں کے خلاف کئی آپریشن کیے جا چکے ہیں جن میں مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک یا گرفتار کیا گیا۔شام کی سرحد سے کرد گروہوں کو ہٹانے کی غرض سے شروع کیے گئے آپریشن کے نتیجے میں ملک کے شمال میں ایک بڑا حصہ ترکیہ کے قبضے میں ہے۔اکتوبر میں داعش کے سابق سربراہ کی ہلاکت کے بعد ابو حسین القریشی کو تنظیم کی سربراہی سونپی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2019 میں داعش کے بانی ابو بکر البغدادی کو شمال مغربی شام میں امریکی افواج نے ایک آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا۔ابو بکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کو تنظیم کا سربراہ منتخب کیا گیا جو فروری 2022 میں ایک حملے میں ہلاک کردیئے گئے۔

سوڈان میں امن کی بحالی کیلئے ممکنہ اقدامات کرنے کی اپیل۔اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپیل کی ہے کہ سوڈان میں امن کی بحالی کیلئے افریقی قیادت میں ہونے والے اقدامات کی ہر ممکن حمایت کی جائے۔العربیہ ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو میں انتونیو گوتریس نے سوڈان کے حوالے سے کہا کہ جب ملک ٹوٹ رہا ہو تو لڑائی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔سوڈان میں فوج اور پیراملٹری فورسز کے درمیان جاری لڑائی تیسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے جبکہ سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ سوڈانی محکمہ صحت نے ہلاکتوں کی تعداد 528 بتائی ہے جبکہ 4 ہزار 500 زخمی بتائے گئے ہیں۔بتایاجاتا ہے کہ پچاس لاکھ شہریوں پر مشتمل دارالحکومت خرطوم جنگ کے میدان میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرہان اور پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے سربراہ محمد حمدان دقلو کے درمیان 15؍ اپریل سے لڑائی جاری ہے۔سوڈان میں جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود لڑائی کی شدت میں کمی نہیں آ سکی۔عبدالفتاح البرہان کے خیال میں آر ایس ایف کا مقصد ’سوڈان کو تباہ‘ کرنا ہے جبکہ محمد حمدان دقلو آرمی چیف کو ’غدار‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام (ورلڈ فوڈ) کے مطابق مسلح افواج کے درمیان جاری لڑائی سے مزید لاکھوں افراد بھوک کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں جہاں پہلے ہی ایک تہائی آبادی قحط کا مقابلہ کر رہی ہے۔سعودی عرب نے سوڈان سے کئی ممالک کے ہزاروں شہریوں کو بحفاظت سعودی عرب لانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔

سعودی عرب میں خوفناک ٹریفک حادثہ، 6 حقیقی بھائی جاں بحق
اﷲ اکبر! کتنا ہی المناک حادثہ و سانحہ ہے جسے سن کر ہر کوئی غمزدہ ہوجائے گا۔ سعودی عرب میں خوفناک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں 6 سگے بھائی جاں بحق ہوگئے۔عرب میڈیا کے مطابق طائف کو الباحہ سے ملانے والی شاہراہ پر دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں جس کے نتیجے میں 6 سگے بھائی جاں بحق ہوگئے، جاں بحق ہونیوالے بھائیوں میں سب سے بڑے کی عمر 17 سال اور سب سے چھوٹے کی ڈھائی سال بتائی جاتی ہے۔ ان کی شناخت ریم، سالم، محمد ، سعود یحییٰ اور حمدان کے ناموں سے کی گئی ہے، حادثے میں والدین اور دیگر 3 بہن بھائیوں کو تشویشناک حالت میں انتہائی نگہداشت میں منتقل کر دیا گیا، حادثے میں ایک چار سالہ بچی معجزانہ طورپر مکمل طورپر محفوظ رہی۔

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.