سیاست اور سیاستدان‎‎

سیاست پرانے وقتوں سے ایک ضروری کام سمجھا جا رہا ہے،اور کیا جا رہا ہے۔پوری دنیا میں دنیا سیاست کو ایک مقام حاصل ہے۔پوری دنیا کی ممالک سیاست کر رہے ہیں۔لیکن سیاست کا طریقہ کار ہر ملک کا اپنا اپنا ہے۔یعنی ہر ملک کی سیاست الگ الگ طریقے کے ہوتے ہیں۔ہم اگر پاکستان کی سیست کو دیکھے تو پاکستان کی سیاست پوری دنیا کی سیاست سے بلکل مختلف قسم کی سیاست ہے۔پاکستان بننے آزاد ہونے سے پاکستان میں مختلف سیاست دان ارہے ہیں۔اور سیاست کر رہے ہیں۔پاکستان سیاست اپنے مفاد کیلئے ایک سیاست ملک کی بقاء اور استحکام کیلئے ہوتی ہے۔پاکستان میں ہم نے آج تک ایسی سیاست نہیں دیکھی جو ملک کی بقاء اور کامیابی کیلئے ہوئی ہوں۔یعنی ہر پارٹی ہر سیاستدان اپنے اپنے مفاد کی سیاست کر رہے ہیں۔سیاستدان چاہتے ہیں،کہ سب کچھ بس ہمیں ملے۔پاکستان میں سیاست دان اربوں کھربوں کے مالک بنتے جا رہے ہیں اور عوام دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ملک کی اکانومی بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔سیاست کرنا کوئی گناہ نہیں لیکن سیاست صرف اپنے مفاد اور فائدے کیلئے یہ اس ملک کے ساتھ،اس ملک کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ہم نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ پاکستان کا کوئی سیاست دان غریب ہوا،پاکستان کے کوئی سیاست دان کی بینک بیلنس میں کمی آئی،پاکستان کے کسی سیاست دان نے کوئی چیز فروخت کی بلکل بھی نہیں۔یہی واقعات اگر ہوتے ہیں تو صرف پاکستان کی غریب عوام کے ساتھ ہوتی ہے۔عوام کی کاروبار روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔پاکستان کی سیاستدانوں نے ملک کو اس موڑ پر لا کھڑا کر دیا ہے کہ کوئی ملک پاکستان کے ساتھ مدد کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست اگر کوئی کرتا ہے تو وہ ضرور کسی پرانے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا ہوگا۔یعنی پاکستان میں سیاست کسی غریب کا کام نہیں ہے۔سیاست کوئی کرے گا تو پہلی شرط یہ ہے کہ وہ امیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہوگا۔غریب خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہوں وہ سیاست نہیں کرسکتا،اس کی بات کوئی سن نہیں سکتا۔ان کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔وہ شخص نہ تعلیم یافتہ ہوگا،نہ قابل ہوگا،نہ ذہین ہوگا لیکن جب امیر ہوگا اور کسی پرانے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا ہوگا تو وہی شخص پاکستان میں سیاست کرنے کا حامل ہوگا۔پاکستان میں بس کچھ ہی پارٹیاں اور سیاست دان ہے جن کی حاکمیت اس ملک پر برسوں سے جاری ہے۔اور اب پاکستان کی سیاست میں کوئی داخل ہوتا ہے تو وہ صرف مفد کیلئے داخل ہوگا۔یعنی ایک اچھا اور بڑا کاروبار بن چکا ہے۔سیاست کرنے کیلئے آپ کو عقل اور ذہانت کی ضرورت نہیں بلکہ بس یہی ضروری ہے کہ آپ کا خاندان سیاسی ہوں اور آپ امیر ہوں۔مسلہ یہ بھی ہے کہ ہم عوام نے آج تک کسی سیاستدان کے ساتھ حساب کتاب نہیں کیا۔حساب کتاب کے جو ادارے مقرر کئے گئے ہیں وہ ادارے بھی اس سیاستدان نے برائے نام مقرر کئے ہیں۔تاکہ عوام کوبے وقوف بنایاجا سکے۔اگر ہم دیکھیں تو پاکستان کی سپریم کورٹ میں مختلف سیاست دانوں کے خلاف کیسز زیر التواء ہیں لیکن کسی بھی سیاستدان کو آج تک سزا نہیں ہوئی اور اگر کوئی سزا ہوتی بھی ہے تو بس برائے نام سزا ہوتی ہے۔پاکستان میں اگر قانون ہے قانون کی پاسداری ہے تو صرف غریب عوام کیلئے ہیں۔سیاستدان کی دل میں زرا بھی رحم نہیں آرہا کہ غریب عوام پر تھوڑا رحم کیا جائے۔سیاستدان کی حوس تو اس حد تک اچکی ہے کہ اس نے غریب عوام پر آٹا بھی بند کر دیا ہے۔یعنی آٹے پر بھی سیاست ہورہی ہے۔سیاست دان اب یہ چاہتے ہیں کہ یہ عوام روٹی بھی نہ کھائے۔ان سیاستدانوں سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ آج آگر آپ برسر اقتدار ہے تو ہمارے وجہ سے ہیں۔ہم نے ووٹ دیا ہے اور ہمارے وجہ سے آپ خوب مزے لے رہے ہیں۔پاکستان الحمداللہ قدرت کی ہر چیز سے مالا مال ہے لیکن اس پر قبضہ سے حکمران نے جمائے رکھا ہے۔یعنی سب کچھ وہ لے رہے ہیں۔دیگر بڑی بڑی باتیں تو چھوڑے لیکن ہم یہ پوچھتے ہیں کہ کیا عوام کی اتنی بھی حق نہیں بنتی کہ ان کو روزگار فراہم کیا جائے،ان پر مہنگائی کی شکل میں ظلم بند کیا جائے؟پاکستان کی سیاست دان خود پاکستان کی آئین سے انکار کر رہے ہیں۔ائین میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ریاست کی یہ فرض ہے کہ وہ عوام کو روزگار فراہم کرے گا۔عوام کو امن فراہم کرے گا۔پاکستان میں عوام امن سے نہیں ہے روزگار تو دور کی بات ہے،مہنگائی ختم کرنا تو دور کی باتیں ہیں۔پاکستان کی سیاستدان یہ کبھی نہیں چاہے گے کہ عوام کو کچھ فائدہ حاصل ہوں۔پاکستان کی سیاستدان نے عوام سے ان کی زندگی کی راحت بھی چھین لی ہے۔اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ سیاستدان نے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کچھ اچھے نہیں رکھے ہیں۔دیگر ممالک کو بھی پتہ ہے کہ پاکستان کی سیاستدان صرف اپنی مفاد کی سیاست کر رہے ہیں۔اسی لئے دنیا کی دیگر ممالک میں کسی بھی پاکستانی مزدور کی عزت نہیں ہوتی یعنی پاکستانی مزدور کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اس کی وجہ اور کوئی نہیں بس پاکستان کی سیاستدانوں کی غلط پالیسیاں ہیں۔

 

Sadiq Anwar Mian
About the Author: Sadiq Anwar Mian Read More Articles by Sadiq Anwar Mian: 10 Articles with 4657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.