اس وقت پاکستان حالت جنگ کی سی صورتحال میں مبتلا ہے۔ وہ
سب کچھ ہو رہا ہے جس کے بارے میں سوچ کر برا گمان ہوتاہے۔ اسی دوران وہ کچھ
بھی ہو رہا ہے جو کم از کم امید دلاتا ہے۔ سارے دانشور اور فلسفی خاموش ہیں
کہ اس سارے بحران کا حل کیا ہو۔ جن کے پاس حل ہے وہ سوچتے ہیں کہ ہم بولیں
گے تو ہمیں خاموش کر دیا جائے گا۔ عوام الناس تقسیم در تقسیم ہو کر اپنے
نظریات,ایمان اور دیدہ وری سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔وہ ایک مجنوں کی سی ہیجانی
کیفیت کا شکار ہیں، جس کا ادراک انہیں خود بھی نہیں ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو
حقیقت میں نظریات کی بات کر رہے ہیں۔ زیادہ لوگ جو شخصیت پرستی کو نظریہ
سمجھ رہے ہیں ان کی عقلی صلاحیتیں سلب ہو چکی ہیں۔ سازشی عناصر اپنی سازشوں
میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے حالات سقوط ڈھاکہ سے پہلے کے
حالات سے کچھ الگ دکھائی نہیں دیتے۔ موجودہ سیاستدانوں کے اجداد وہی ہیں جو
ماضی میں شخصیتوں کی جنگ سے فائدہ اٹھا کر ملک پاکستان میں اپنے مذموم
عزائم کو تکمیل دینے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ جنرل ایوب خان اور محترمہ
فاطمہ جناح کا مقابلہ ایک تاریخی مثال ہے۔ حالانکہ محترمہ فاطمہ جناح ایسے
کسی بھی عمل کی خواہاں نہیں تھیں۔ ایسی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ کبھی
سیاسی شخصیات کے سامنے مذہبی شخصیات کو اور کبھی فوجی شخصیات کے سامنے
سیاسی شخصیات کو کھڑا کر کے پس پشت اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے رہے ہیں! اور
آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی مشرقی پاکستان کے
سیاستدانوں کو اکثریتی حمایت کے ساتھ مینڈیٹ ملا تھا جس کے سامنے ذوالفقار
علی بھٹو صاحب نے بیان دئیے جو آج بھی شہہ سرخیوں کی صورت قرطاسوں پر رقم
ہیں۔ اسی طرح تختے الٹنے کی کہانیاں،غداری کے الزامات، بدعنوانی اور اغیار
کے مہرے ہونے کے الزامات,پھر عدالتوں میں ثبوت,پھر ان کے خلاف فیصلے آنے کے
باوجود یہ لوگ پاکستان میں طاقتور ترین ہاتھی ہیں۔ جو نہ پاکستان کے آئین
کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہیں اور نہ ہی انصاف قائم کرنے والے اداروں کے فیصلے
مانتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اداروں میں بڑی پوسٹوں پر سیاسی بھرتیوں نے
ان باگڑ بلوں کو اور بے لگام کیا ہوا ہے کہ کسی پر آنچ آئے تو ادارے بھی
بکھراؤ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اگر کوئی عام شخص کسی شخصیت یا ادارے پر
سوال اٹھائے اور شفافیت کی بات کرے تو اسے بلا تاخیر دھر لیا جاتا ہے۔ اور
اگر کوئی سیاسی شخص کسی دوسری سیاسی, سماجی, مذہبی, فوجی, محکمہ جاتی یا
منتخب اہم شخصیات پر سوال اٹھائے تو اسے سیاسی بیان سمجھ کر آئیں بائیں
شائیں کر کے ختم کر دی جاتی ہے۔ یہ عمل کس نظام,آئین یا قانون کے تحت ہوتے
ہیں اس کی بھی وضاحت ضروری ہے۔ لیکن یہ وضاحت کون کرے گا۔ جب کوئی ادارہ
کسی بدعنوان سیاستدان کے خلاف ڈٹ جائے تو پہلے اسے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
پھر یکبارگی دہشتگردی کی لہر اٹھ پڑتی ہے۔ اور کبھی پڑوسی ملک کی جانب سے
سرحدی کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ یا کبھی مقبوضہ کشمیر میں ایک نئی تیلی کھرچ دی
جاتی ہے۔ اس معاملے کی وضاحت کیلئے چند سوالوں کے جواب درکار ہیں۔
1۔ پاکستان میں دہشتگردی کا منبع پڑوسی ممالک ایران,افغانستان اور بھارت کی
سرحدوں کو کہا جاتا ہے۔ جہاں کے مختلف سرحدی قبائل,بارڈر پار مکین پاکستان
کے اقتصادی استحکام کو ثبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔اور پھر ان کے قلابے امریکہ
سے ہوتے ہوئے اسرائیل تک کھینچ دیے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن کرتے
پاکستان پچھتر برس کا ہو گیا ہے۔ لیکن کنٹرول کیوں نہیں کیا جاسکا ہے؟
2۔ پاکستان کو آمری قابضوں نے دنیا بھر کے ممالک کی نسبت سائنس و ترقی کی
دوڑ میں آگے نہیں بڑھنے دیا۔ ایوب خان,یحیٰ خان,ضیاء الحق,جنرل پرویز مشرف
کے ادوار حکومت کا جائزہ بتایا جائے کہ کیسے آگے نہیں بڑھا؟ اور جمہوری
حکومتوں میں خارجی طور پر پھر آرمی چیف ان کیلئے قرضوں کے حصول اور تعلقات
میں ربط کا کردار کیوں ادا کر رہے ہوتے ہیں؟
3۔ ہر آنے والی نئی منتخب حکومت پچھلی حکومت کو بدعنوان,عوام کا مجرم,چور
قرار دے رہی ہوتی ہے۔ مگر جب خود اس کا دور ختم ہوتا ہے تو پاکستان پر قرض
پچھلی حکومت کی نسبت کئی گنا زیادہ کیوں ہو جاتا ہے؟اور زبانی جمع خرچ کی
بجائے ان کا احتساب اور ان سے لوٹا ہوا عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ واپس کون
لائے گا؟
4۔ پچھلی حکومت کے ٹائر کے پنکچرز ہر آنے والی نئی حکومت کو لازمی لگتے
ہیں۔ اس طرح سے نئی حکومت اور پچھلی حکومت میں کیا فرق ہوا؟ اور کیا پنکچرز
ہر نئے حکومتی ٹائر کو لگنے کے بعد نئے ہو جاتے ہیں؟
5۔ اگر سارے سیاستدان غدار,ایجنٹ,ملک و قوم کا سودا کرنے والے اور پراکسیز
ہیں تو ہمارے ملک کے قوانین کا اطلاق ان پر کیوں نہیں ہوتا؟اور اطلاق
کروانا کس کی ذمہداری ہے؟
6۔ اگر سیاستدانوں کی نظر میں سارے ادارے کام چور,بدعنوان,قوم کا پیسہ
لوٹنے والے,ملک میں بدامنی پھیلانے کے ذمہدار ہیں تو پھر انہیں منظم کیوں
نہیں کیا جا سکا؟
7۔ اگر ہمارا ملک معدنی,انرجی اور ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے اور
یقینی طور پر عوام بھاری بھرکم ٹیکس بھی ادا کرتی ہے، تو پھر ملک کی تعمیر
و ترقی اور منصوبوں کی تکمیل کیلئے ہمیں قرض کیوں لینا پڑتا ہے۔ اور ان
معدنیات کو نکالنے کیلئے ہمیشہ دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کو ہی ٹھیکہ کیوں
دیا جاتا ہے؟
8۔ اگر تمام بنیادی ضروریات کے شعبوں میں جدیدیت کے ساتھ ترقی کے حکومتی
دعوے سچ ہیں تو ان کا اپنا علاج , تعلیم وغیرہ کا حصول دوسرے ملکوں سے کیوں
ہے؟
9۔ آج تک جتنی بھی شخصیات کے کیسوں کے بارے میں کمیشن بنائے گئے,تحقیقی
کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ان کا نتیجہ کیوں نہیں نکالا گیا؟
10۔ ایسا کونسا عنصر ہے جو ملک میں صرف کاروباریوں,ٹھیکے داروں,جاگیرداروں
اور بڑے دولتمندوں کو ہی محکموں میں بڑے عہدوں,سیاست میں انتخاب اور سماج
میں یقینی طور پر پر اثر بناتا ہے؟
11۔ جس پاکستان کے وجود کا نظریہ اﷲ پر کامل ایمان اور اس کے رسولﷺ کو اﷲ
کو نبی مان کر اس کی اطاعت کرنا تھا۔ اور منشور اﷲ کی کتاب قرآن المجید
تھا۔ اس میں سیاسی جماعتوں کے منشور و نظریات,درباری و سیاسی ملاؤں کے
نظریات و منشور اور شخصیت پرستی کے نظریات و منشور کی جگہ کیسے بن گئی؟کیا
ملک میں طبقاتی تقسیم کی وجہ اور شخصیت پرستی کی یہی وجہ نہیں ہے؟
12۔ جب منتخب سیاسی نمائندے اور دفاعی و آئینی ادارے یہ اچھی طرح سمجھ رہے
ہیں کہ ملک کو بیرونی سازشوں کے ذریعے غیر مستحکم اور خانہ جنگی کی طرف
دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ متحد ہو کر سازشوں کا جواب دینے کی
بجائے مزید انتشار کیوں پھیلاتے ہیں؟
میری رائے میں پاکستان میں تمام بحرانوں کی گتھیاں ان بارہ سوالوں کے جواب
سے سلجھ سکتی ہیں۔ پاکستان میں بکھری ہوئی عوام ایک قوم بن سکتی ہے۔ نظریہ
پاکستان کے ساتھ جڑ سکتی ہے۔ اب ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان میں
ایک ایسا سیاسی خلا موجود رہا جو نظریہ پاکستان,بقائے پاکستان,احساس ملی
،جذبہء باہمی,ایثار و محبت اور اتحادکی بات کرے۔ جسے پر کرنے کیلئے پاکستان
مرکزی مسلم لیگ کے نام سے ایک جماعت منظر عام پر آئی ہے۔ جو آئے دن کوئی نہ
کوئی خدمت کے منصوبے پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ اس جماعت نے ہی ملک میں بڑے
پیمانے پر اتحاد کنونشن کروانے کا عزم کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ اتحادکنونشنز
، اتحاد ملی کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔
|