اس پرفتن دور میں بیچاری اچھائی اوربھلائی چھپتی
پھرتی ہے جبکہ گناہ غنڈوں کی طرح دندناتے پھرتے ہیں۔اب تولوگ اپنی ناکامی
چھپانے کیلئے دوسروں کی بدنامی کرتے ہوئے حد سے تجاوزکرجاتے ہیں ۔افسوس
ہمارا معاشرہ بھی کانوں کاکچا ہے اسلئے عادی" جھوٹوں" اور"جھلوں "کو
افواہوں کابازار گرم کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی ۔میں پوچھتا ہوں
دوسروں کی ویڈیو یاآڈیو ریکارڈ کرکے انہیں بلیک میل کرناکس مذہب یاتہذیب
میں جائز ہے۔دوسروں کی کسی مبینہ غلطی کافائدہ اٹھاتے اور انہیں بلیک میل
کرتے ہوئے مزید غلطی کرنے پرمجبورکرناکہاں کی انسانیت اورشرافت ہے۔ عورت
تودرکنار اگر کوئی مرد بھی کسی کوضرورت پڑنے پربلیک میل یابدنام کرنے کی
نیت سے اس کی بیہود ویڈیو دیکھتا اور ا سے اپنے پاس محفوظ رکھتاہے تووہ
خودبھی بدکار اورگنہگار سمجھا جائے گا۔یادرکھیں جودوسروں کے گناہوں بارے
علم ہوتے ہوئے بھی انہیں ظاہرنہیں کرتا ،اﷲ ربّ العزت اس کی گناہوں کی پردہ
پوشی فرماتا ہے۔تاہم جودوسروں کورسواکرتے ہیں ،ایک دن رسوائی اورجگ ہنسائی
ان کامقدر بن جاتی ہے ۔بدقسمتی سے ہماری سیاست بہتان اورغیبت سے عبارت
ہے۔ہمارے سیاستدان عوامی اجتماعات میں اپنے ویژن ، انتخابی منشور
اورتعمیراتی منصوبوں پربات کرنے کی بجائے اپنی مدمقابل سیاسی شخصیات کاپوسٹ
مارٹم کرناشروع کردیتے ہیں اوراس طرح اجتماع میں شریک ہر فرد بہتان اورغیبت
سماعت کرنے کی پاداش میں گناہ بے لذب کامرتکب ہوتا ہے۔ پاکستان میں قومی
سیاست کا کلر اور کلچر تبدیل کرنے کیلئے سیاستدانوں کو اپنی مجرمانہ روش
بدلناہوگا۔بلیم گیم کے" شور" نے عوام کی نظروں میں ہر سیاستدان کو"چور"
بنادیا ہے ۔سیاستدانوں کو اپنے تعمیری کردار سے اپنا اعتماد بحال کرناہوگا۔
جوسیاستدان اپنے محلات میں گھاس کوکچلنا برداشت نہیں کرتے وہ بھی پراگندہ
سیاست کی آڑ میں ریاست کوروندتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاستدانوں نے
ریاست کواپنی سیاست کامحوربنایاہوتاتوآج بحیثیت" بشر" ہمارا یہ" حشر" نہ
ہوتا ۔
اسلامی تعلیمات کی روسے جھوٹ بولنا متعدد برائیوں کی روٹ کاز ہے لیکن
عہدحاضر میں کذابین کیلئے دروغ گوئی اوربہتان تراشی ایک طرح سے ہتھیار بن
گئی ہے۔کسی پیشہ ور کذاب نے مرتے وقت اپنے پیروکاروں کو نصیحت اور وصیت
کرتے ہوئے کہا تھا" تم لوگ اس تواترکے ساتھ جھوٹ بولناجس کو پوری طرح سچ
مان لیاجائے ۔ ہماری سیاست اورصحافت میں سرگرم مخصوص کذاب ریاست اورمعاشرت
کیلئے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ان کا مسلسل جھوٹ بولنا اورشورمچانا شعور سے عاری
شہریوں کومزیدگمراہ کردیتا ہے۔آج میڈیا اورسوشل میڈیاکے مختلف ٹول رینٹ
پردستیاب ہیں ،متعدد اہل قلم بھی اپنے ضمیرکی قیمت وصول کرنے کے بعد سچائی
کاسرقلم کردیتے ہیں۔دام دیکھتے جس انسان کادم نکل جائے وہ یقینامردہ ضمیر
ہے ۔کذابین کی زبانین جھوٹ اگلتی ہیں ، مخصوص اورمنحوس قلم اپنی قیمت کی
وصولی کے بعدقرطاس پرجھوٹ بکھیرتا ہے لیکن تاریخ کا" سچائی تک رسائی "کیلئے
انتھک سفرہرگز نہیں رکتا۔ان دنوں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس (ر)میاں ثاقب
نثار کی ذات پرجس طرح بدترین ذاتی حملے ہورہے ہیں اوران کامیڈیا ٹرائل کیا
جارہا ہے اس طرح تو ماضی میں کسی فوجی آمر ،منتخب حکمران یاسیاستدان کابھی
نہیں کیاگیا ۔حکمران اشرافیہ کے اہم افراد ایک ہدف کے تحت میاں ثاقب نثار
کوبدنام کرنے کیلئے ایک خطرناک بیانیہ بنارہے ہیں۔میاں ثاقب نثار کیخلاف
اشتعال انگیزی ،بیان بازی اورذہن سازی کرنے کابنیادی ٹارگٹ ان کے ایک خاص
فیصلے بارے ابہام پیداکرنا ہے جس میں میاں نواز شریف کوتاحیات نااہلی کی
سزا ہوئی تھی،اگر یہ سزادرست نہیں تھی تواس وقت مسلم لیگ (ن) کایہ ری ایکشن
کیوں نہیں تھا جوان دنوں ہے لہٰذاء ہرکام اپنے وقت پراچھا لگتا ہے
۔نوازشریف ،شہبازشریف اورمریم نواز سمیت وفاقی وزراء روزانہ کی بنیاد
پرمیاں ثاقب نثار کے ایک مخصوص فیصلے پر شدید تنقیدکرتے ہوئے انہیں سیاست
میں گھسیٹ رہے ہیں۔ میاں ثاقب نثار اوران کے فرزندارجمندمیاں نجم الثاقب کی
واٹس ایپ کال ٹیپ اورلیک کرنا بھی اس منصوبہ بندی کاحصہ ہے۔ ایک طرف پورا
حکمران اتحاد ہے جبکہ دوسری طرف میاں ثاقب نثار بظاہر تنہا ان کامقابلہ
کررہے ہیں تاہم وہ حکمرانوں کے سیاسی بیانات کاسیاسی انداز سے جواب نہیں دے
سکتے لیکن مجھے لگتا ہے ضرورت پڑنے پرملک بھر سے قانون دان اپنے سرخیل میاں
ثاقب نثار کی پشت پرکھڑے ہوں گے۔تاہم ابھی تک عمران خان سمیت کسی اپوزیشن
رہنماء کومیاں ثاقب نثار کیخلاف بے بنیاد اوربلاجواز سیاسی مہم جوئی
کوکاؤنٹر یااس کی مذمت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
میاں نوازشریف کوجس معاملے میں تاحیات نااہلی کی سزاہوئی تھی اس میں موصوف
نے بھرپور انداز سے اپیل کاحق بھی استعمال کیا تھا ۔نوازشریف کو ٹرائل کے
دوران اپنے دفاع کیلئے قدآور قانون دانوں کی بھرپور معاونت حاصل تھی لیکن
اس کے باوجود سزا ہوگئی لہٰذاء دنیا کی کسی مہذب ریاست میں سزایافتہ مجرمان
کی طرف سے منصف کی ریٹائرمنٹ کے بعداس کامیڈیا ٹرائل کرنے کی نظیر نہیں
ملتی ۔ اگر پاکستان میں سزایافتہ مجرموں نے منصفوں کی ریٹائرمنٹ کے بعدان
پرکیچڑاچھالنا شروع کردیا توپھر شایدسزاؤں کاسلسلہ رک جائے گا۔اس صورت میں
زیادہ تر منصف اپنی کردارکشی کے ڈر سے کسی ملزم کومجرم ڈکلیئر نہیں کریں گے
کیونکہ ہرکسی کو اپنی عزت بہت عزیز ہوتی ہے۔کسی فیصلے کی آڑ میں منصف کی
توہین درحقیقت انصاف کے ایوانوں کی تضحیک ہے،اس مجرمانہ روش کی اجازت نہیں
دی جاسکتی ۔عدلیہ کودبانا یاڈرانا دھمکانا انصاف پراثرانداز ہونے کی خطرناک
خواہش اور کوشش ہے۔جس جماعت نے ماضی میں عدلیہ کی آزادی اورججوں کی بحالی
کاکریڈٹ لیاتھاآج اس کی قیادت کاعدالت سے عداوت کابھانڈا پھوٹ گیاہے ۔عدالت
سے مرضی کے فیصلے چاہنا اور ا س سازش کی کامیابی کیلئے ججوں میں نفاق
پیداکرنا آمرانہ مزاج ہے۔
دوافراد کے درمیان کسی چاردیواری کے اندر یا فون پرہونیوالی نجی بات چیت
ٹیپ اوراسے مخصوص ایجنڈے کے تحت لیک کرنا انسانوں کے بنیادی حقوق ، اسلامی
تعلیمات اوراخلاقیات کی روح کے منافی ہے۔ اگر ریاست کی سا لمیت یاکسی قومی
رازکی حساسیت کامعاملہ ہوتوفون ٹیپ اور اسے کسی عدالت میں بطورشواہد
یاشہادت پیش کرنا جائز ہے لیکن محض حکومت کے ساتھ سیاسی عداوت کی بنیاد
پرشہریوں کی پرائیویسی میں مداخلت کرنایانقب لگانا ہرگز قابل قبول نہیں ۔
2افراد کی گفتگو ریکارڈ جبکہ 22کروڑ پاکستانیوں کااحتجاج" ریکارڈ" اوراس
کا"ر یگارڈ" یعنی اسے تسلیم اوراس کااحترام نہ کرنا انتہائی منافقانہ
اورعاقبت نااندیشانہ رویہ ہے۔ حکمران اپنے سیاسی مفادات کیلئے انصاف کے
علمبردار چیف جسٹس (ر)میاں ثاقب نثار کوٹارگٹ اوران پر ذاتی حملے کررہے
ہیں۔میاں ثاقب نثارکے فون ٹیپ کرنے کی آڑمیں ان کیخلاف کسی انتہائی اقدام
کیلئے کوئی جوازتلاش یاپیدا کیاجارہا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں میاں ثاقب نثارکی
شخصیت بارے جوجھوٹابیانیہ بنایاجارہا ہے وہ یقینا بیک فائرکرجائے گا۔جہاں
تک مجھے علم ہے میاں ثاقب نثار نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے کسی
معاملے میں آئین ،قانون اورانصاف سے تجاوزنہیں کیا ۔انہوں نے اپنے دورمیں
طاقتور اشرافیہ کو بھی انصاف کی دیوی کے روبرو سرتسلیم خم کرنے
پرمجبورکردیا تھا ،اس کے سوا ان کاکوئی گناہ نہیں۔کون کہنا ہے ڈیم بنانا ان
کی ڈومین میں نہیں تھا، جس طرح شاہراہ پردوران ڈیوٹی کوئی بھی وارڈن کسی
بزرگ شہری کاہاتھ تھام کرانہیں سڑک پار کرواسکتا،اس طرح اپنے عہدکا ایک
منصف اعلیٰ اپنی ریاست کی آبی ضرورت کودیکھتے ہوئے ڈیم کی تعمیر کیلئے اپنے
ہمو طنوں کوبیدار اورفنڈریزنگ مہم شروع کرسکتا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کیا
پاکستان میں میاں ثاقب نثار اورخواجہ طارق رحیم کے سوا کوئی آپس میں فون پر
بات چیت نہیں کرتا،ان دو شخصیات کے فون بار بار ٹیپ اورلیک کرناایک بڑا
سوالیہ نشان ہے۔کیا سماج دشمن عناصر اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے سلسلہ میں
اپنے منصوبوں کو فون پر حتمی شکل نہیں دیتے،ان کا فون ٹیپ اور انہیں بروقت
گرفتار کیوں نہیں کیاجاتا ۔کیا پاکستان کے دو ماہر آئین و قانون ایک دوسرے
کے ساتھ قانونی وآئینی موضوعات پر سیرحاصل بحث نہیں کرسکتے ۔ حالیہ دنوں
میں ہر چندروزبعد میاں ثاقب نثار کافون ٹیپ اورلیک کرنا ایک سازش کی طرف
اشارہ کررہا ہے ۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس (ر) اورماہرآئین وقانون میاں
ثاقب نثار سے کوئی بھی مشاورت یاکوئی صحافی ان سے کسی آئینی و قانونی ایشو
پر سوال کرسکتا ہے،راقم کے نزدیک اس میں کوئی قباحت اوراس پرکسی قسم کی
کوئی قدغن نہیں۔ میاں ثاقب نثار کیخلاف وزیراعظم سمیت ان کے سیاسی اتحادیوں
اور وفاقی وزراء کی طرف سے تندوتیز بیانات کامقصد یہ پیغام دینا ہے کہ
جوکوئی ان کیخلاف فیصلے دے گا وہ بعد میں اس کا بھی میڈیا ٹرائل کرسکتے ہیں
۔ مبینہ آڈیو لیک کی آڑ میں میاں ثاقب نثار کو بدترین سیاسی تعصب کانشانہ
بنایاجارہا ہے ۔ قومی ضمیر پاکستان میں ووٹ کی مدد سے آئینی تبدیلی
کاخواہاں ہے،بدعنوان سیاستدانوں جبکہ اشرافیہ کی نمائندہ پارٹیوں کی بجائے
عوام اوران کے جمہوری حقوق کااحترام کیاجائے ۔کیا ہمارے محکموں کایہ کام رہ
گیا ہے ،وہ پاکستان کے اندردندناتے ملک دشمن عناصر کی مذموم کارستانیوں
کومانیٹر اورشیطانیوں میں مصروف عناصر کوگرفتار کرنے کی بجائے اپنے ہم
وطنوں کی نجی بات چیت کوریکارڈ اوراسے پبلک کریں۔اپنے شہریوں کے سیاسی
نظریات اورخیالات کوسونگھنا جبکہ انہیں مخصوص رنگ میں پیش کرناکہاں کی گڈ
گورننس ہے ۔
|