حرفِ حقیقت

اقتدار کا نشہ ،سیاست،ریاست اور عوام۔

برصغیر کی بہت ساری روایات تھیں جنکا ذکر تاریخ کے اوراق میں دفن ہے۔پڑھنے کو ملتا ہے کہ اقتدار کے لالچ میں مغل ادوار میں بھائی نے بھائی کا سر کاٹ دیا،باپ نے بیٹے کو نشان عبرت بنا دیااور بیٹوں نے باپ کو پابند سلاسل کر دیا۔کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانے کی چند اقتدار کی پیاسی روحیں پاکستان کو جہیز میں مل گئیں ۔جو کہ جمہوریت کے لبادے میں محو رقص ہیں اور عوام کے خون سے اپنی اقتدار کی بھوک مٹاتی چلی آ رہی ہیں۔نہ جانے پچھلے ستر سال سے کتنے نوجوان بھینٹ چڑھ گئے ۔کتنی گودیں اجڑ گئیں ۔کئی خاندان تباہ و برباد ہو گئے ۔لیکن اقتدار کی حوس ہے کہ،ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔یہاں تک کہ بانی پاکستان کے بارے میں تاریخ گواہی دینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔کہ ایک مخصوص ٹولے نے اُنکی زندگی کے آخری چند ایام مشکل تر بنا دیئے تھے۔اور قائد اعظم اپنی بہن ،محترمہ فاطمہ جناح کو یہ بتانے پر مجبور کر دئیے جاتے ہیں ۔یہ لوگ میری عیادت کرنے نہیں آ ۓ بلکہ دیکھنے آتے ہیں ۔قائد اعظم موت سے اب کتنے دور ہیں اور اس سب کے پیچھے نشہ اقتدار کار فرما تھا۔ملوث شاہد بہت قریبی رفقاء تھے۔یہ اقتدار اور کرسی کا لالچ ہی ہے جو کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اتنا وقت ہی نہیں دیتا کہ وہ اپنی مدت پوری کر سکے۔اسکے پیچھے بھی شاہد ایک مخصوص وجہ کار فرما ہو سکتی ہے ۔انکا اقتدار چند مخصوص نادیدہ افراد کی مرہون منت ہوتا ہے۔جو ایک احسان کی صورت میں عنائت کیا جاتا ہے۔ ۔جب لانے والوں کا مفاد پورا ہوتا ہے۔ وہ دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیتے ہیں اور پھر شطرنج کی ایک نئی بساط بچھا کر اپنی مرضی کے مہرے رکھ دیتے ہیں ۔جب تک لالچ اقتدار زندہ ہے،پٹنے کے لیے کئی شہسوار اقتدار کی منڈی میں دستیاب ہوتے ہیں۔ اقتدار کی اس لالچ اور باری کے چکر میں لاکھوں لوگ تختہ دار ہو چکے ہیں ۔پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے لئے اس بات کو ایک گالی کے ذمرے میں برداشت کرنے کی عادت ہو چکی ہے۔ھندوستان کی سیاست میں مثال پیش کی جاتی ہے۔کہ وہاں کا وزیراعظم اپنی دھوتی تبدیل کرتا ہے اور پاکستان میں اقتدار کی کرسی بدل دی جاتی ہے۔یہ پاکستان کی شاندار جمہوریت اور سیاست کی تلخ حقیقت ہے۔جسکو فراموش کرنا آسان نہیں ہے۔افسوس صد افسوس پچھلے ستر سال کی لازوال قربانیوں کے باوجود بھی، ہم آج بھی اسی چوراہے پر کھڑے ہیں ۔جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔نہ کوئی منزل ہے اور نہ کسی منزل کی پرواہ ہے۔سفر کٹ رہا ہے ملک کرچیوں میں بکھر رہا ہے ۔اور اقتدار کا نیرو سکوں سے بانسری بجا رہا ہے اور عوام ایک بیل کی طرح آںکھوں پر پٹی باندھ کر اندھی تقلید میں محب الوطنی کا دھتورا پی کر اقتدار کی کرسی پر ہر بیٹھنے والے شخص کا طواف جاری رکھے ہوئی ہے۔اور کرسی پر بٹھاۓ جانے والے شخص کا اگلہ ٹھکانا تخت کے بعد تختہ ہے لیکن اسکو لانے والوں نے ایسا محصور کر دیا ہے۔وہ اس اقتدار کو اپنی میراث سمجھ بیٹھا ہے۔(جاری ہے)
 

ایڈوکیٹ ذوالقرنین حیدر
About the Author: ایڈوکیٹ ذوالقرنین حیدر Read More Articles by ایڈوکیٹ ذوالقرنین حیدر: 3 Articles with 1010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.