درویش کا قول ہے تاریخ کی سب سے بڑی خاصیت
یہ ہوتی ہے کہ اسکا نقطہ کہیں رکا نہیں کرتا دھیرے دھیرے رواں دواں رہتا ہے۔
مشرق وسطی میں انقلابی طوفان نے اب تک لیبیا تیونس مصر اور بحرین کے مورثی
بادشاہوں کی شہنشاہیت کو خش و خاص کی طرح تہہ و بالہ کردیا۔ تبدیلی کی
تحریکوں میں امریکی شرپسندوں اور فتنہ گروں نے اپنے اوصاف حمیدہ کا خوب
جلوا دکھایا۔عراق اور افغانستان میں امریکہ اور ناٹو کے بہیمانہ کردار اور
مشرق وسطی کے4 ملکوں میں cia کی مشرقانہ کاروائیوں کے تناظر میں مسلمانوں
کو خدشات شکوک و شبہات اور وہم وسووں کی آکاش بیل نے جکڑ رکھا ہے کہ لیبیا
کے بعد امریکہ کا اگلا ٹارگٹ کیا ہوسکتا ہے؟ پاکستانی میڈیا میں کرنل قذافی
کے منفی آمرانہ کردار پر اہل علم و دانش نے غلیظ ترین تنقید کی جبکہ کسی نے
تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔کرنل قذافی کی ماضی میں پاکستان
کی دیوانہ وار عقیدت الفت و یگانگت کو فراموش کردیا گیا جو احسان فراموشی
اور بے حسی کی تاریخ ساز مثال ہے جسکا تذکرہ آگے چل کرہوگا۔امریکہ کا اگلا
شکار کیا ہوسکتا ہے اسے سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی کے بیابانوں میں سوچ و فکر
اوربصیرت کے گھوڑے دوڑانے ہونگے۔شاہ فاروق عیاش ترین بادشاہ کے نام سے یاد
کیا جاتا ہے۔1952 میں کرنل جمال ناصر نے شاہ فاروق کو چلتا کیا۔جمال ناصر
نے تین سال بعد دوسری عرب ریاستوں کو ساتھ ملا کر اسرائیلی قابضین سے نہر
سویز کا قبضہ واگزار کروانے کا بگل بجادیا۔وہ کسی حد تک کامیاب رہا۔ناصر
جمال کی ہمت مرداں اور بہادری نے عرب خطے کے عرب قوم پرست فوجی آفیسرز کو
شہہ دی کہ امریکن نواز عرب بادشاہوں کا تخت الٹ دیں۔1950تا1960 کی دہائی
میں لیبیا شام مصر اور بحرین میں انقلابات آئے۔سوویت یونین انکا سرپرست
تھا۔1990 میں سوویت یونین بکھر گیا۔یوں امریکہ روئے ارض کا سنگل سپرمین بن
گیا۔امریکہ کو نہ تو کوئی روکنے ٹوکنے والہ تھا اور نہ ہی کوئی امریکہ سے
پھڈا مول لینے کے لئے تیار تھا۔ امریکہ نے ایک طرف نہ تو سوشلسٹ ممالک کو
گھاس ڈالی تو دوسری طرف ماضی میں انکل سام کے خلاف سانس لینے والوں کو نہ
بخشا گیا۔دنیا امریکہ کے رحم و کرم پر تھی۔واشنگٹن نے عراق کو کویت پر قبضے
کی شہہ دی۔جونہی صدام نے کویت پر قبضہ کیا تو امریکہ 18 ملکوں کی مشترکہ
فوجی قوت کے ساتھ کویت کی آزادی کا ناٹک کرنے آدھمکا۔پہلی خلیجی جنگ میں بش
سینیر نے عراق پر ہولناک بمباری کروائی۔بڑا بش عراق پر قبضہ کرنے کا
خواہشمند تھا مگر فرانس کی بر وقت مخالفت نے بشوں کے خواب چکنا چور
کردئیے۔کویتی شیوخ کی گدی بچ گئی۔ جنگ کا سارا معاوضہ کویت نے ادا کیا۔ بڑے
عالمی دہشت گرد بش کا ادھورا خواب چھوٹے بش نے دوسری خلیجی جنگ میں پورا
کردیا۔بغداد و کابل پر قبضے کے بعد آج تک امریکی افواج نے کویتی سرزمین پر
اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔9/11 کے ہیجانی اور عصبانی کشمکش میں الزام عائد
کیا کہ صدام کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں اور اس نے القاعدہ کی پلٹن کی خدمات
لے رکھی ہیں۔دونوں الزامات لغو نکلے مگر بش کا جذبہ انتقام نہ بجھا اور
صدام کو پھانسی کے پھندے کا مہمان خصوصی بنادیااور پھانسی کی فلم طمطراق سے
الیکٹرانک میڈیا میں ریلیز کردی تاکہ دیگر مسلم حکمران امریکہ بہادر سے
دہشت زدہ رہیں اور کوئی دوبارہ سج دھج سے امریکہ کو آنکھ دکھانے کی جرات
کرسکے۔ قذافی 1969 میں ادریس السوطی کا تختہ الٹ کر تخت نشین ٹھرا۔اس نے
تیل کے چشموں کو سامراجی چنگل سے آزاد کروایا۔فرانس برطانیہ اور یورپ کی
ائل کمپنیاں بلاشرکت غیرے آئل چشموں کی مالک بنی ہوئی تھیں۔قذافی نے تیل کی
دولت کو جہاں لیبیا کے صحراؤں میں موٹر ویز اور بیابانوں کو نخلستان بنانے
پر خرچ کی تو وہیں وہ افریقی ملکوں plo کی تحریک ازادی اور مسلمان ملکوں کی
وسیع القلب امداد پر نچھاور کرتا رہا۔1970میںcia نے کیوبا کے کاسترو اور
کرنل قذافی کے قتل کا منصوبہ بنایا جو ناکام ہوگیا۔امریکہ اسے گستاخ سرکش
اور باغی سمجھتا تھا۔اسی تناظر میں1986 کو امریکی فضائیہ نے لیبیا پر شب
خون مارا۔21 دسمبر 1988 میں لندن سے130 کلومیٹر دور لاکر بی کے مقام پر
امریکی جہاز پین ایم دھماکے سے پھٹ گیا 277 مسافر اور عملے کے اراکین جل کر
خاکستر بن گئے۔امریکہ نے قذافی پر تباہی کا الزام عائد کیا۔2002 میں قزافی
نے امریکہ اور یورپ کی دہشت گردانہ الزام تراشیوں سے جان چھڑوانے کے لئے 2
ہزار703 ڈالر ہرجانے کی رقم ادا کردی یہ ہرجانہ 21صدی کا تاریخ ساز ہرجانہ
تھا اتنے ہیوی ویٹ ہرجانے کی مثال پہلے نہ تھی۔17 فروری2011 کو ایک عالمی
سازش کے تحت ناٹو نے ایک طرف لیبیا پر فضائی حملے کئے تو دوسری جانب امریکی
پٹھو باغیوں اور قذافی فورسز کے مابین جنگ شروع ہوگئی۔باغیوں کو استعماریوں
کی پلاننگ اور تابڑ توڑ فضائی حملوں کے کارن فتح ہوئی۔قذافی منظر عام سے
غائب ہوچکے ہیں۔امریکہ میں لیبیا کے ضبط شدہ ڈالرز6 بلین ڈالر میں سے 70
فیصد رقم کمال ڈھٹائی سے خود ہڑپ کرلی۔امام غزالی نے کہا تھا طاقتور یا
غنڈوں کی اپنی زبان فلسفہ اور سوچ و فکر ہوتی ہے۔برے اور اچھے کی تمیز میرٹ
کی بجائے زاتی پسند و ناپسند کے ترازو میں تول کر کی جاتی ہے۔ طاقتور کے
نذدیک دہشت گردی جمہوریت اور آمریت کے وہ معیارات وہ نہیں ہوتے جو ہمیں
سکھائے اور پڑھائے جاتے ہیں۔امریکہ نے قذافی کے لیبیا کو8000 فضائی حملوں
سے کھنڈرات کا ہڑپہ بنادیا۔ قذافی بادشاہ تھا ڈکٹیٹر تھا مگر کیا کوئی یہ
بتانا چاہیے گا کہ امریکن نواز عرب ممالک میں بھی تو شہنشاہیت کا راج ہے
مگر وہاں امن و امان معاشی استحکام اورسکون کا دور دورہ ہے۔اگر امریکی
ہرکارے عرب بادشاہ دہشت گرد نہیں ہیں تو پھر قذافی کا کیا جرم ہے؟ قرائن سے
نظر آتا ہے کہ لیبیا کے بعد شام کے بشار الاسد کی باری ہے۔شام بھی وہ ملک
ہے جو ہر دور میں امریکی نظریات کے سامنے سینہ سپر بن جاتے ہیں۔امت مسلمہ
کے وہ محمد شاہ رنگیلے حکمران اور بادشاہ جو امریکہ کے تلوے چاٹنے اور وائٹ
ہاؤس کی زیارت کو حج بیت اللہ کا درجہ دینے والے کوتاہ اندیش حکمرانوں کو
الرٹ رہنا چاہیے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب اور کس وقت انکی باری آجائے؟
سارتر نے کہا تھا کہ انکل سام اپنے استعمال شدہ دوستوں اور دشمنوں کا حساب
کتاب ساتھ ساتھ چکاتا رہتا ہے۔ امریکہ باری باری تمام مسلم ریاستوں ایران
پاکستان مڈل ایسٹ سنٹرل ایشیا کو بارود اور کشت و قتال کا تحفہ ضرور
دیگا۔قذافی امر تھا یا فرعون انصاف پرور تھا یا سرکش ڈکیٹ تھا کہ سخی ان
عوامل سے بالاتر ہوکر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ سچ طشت ازبان ہوتاہے
کہ وہ پاکستان کا مربی و محسن تھا۔نیویارک میں رہنے والے پاکستانی دانشور
سجاد اظہر ایشیائی سوسائٹی کے اجلاس میں مقالہ سنایا جو تصویر کا دوسرا رخ
عیاں کرتا ہے۔الطاف عباسی قائد عوام کے قریبی ساتھی تھے ۔ قذافی کے سربرائے
سلطنت بننے کے بعد بھٹو نے عباسی کو قذافی کے پاس بھیجا کہ وہ پاکستان کی
مدد کے لئے خصوصی کردار ادا کریں۔عباسی ہالینڈ میں ڈاکٹر قدیر سے ملنے گئے
تو وہ مایوس ہو چکے تھے کہ ایٹمی قوت کے لئے اربوں ڈالر درکار ہوتے
ہیں۔عباسی کے توسط سے ڈاکٹر خان نے بھٹو کو پیغام بھجوایا کہ وہ سیڈ منی کے
طور پر 100 ملین ڈالر کی رقم کا بندوبست کریں۔بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ
کیا تو بھٹو نے قذافی کو مدد کی اپیل کی کہ اگر ہمارے پاس100 ملین ڈالر نہ
ہوئے تو پاکستان کا وجود مٹ سکتا ہے۔قذافی نے بھٹو کے نورتن عباسی کو سو
ملین ڈالر کی رقم دے دی۔ عباسی لکھتے ہیں اگر قذافی سو ملین ڈالر کی رقم نہ
دیتا تو پاکستان کبھی ایٹمی قوت کا تاج سرپر سجانے کے قابل نہ
رہتا۔پاکستانی دانشوروں کو قذافی پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کریں کیونکہ وہ
ہمارا دکھ سکھ کا ساتھی تھا۔اگر قذافی کو امت مسلمہ کی پہلی جوہری قوت کا
بھٹو اور ڈاکٹر خان کے ساتھ معمار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔پاکستان کی
سیاسی عسکری اور حکومتی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ یہود و ہنود پر کڑی
نظریں۔چھوٹی سے غفلت جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔یہی وہ تاریخ کا دھارا ہے جس
کا تذکرہ درویش نے اپنے قول میں فصاحت و بلاغت سے کردیا ہے۔ |