بچپن کا ایک واقعہ ابھی تک یاد ہے محلے میں کسی خاتون کا
انتقال ہو گیا ۔ ناسمجھی اور کمسنی کا دور تھا گھونگھٹ بردار دلہنوں کو
دیکھنے اور ان کے پاس گھسنے کی طرح ہمیں میتیں بھی دیکھنے کا بڑا شوق تھا ۔
جہاں کسی جنازے کا پتہ چلا پہنچ جاتے تھے کہ میت کو دیکھیں نہ کوئی ڈر نہ
خوف عجب دور تھا ۔ اب اس میت والے گھر میں بھی گھس گئے جنازہ بالکل تیار
تھا پھر ایک عجیب منظر دیکھا ۔ مرحومہ کا خاوند آیا اور ڈولے کے سامنے بیٹھ
کر اپنے ہاتھ جوڑ دیئے کہ نیک بخت! حق مہر معاف کر دے ۔ اور اپنے آنسو
پونچھنے لگا ہمیں یہ تو سمجھ نہیں آئی کہ یہ حق مہر کیا ہوتا ہے اور یہ
آدمی کیوں معافی مانگ رہا ہے؟ مگر اس بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ یہ عورت تو
مر چکی ہے تو اب معاف کیسے کرے گی؟ یہ تو کسی بھی بات کا جواب ہی نہیں دے
سکتی تو پھر معافی کیسی؟
پھر وقت اور آگے بڑھا تو ایسے مزید مظاہر کے علاوہ جاننے والوں کے ساتھ
ساتھ خود اپنے خاندان میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ مرد کا انتقال
ہو گیا جنازہ تیار ہو گیا تو اس کی بیوہ کو پکڑ کر لایا گیا اور اس سے کہا
گیا کہ اپنے خاوند کو اپنا حق مہر معاف کر دو اور اسے ہلکا کر کے خدا حافظ
کہو ۔ اور یہ سبھی کوئی جوان آدمی نہیں تھے ان کی شادیوں کو تیس تیس+ برس
بیت چکے تھے ۔ کچھ بچوں کی بھی شادیاں کر چکے تھے اور حال یہ تھا کہ بیویوں
کا حق مہر ادا نہیں کیا تھا ۔ ذرا اور سمجھ آئی تو یہ سمجھ میں نہیں آتا
تھا کہ ایک آدمی شادی کرتا ہے گھر اور فیملی بناتا ہے بیوی بچوں کی ضروریات
و خواہشات پوری کرتا ہے اپنی محنت کی کمائی سے بیوی کو اچھا پہناتا اوڑھاتا
ہے اسے حسب مقدور تحائف و زیورات سے بھی لاد دیتا ہے مگر اس کا حق مہر ادا
نہیں کرتا ۔ اور محض اس ایک فریضے کی ادائیگی سے پہلو تہی کر کے وہ دنیا سے
رخصت ہوتے ہی اس کے مجرم کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور بیوی کا فرض ہوتا
ہے کہ وہ اسے معاف کرے ورنہ وہ بروز محشر اس کے قرض دار کی حیثیت سے اٹھایا
جائے گا ۔
پھر وجہ یہی سمجھ میں آئی کہ ہمارے معاشرے میں کسی بھی عورت کا شوہر سے
اپنا حق مہر طلب کرنا کسی گناہ یا گالی سے کم نہیں سمجھا جاتا اور فرض کر
لیا گیا ہے کہ حق مہر کی ادائیگی صرف طلاق ہی کی صورت میں ضروری ہے اور اگر
عورت نے خلع لی ہے تو پھر اتنا تکلف بھی نہیں ۔ حق مہر کی رقم اگر حسب
استطاعت ہے تب بھی اس کی ادائیگی کو بد شگونی متصور کیا جاتا ہے ۔ یا پھر
بعض والدین اپنی بیٹی کے تحفظ کی خاطر اتنی بھاری رقم حق مہر میں لکھوا
لیتے ہیں کہ مرد کے لئے اپنی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے وہ اضافی
رقم مہیا کرنا ممکن ہی نہیں ہو پاتا اور کہیں تو اس بارے میں سوچا ہی نہیں
جاتا ۔ اور مشاہدے میں آتا ہے کہ ازدواجی زندگی اگر تلخیوں اور ناچاقیوں کا
شکار ہو جائے تو بعض شاطر مرد جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ
عورت عاجز آ کر خلع لینے پر مجبور ہو جائے تاکہ بےغیرت حق مہر کی ادائیگی
سے بچ جائیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ شریعت میں انعقاد نکاح کے جو اعمال بیان کیے گئے ہیں
ان میں سے ایک واجب رکن مہر کی اہمیت کو سمجھا جائے اور شادی کے موقع پر حق
مہر مرد کی مالی حیثیت کے مطابق اتنا ہی رکھا جائے کہ وہ عام حالات میں ہی
بلکہ اپنی پہلی فرصت میں اسے با آسانی ادا کر سکے نا کہ جنازے پر معافیاں
تلافیاں ہوں ۔ اور یہ اتنا کم بھی نہیں ہونا چاہیے کہ طلاق عورت کو کسی
حلوے کی طرح تھالی میں رکھ کر ملے ۔ 1900ء کے اوائل میں متحدہ ہندوستان میں
ایک تولہ سونے کی قیمت سولہ روپے اور کچھ آنے تھی اور شاید اسی دور میں حق
مہر دو تولہ سونا کے مساوی رقم بتیس روپے چھ آنے مقرر کی گئی ہو جسے لوگ
سوا بتیس بھی کہتے ہیں اور ساڑھے بتیس بھی ۔ پھر وقت کے ساتھ روپے کی قدر
گھٹتی رہی سونے کی قیمت بڑھتی رہی مگر حق مہر سوا بتیس روپے ہی رہا اور لوگ
وہ تک اپنی بیویوں کو ادا نہیں کرتے تھے ۔ پوری ایک صدی بیت گئی مگر یہ رسم
برصغیر میں آج بھی کہیں نا کہیں جاری ہے یکسر ختم نہیں ہوئی اسے دین کا حصہ
بنا دیا گیا ہے ۔ لوگ حسب مقدور بری میں طلائی زیورات چڑھاتے ضرور ہیں مگر
سو سال پہلے کے سوا بتیس روپے کا حساب نہیں نکالتے کہ وہ آج کی کتنی رقم
بنتی ہے؟ شریعت نے مرد پر عورت کا یہ حق اسے عزت اور تحفظ دینے کے لئے رکھا
ہے نا کہ اسے سوا بتیس روپے میں دو کوڑی کا کر کے رکھنے کے لئے ۔ کم از کم
مہر فاطمی ؐ کو ہی مثال بنا لیا جاتا جو کہ پانچ سو درہم تھا ۔ سوا بتیس
روپے کا سحر آج بھی بہت سوں کے سر پر سوار ہے ٹوٹ کے نہیں دے رہا ۔
|