دِل دُکھاتی روداد اِک پرندے کی!

اپنے قارئین کے لۓ تھوڑی سی مبالغہ آرائ کے ساتھ تحریر کردہ ایک سچا واقعہ جو پرندوں کے نظریات، سوچ، احساسات وجذبات، ذہنی و جسمانی تکالیف کا بھرپورعکاس ہے۔

انسان جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھتا ہے وہ یہ بات یکسر بھول جاتا ہے یا شاید دانستہ نظرانداذ کر دیتا ہے کہ ہم پرندے اور جانور ہی کیا درخت، پھول اور پودے بھی اللہ عزوجل کی تخلیق کردہ زندہ مخلوق ہیں۔ ہم پرندوں اور جانوروں کو بھی اللہ سبحان و تعالٰی نے انہی احساسات و جذبات سے نوازا ہے جس پر انسان فخرونازمحسوس کرتا ہے۔ پیار، محبت، نفرت، حسد، دکھ و رنج اور صدمے کے تمام جذبات ہماری بھی روح اور جسم کا حصہ ہیں۔

آج میں آپ سب کو اپنی زندگی کی دکھ بھری کہانی سے آگاہ کرنا چاہتی ہوں۔ پہلے میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میں ایک آسٹریلئین مادہ ہوں۔ میرے مالکان بہت اچھے تھے۔ جب میں اور میرا ہمسفر ان کے گھرآۓ تب سے جیسے ہم ان کے خاندان کا حصہ ہی بن گۓ۔ وہ ہمارا ہر طرح سے بھرپور خیال رکھتے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اس خطا کے پتلے سے ناجانے کیسے ایک اتنی بڑی غلطی سر ذد ہو گئ کہ اسے خود بھی پتا نہ چلا۔ اس بات کا اندازہ اسے اسوقت ہوا جب بہت دیر ہو چکی تھی اور پانی حقیقی معنوں میں سر سے گزر چکا تھا۔

ہمارے مالک نے ہمارے لۓ ایک چھوٹے مگرصاف ستھرے مسکن کا انتظام کر رکھا تھا۔ میں اور میرا شوہر سکون سے اپنے گھر میں مکین تھے۔ وقت پر دانہ پانی دیا جاتا اور صفائ کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ان کے بچے سکول سے آتے ہی ہمارے پاس آ جاتے اور ہم سے ہمارا حال احوال دریافت کرتے اور باتیں کرتے۔ ان بچوں کا اتنا اپنائیت بھرا رویہ ہمیں مزید خوش کر دیتا۔

ایک دن ہمارے گھر کا دروازہ کھولا گیا اور ہم نے ایک اجنبی کو اپنے گھر میں داخل ہوتے دیکھا۔ وہ میری ہی طرح کی مادہ آسٹریلیئن طوطی تھی۔ شروع میں تو ہمیں بہت غصہ آیا جیسے انسان اپنا گھر خوش دلی سے کسی کے ساتھ بانٹنا پسند نہیں کرتا بالکل اسی طرح ہمیں بھی اپنا مسکن شیئر کرنا ناگوار تو گزرا مگر ہمارے بس میں کچھ نہ تھا۔

کچھ دنوں بعد آخر کار وہ لمحہ آگیا جس کا ہمیں شدت سے انتظار تھا۔ اللہ کی کرم نوازی ہوئ اور اس نے ہمیں والدین بننے کا شرف بخشا اور ہمارے ہاں تین انڈے ہوۓ۔ یہ خبرمیرے اور میرے شوہر کے لۓ نہایت خوشی کا باعث تھی۔ میرے شوہر نے شور مچا مچا کر مالکان کو بھی متوجہ کر لیا اور وہ بھی یہ جان کر خوب خوش ہوۓ۔

ہم اپنی خوشی میں یہ یکسر بھول گۓ کہ ہمارے گھر میں کوئ اور بھی ہے جس کو ہماری یہ خوشی ذرا بھا نہیں رہی ہو گی۔ اس مادہ طوطی نے تو اسکے بعد سے میرے ساتھ باقاعدہ لڑائ جھگڑا شروع کردیا۔ میں حتٰی الامکان اس سے دور رہنے کی کوشش کرتی، اکثر تو میرا شوہر بھی مدد کرتا۔ مگر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس طوطی کے اندرحسد اور جلن کا لاوہ پک رہا ہے۔

چند دنوں بعد دو انڈوں سے میرے بچے باہر آ گۓ۔ بس پھر کیا تھا میری اور میرے شوہر کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بچوں کی دیکھ بھال، انہی کھانا کھلانا وغیرہ۔

ایک رات میرا شوہر گھر سے باہر گیا ہوا تھا۔ میں اپنے بچوں کو سلا رہی تھی، جبھی تھکن کی وجہ سے مجھے بھی اونگ آگئ۔ رات کے اندھیرے میں، میں نے کسی کو اپنے گھر داخل ہوتے دیکھا۔ نیند کے باعث آنکھیں خمار ذدہ تھیں۔ میں نے یہی گمان کیا کہ میرا ہمسفر ہی ہو گا۔ چند لمحوں بعد وہ دوبارہ نہایت خاموشی سے باہر چلا گیا۔ مجھے حیرت ہوئ مگر میں نے ذیادہ دھیان نہ دیا۔ اگلے روز علی الصبح ہم نے دیکھا کہ ہمارا جو انڈا رہ گیا تھا وہ ٹوٹا ہوا تھا جیسے کسی نے جان بوجھ کر اسے نقصان پہنچایا ہو۔ میرا شک تو اس طوطی پر ہی گیا کہ اس نے ہی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ ہمارے مسکن میں گھس کر وار کرنے کی ٹھانی ہو گی بالکل کسی بزدل دشمن کی مانند۔ بہرحال ہم نے صبر سے کام لیا۔ مہینے بعد ہی ہمیں ہمارے بچے کافی بڑے محسوس ہونے لگے تھے۔

ایک دن میں اپنا دانہ کھانے میں مصروف تھی جبکہ میرا شوہر گھر پر بچوں کی حفاظت کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ یک دم مجھے اپنے گھر سے شور شرابے کی آواز آئ، جس میں ہمارے معصوم بچوں کی چیخیں کہیں دب کر رہ گئ تھیں۔ میں فوراً اپنے گھر کی طرف لپکی تو ایک عجیب منظر میری نظروں کے سامنے تھا۔ حاسد طوطی ہمارے بچوں پر حملہ آور تھی اور میرا شوہراپنی سی کوشش میں مصروف تھا کہ انہیں بچا سکے۔ میری تو آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا۔ میں نے ایک ذبردست حملہ اپنی مخالف پر کیا جو میری موجودگی سے کسی قدر غافل تھی۔ بس پھر کیا تھا یوں سمجھیں میدان جنگ میں گھمسان کا رن پڑا۔ میرا شوہر فوراً ہی باہر چلا گیا۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ چلیں آپ کی الجھن کو سلجھا دوں کہ نر طوطے اپنے آپ کو ایسے موقعوں پر بالکل الگ تھلگ کر لیتے ہیں جب مادہ طوطیوں میں لڑائ ہو رہی ہو۔

بس پھر کیا تھا مجھے نہ صرف اپنا دفاع آپ کرنا تھا بلکہ اپنے بچوں کو مزید کسی نقصان سے بچانا کی ذمہ داری بھی میرے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ اسی لڑائ میں مجھے بھی کافی زخم آۓ۔ گو میں طاقت میں اپنے مخالف کے بہت کمزور تھی پھر بھی رب تعالٰی کی مدد سے میں اس ظالم طوطی کو گھر سے بھگانے میں کامیاب ہو گئ۔ میرا یہ سب کرنا بے سود ٹھہرا تھا کیونکہ ہم پر قیامت ٹوٹ چکی تھی۔ میں تو زخمی ہوئ ہی تھی مگر میرے بچوں پر جس وحشیانہ انداذ میں حملہ کیا گیا تھا وہ ننھی جانیں اس تکلیف اور گہرے زخموں کا مقابلہ نہ کر پائیں اور ہمارے دونوں بچے اللہ کو پیارے ہوگۓ۔

دو دن بعد جب ہمارے مالک نے محسوس کیا کہ اب تک بچوں کو اپنے گھر سے باہر آ جانا چاہیۓ مگر وہ نہیں آ رہے تو انہوں نے ہمارے گھر کی صفائ کی جو وہ بچوں کی وجہ سے نہیں کر پا رہے تھے۔ اس دن ان پر منکشف ہوا کہ ہمارے بچے تو مارے جا چکے ہیں۔ تب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے دوسری طوطی کو ہمارے گھر میں جگہ دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔ انہوں نے اس طوطی کو فوراً دوسرے گھر منتقل کر دیا۔ مگر ایسا کرنا بے سود رہا کیونکہ جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔

بچوں کی موت کے صدمے نے مجھے جیسے توڑ کر رکھ دیا تھا، کھانا کھانا اچھا لگتا تھا نہ شوہر سے بات چیت کرنا۔ آخر کار شدتِ غم کی وجہ سے میری ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ میرے مالک نے جب یہ بات محسوس کی تو مجھے جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے گۓ۔ جس نے بتایا کہ مجھے فالج ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ مجھے ان کے پاس ہی چھوڑ دیا جاۓ۔ انہوں نے مجھے ایک بڑے سے پنجرے میں رکھ لیا جہاں اور بھی پرندے مختلف بیماریوں کی وجہ سے رکھے ہوۓ تھے۔

وہ دن اور آج کا دن میرا مسکن یہی ہے۔ آج بھی مجھے اپنا پیارا گھر، شوہر اور بچے یاد آتے ہیں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ کاش انسان اس بات سے آگاہ ہو کہ ہمارے جذبات و احساسات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے اور ہم بھی ان ہی کی طرح حسد اور جلن کی بیماری میں مبتلا ہوکر دوسروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 47 Articles with 47747 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More