سابق صدرِ پاکستان اور پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما
جناب آصف زرداری نے فرمایا ہے کہ عمران خان کی قومی اداروں پر تنقید ناقابل
برداشت ہے اور پر اس سخت ایکشن لیا جائے گا ۔ اگرچہ آصف زرداری کو مفاہمت
کا بادشاہ مانا جاتا ہے اور مشہور ہے کہ وہ اقتدار بچانے کے لیے ہر حد تک
جا سکتے ہیں لیکن یہ بیان پیپلز پارٹی کی عمومی پالیسی اور اینٹی اسٹبلشمنٹ
سیاست کے خلاف ہے ۔ ضرور اس کے پیچھے کوئی خاص بات یا حکومتی حکمت عملی ہے
جو جلد ظاہر ہونے والی ہے ۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے توفوج اور پیپلز
پارٹی کی کبھی نہیں بنی یا آج کل کی رائج اصطلاح میں ایک پیج پر کبھی نہیں
آئے ۔ پیپلز پارٹی کے بانی اور قائد ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی بھی فوجی
حکومت کے دوران ہوئی او ر بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں کا قلع قمع کرنے میں
بھی پس پردہ طاقتوں کا کردار واضح تھا ۔ عوامی بالا دستی اوراینٹی
اسٹبشلمنٹ سوچ بے نظیر بھٹو کی سیاست کا مرکز و محور تھی بلکہ ان کا سب سے
بڑا سیاسی نعرہ تھا۔ زرداری صاحب کویہ بات بھولی نہیں ہو گی کہ پیپلز پارٹی
کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے نواز شریف کو میدانِ سیاست میں لانے والے
جرنل ضیا الحق تھے اور انھیں وزیر اعظم بنانے اوربے نظیر کو ناکام کرنے کے
لیے جنرل حمید گل اور ان کے متعلقہ ادارے کا کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔جنرل
حمید آئی جی آئی بنانے اور ہم خیال سیاست دانوں جس میں نوز شریف سر فہرست
تھے میں نوٹوں کے بریف کیس تقسیم کرنے سے کبھی منکر نہیں ہوئے بلکہ وہ اس
پر فخر کرتے تھے ۔ماضی میں پیپلز پارٹی نے اس پر قانونی کاروائی کرنے کا
بھی عندیہ دیا تھا مگر شاید زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی آڑے آگئی اور اس
پر عمل در آمد نہیں ہوا ۔ اس سے بھی پہلے پیپلز پارٹی کے قیام کی بات کی
جائے تو اس کی ابتدا جنرل ایوب کی مخالفت کی بنا پر ہوئی تھی ۔ فوجی حکومت
سے الگ ہونے اور اس کی مخالفت کر کے ذولفقار علی بھٹو نے اپنی عوامی سیاست
کا آغاز کیا تھا ۔ ان دنوں ایوب خان کے معائدہ تاشقند کا وہ ہرجگہ ذکر کرتے
او ر ہمیشہ اس معائدے کی خفیہ شقوں کا ذکر کر کے سسپنس پیدا کرنے کی کوشش
کرتے ۔ وہ خفیہ شقیں آج تک طشت از بام نہیں ہوئیں یا پھر سارے فسانے میں
ایسی کوئی بات ہی نہیں تھی ۔ بہر حال بھٹو صاحب نے اس معائدے سے اپنی سیاست
خوب چمکائی ۔ حالانکہ وہ خود اس وفد کا حصہ تھے جس نے یہ معائدہ کیا تھا ۔بعد
میں جنرل یحیٰ خان کی مدد سے بھٹو صاحب کی حکومت قائم ہوئی ۔ اقتدار میں
آتے ہی انھوں نے کچھ عرصے تک فوجی جرنیلوں پراپنا رُعب داب قائم رکھا اور
کچھ سینئر افسروں کو فوج سے برخاست بھی کروایا ۔ فوج بھی اس وقت سقوطِ
ڈھاکہ کی وجہ سے دباؤ میں تھی کیونکہ عوام یحیٰ خان اور اس کے ٹولے کو اس
شکست کا ذمہ دار سمجھتی تھی۔ نوّے ہزار فوجی بھارت میں پابند سلاسل تھے
اورفوج کا مورال ڈاؤن تھا ۔ وقت بدلا اور وہی جرنیل جو بھٹو کو سب سے
وفادار لگا اور اسے چیف آف آرمی سٹاف بنایا اس کی حکومت کا تختہ الٹ کر
اقتدار کے سنگھاسن پر ایسا بیٹھا کہ گیارہ بر س بعد ناگہانی حادثے میں جاں
بحق ہونے کے بعد اس کے اقتدارکا سورج غروب ہوا۔اس دوران اس نے ایک متنازعہ
عدالتی کیس کے ذریعہ ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا ۔ضیا الحق
کے گیارہ برسوں میں پیپلز پارٹی کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر روا نہیں
رکھی گئی لیکن تما م تر ریاستی مشینری کے استعمال کے باوجود بھٹو کا کرشمہ
عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا ۔ لہذا ضیا الحق کے انتقال کے فوری بعد ہونے
والے انتخابات میں جو پارٹی جیت کر برسرِ اقتدار آئی وہ کوئی اور نہیں،
بھٹو کی پیپلز پارٹی تھی۔ لیکن ا س مرتبہ اقتدار کا ہما بھٹو کی ذہین و
فطین بیٹی بے نظیر بھٹو کے سر پر بیٹھا ۔ وہ الگ بات ہے کہ اقتدار تو مل
گیا لیکن اختیار کبھی نہیں ملا کیونکہ اسے سیکورٹی رسک قرار دے کے منتخب
وزیر اعظم ہونے کے باوجو د اہم قومی رازوں سے دور رکھا گیا ۔بلکہ دنوں
مرتبہ اسے قبل از وقت چلتا کیا گیا کبھی صدر غلام اسحق خان کے ہاتھوں اور
کبھی پیپلز پارٹی کے اپنے جیالے صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں ۔ اقتدار کے
ایوانوں میں طاقت سب چیزوں پر حاوی رہی ۔اس طاقت کے آگے بے نظیر بھٹو ہی بے
بس نظر نہیں آئی نواز شریف سمیت کوئی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری
نہیں کر سکااور یہی بے نظیر سمیت ہر وزیر اعظم کا سب بڑا شکوہ تھا ۔ بے
نظیر عوامی بالا دستی اور جمہوری حقوق کے لیے تاحیات بر سرِ پیکار رہی حتی
کہ اس نے اپنی جان دے دی لیکن جنرل مشرف سمیت کسی طالع آزما سے سمجھوتہ
نہیں کیا ۔ لیکن جمہور کشی کا یہ سلسلہ رُکا نہیں ۔ نواز شریف ، یوسف رضا
گیلانی اور عمران خان نہ صرف دورانِ اقتدار صرف بے بس نظر آئے بلکہ قبل از
وقت گھر بھیج دیے گئے ۔جو عوام کی نظر میں ہیرو تھے اور عوام کے ووٹ اور
اعتماد سے وزیر اعظم کی کر سی پر بٹھائے گئے تھے وہ ہیروسے زیرو بنا کر
سلاخوں کے پیچھے پہنچادیے گئے۔ عوام کی پسند اور ان کی اُمنگیں بھی نظر
انداز کی گئیں ۔ان کا احتجاج بھی بے کار ہے کیونکہ ا س معاشرے میں جمہوری
روایات کا پاس نہیں ہے ۔ میں جب یہ تحریرلکھ رہا تھا تواطلاع ملی کہ تحریک
انصاف کے چیئر مین عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے
جو کچھ ہو رہا تھا اس کے تناظر میں یہ کوئی خلاف توقع خبر نہیں ہے ۔ آج
نہیں تو کل یہ ہونا ہی تھا ۔ لیکن جس طریقے سے گرفتاری ہوئی وہ اغوا بالجبر
کا منظر نظر آتا ہے ۔ اتنی زور آوری اور تشدد کے ساتھ جس میں کورٹ کی
کھڑکیا ں دروازے توڑے جائیں اور وکیلوں کے سر پھاڑ دیے جائیں اسے صرف
گرفتاری کہنا غلط ہو گا ۔ عمران خان پر جو بھی مقدمے ہیں ان پر کاروائی
ضرور کریں مگر پولیس اور رینجرز کا یہ رویہ کسی بھی مہذب شخص کے لیے ہر گز
قابل قبول نہیں ہے چہ جائیکہ وہ اتنا مقبول لیڈر بھی ہو۔یہاں آسٹریلیا میں
پاکستانیوں نے یہ خبر سنی تو بے چین ہو کر سڑکوں پر نکل آئے بلکہ یہ بے
چینی پوری دنیا میں پاکستانیوں کو ذہن و دل میں ہے مگر حکمران اس سے آنکھیں
بند کیے ہوئے ہیں جو ان کی بے حسی کی عکاس ہے ۔ آج سے قریباً ساٹھ برس قبل
فیض احمد فیضؔ نے یہ شعر لکھا تھا۔
نثارتری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ نہ کوئی سر اٹھا کر چلے
ساٹھ برس گزر گئے مگر ہمارے وطن کے حالت نہیں بدلے اب بھی جبرہر شے پر حاوی
ہے اور عوام بے بس ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں جمہوری طاقت ہے اور نہ قانون
اورانصاف کا حصول ۔ قانون سے ماورا معاشرے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے
اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اخلاقی اور قانونی حدوں کو پھلانگ کر ظلم و جبر
،لاقانونیت اور عوام کی بے بسی کے عکاس بن جاتے ہیں ۔ ایسا معاشرہ طاقت ور
کے لیے جنت اور کمزور کے لیے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے ۔ زرداری صاحب ہوں
یا شہباز شریف یامولانا فضل الرحمن سب کو یا د رکھنا چائیے کہ ملک ہے تو ان
کی سیاست اور حکومت ہے ۔ آئین ہے تو ان کی حکمرانی قائم رہ سکتی ہے اور
عوام ہے تو یہ عہدے ہیں۔ اگر آئین کی بالا دستی قائم نہیں ہو گی تو یہ
انجام صرف ایک جماعت تک محدود نہیں رہے گا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ بس اس
سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
|