کیا بنے گا وطن عزیز کا؟

ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر

قومی احتساب بیورو یعنی نیب نے اربوں روپے کی خرد بردکے القادر کرپشن کیس میں عمران خان کو گرفتار کیا۔ سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کے طریقہ کار کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ، ان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔ جج صاحبان کا کہنا تھا کہ عدالت کے احاطے سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ جب رینجرز کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی، اس وقت بھی غیر جانبدار صحافی اور ماہرین قانون کا کہنا تھا کہ یہ گرفتاری درست سہی، لیکن اس کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے ، اس عدالتی فیصلے کو درست کہا جا رہا ہے۔ البتہ غیرجانبدار صحافی اور ماہرین قانون چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمر عطا بندیال کے کنڈکٹ/ طرز عمل پر سوالات اٹھا رہے ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ جسٹس بندیال کا رویہ عدالتی ضابطہ اخلا ق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جس طرح چیف جسٹس نے عمران خان کو عدالت میں دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ یا رہائی کا فیصلہ سنانے کے بعد عمران خان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس طرز عمل کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین ایک طرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کررہے ہیں۔ دوسری طرف یہ کہہ رہے کہ ساٹھ ارب روپے کے کیس میں زیر حراست ملزم کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنا اور اس کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرنا چیف جسٹس آف پاکستان کو زیب نہیں دیتا۔ چیف جسٹس کی اس بات پر بھی اعتراض کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے سرکاری اور نجی املاک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ۔ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔پولیس اہلکار اور شہری زخمی ہوئے، لیکن چیف جسٹس نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ رہائی کا فیصلہ دینے کے بعد چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا کہ عدالت کی خواہش ہے کہ آپ اپنے کارکنوں کے رویے کی مذمت کریں۔ کہا جا رہا ہے کہ عدالت کا کام آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے، نہ کہ خواہش کا اظہار کرنا ۔ یقینا صحافتی اور سیاسی تجزیوں کا یہ سلسلہ کچھ دن جاری رہے گا۔ اس معاملے کے عدالتی اور سیاسی پہلووں پربحث کرنا آج کے کالم کا موضوع نہیں ہے۔ میرے نزدیک اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے شرپسند حامیوں نے ملک میں جو دنگا فساد اور جلاو گھیراو کیا ، اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ نجی اور سرکاری املاک کو اربوں روپے کا جو نقصان پہنچایا گیا اس کا ازالہ کون کرئے گا ؟ تعلیمی ادارے بند ہونے اور امتحانات ملتوی ہونے سے طالب علموں کا جو نقصان ہوا وہ کیسے پورا ہو گا؟۔ یہ اعداد و شمار بھی سامنے آ رہے کہ کاروباری طبقے کو اس صورتحال سے اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ اس نقصان کی ذمہ داری کون لے گا؟ دنیا بھر میں پاکستان کا تاثر پہلے ہی بہت زیادہ اچھا نہیں ہے۔اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ اس شرپسندی سے ملک کا جو منفی تاثر دنیا کو گیا ، اس کے ہمارے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

پچھلے چند دن ہم نے ٹیلی ویژن چینلوں پر مناظر دیکھے ہیں وہ انتہائی قابل تشویش ہیں۔ نجی اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، جلاو گھیراو، لوٹ مار کے یہ مناظر 2014 کے دھرنے کی یاد دلاتے رہے۔ اس وقت بھی سرکاری اور نجی املاک کو تباہ و برباد کر دیا گیا تھا۔ اس مرتبہ لیکن تحریک انصاف کے شرپسندوں نے جی۔ ایچ ۔کیو اور کور کمانڈر ہاوس کو بھی نہیں بخشا۔یہ مناظر دیکھ کر آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ نجانے اس ملک کا کیا بنے گا؟ اس میں بسنے والے پر امن شہریوں کا کیا مستقبل ہو گا؟ اس ملک کے حالات کی اصلاح احوال کس طرح ممکن ہو گی؟ یقینا انہی مخدوش ملکی حالات کے پیش نظر پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس ملک کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔جو پیچھے رہ گئے ہیں، ان کی اکثریت بھی انتظار میں ہے کہ کب موقع ملے اور وہ بیرون ملک جا کر اپنا مستقبل سنوار سکیں۔

القادر ٹرسٹ کیس کے بارے میں صحافی اور ماہرین قانون بتاتے ہیں کہ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ یہ ساٹھ ارب روپے کی خرد برد کا معاملہ ہے۔بطور وزیر اعظم عمران خان نے ساٹھ ارب روپے حکومتی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے ایک کاروباری شخص کی جھولی میں ڈال دئیے۔ عمران خان کی گرفتاری اسی کیس میں عمل میں آئی تھی۔ پاکستان کی سیاست کے تناظر میں کسی سیاست دان کی گرفتاری کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔مقدمات، گرفتاریاں، جیلیں پاکستان کی سیاست کا معمول ہیں۔ بڑے بڑے سیاست دانوں نے یہ سب کچھ بھگتا۔ عمران خان مقبول سہی لیکن ان سے کہیں زیادہ مقبول سیاست دان بھی یہ سب کچھ سہتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے۔ جیل میں ڈالے گئے۔ یہاں تک کہ انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ نوازشریف نے مقدمات اور جیلیں بھگتیں۔ آصف زرداری بھی برسوں جیل میں رہے۔ شاہد خاقان عباسی بھی طویل حراست میں رہے۔ سیاست دانوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جنہوں نے جائز ، ناجائز مقدمات اور قید بھگتی۔ ہر گرفتاری پر کارکن سڑکوں پر آئے۔ احتجاج ہوئے۔مگر کم ہی شرپسندی کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ عمران خان کی گرفتاری کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ لیکن اس گرفتاری پر جس طرح دنگا فساد مچایا گیا وہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلا دیا گیا۔ پشاور ہی میں مویشی منڈی کو آگ لگا ئی گئی۔ لاہور میں کور کمانڈر کے گھر کو جلا دیا گیا اور لوٹ مار کی گئی۔ بدبختوں نے اس گھر سے ملحق مسجد میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ گاڑیوں کے شو روم کو آگ لگا دی گئی۔مختلف شہروں میں سڑکوں شاہراہوں ، عمارتوں،گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا کہ ایدھی ایمبولینس سے مریضوں کو نکال کر گاڑی کو آگ لگا دی گئی۔ کاش عدالت عظمیٰ عمران خان کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ اس صورتحال کا نوٹس بھی لیتی۔

افسوس کہ اس سارے عرصے میں ریاستی رٹ کہیں دکھائی نہیں دی۔ سیاسی کارکن املاک کو جلاتے رہے۔ ڈنڈے سوٹے اٹھا کر دندناتے اور لوگوں کو ہراساں کرتے رہے۔ مریضوں کو ایمبولینس سے نکال کر گاڑی کو نقصان پہنچاتے رہے۔ لوٹ مار کرتے رہے۔ لیکن انہیں کسی نے نہیں روکا۔اب تحریک انصاف کے رہنماوں کی آڈیو لیکس بھی سامنے آچکی ہیں۔ جس میں وہ اپنے کارکنوں کو ماردھاڑ کی ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ سنتے ہیں کہ وڈیوز کی مدد سے شرپسند عناصر کی نشاندہی بھی کر لی گئی ہے۔لازم ہے کہ جلاو گھیراو کرنے والوں کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح کے جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے۔ اب بھی قانون حرکت میں نہیں آتا، مجرموں کو سزا ئیں نہیں دی جاتیں، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس ملک میں قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کا قانون رائج ہے۔ ہماری عسکری اسٹبلشمنٹ کو بھی اس سارے معاملے پر غور کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کے دنگا فساد کے بعد آئی۔ ایس۔ پی۔ آر نے بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں جو ہمارا دشمن نہیں کر سکا وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے ایک گروہ نے کر دکھایا۔یہ بات درست سہی ، لیکن کیا اس گھناونے جرم میں وہ بھی حصہ دار نہیں ہیں جنہوں نے نہایت اہتمام سے پروجیکٹ عمران لانچ کیا تھا۔ لازم ہے کہ اس پہلو پر غور کیا جائے اور سبق سیکھا جائے۔

Sidra Malik
About the Author: Sidra Malik Read More Articles by Sidra Malik: 164 Articles with 119401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.