بابری مسجد پر عدالت عظمیٰ کا گول مول فیصلہ نہ آتا تو
مہاراشٹر کے سیاسی بحران پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو سمجھنے میں بہت دقت پیش
آتی ۔سپریم کورٹ نے اس بار بھی وہی کیا جو بابری مسجد کے وقت کیا تھا ۔اس
وقت سب سے پہلے یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو
مسمار کرکے نہیں کی گئی تھی ۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوگئے کیونکہ اس بیان نے
رام مندر کی تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس کے بعد یہ اعتراف کہ وہاں پر
نماز ہورہی تھی اور مورتیاں رکھ کر اس کو قفل لگانا غلط تھا۔ا س بات نے
مسلمانوں کو باغ باغ کردیا ۔ سپریم کورٹ یہیں نہیں رکا بلکہ آگے بڑھ کر یہ
بھی کہہ دیا کہ بابری مسجد کو شہید کرنا آئین کوزمین بوس کے مترادف تھا ۔
اب تو مسلمان اپنی مسجد کو بنانے کا خواب بننے لگے مگر اچانک ان کی امیدوں
پر اوس پڑ گئی جب ان سارے قصورواروں کو سزا دینے کے بجائے بابری مسجد کی
زمین سے نواز دیا گیا۔ یہ زخم دینے کے بعد اس کی مرہم پٹی ّ کے لیے
مسلمانوں کی نئی مسجد تعمیر کرنے کی خاطر متبادل مقام پر ایک زمین کا ٹکڑا
تھما دیا گیا جس کو لینے سے امت نے انکار کردیا۔ اس طرح مسلمان اپنے موقف
کے درست ہونے کا جھنجھنا بجاتے رہے اور ہندو مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار
ہو جانے پر خوشیاں منانے لگے۔ بی جے پی کو اگلے قومی انتخاب کے لیے رام
مندر پکڑا دیا گیا۔
بابری مسجد کے فیصلے کا مہاراشٹر سے موازنہ کریں تو کمال کی مشابہت نظر
آتی ہے۔ یہاں سب سے پہلے کہا گیا کہ گورنر کا اقدام غلط تھا ۔ یعنی موجودہ
حکومت کی داغ بیل ڈالنے والے بھگت سنگھ کوشیاری کو عدالت نے غلط ٹھہرا دیا۔
اس کے بعد اسپیکر کا تقرر کی بابت حکم دیا کہ وہ بھی درست نہیں تھا ۔ اس
اسپیکر کو ذریعہ ادھو ٹھاکرے کے حامی وہپ کو ہٹا کر نیا وہپ نامزد کرنے میں
اسپیکر کی غلطی کا اعتراف بھی کیا گیا یعنی ان ساری بنیادوں کو اکھاڑ
پھینکا گیا جن کے بل بوتے پر نئی سرکار عالمِ وجود میں آئی ۔ اس کے باوجود
ان میں سے کسی کو سزا نہیں دی گئی ۔ ان غلطیوں کے ذریعہ قائم ہونے والی
حکومت کو برخواست کرنے کے بجائے اس غیر قانونی اقتدار کوجاری و ساری رکھنے
کا پروانہ عطا کردیاگیا ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک ناریل کے اوپر والا
کاتھا ادھو ٹھاکرے کو پکڑا کر اندر کا ناریل پانی شندے کو پلادیا گیا اور
ملائی دیویندر فڈنویس کوتھما دی گئی۔ اس طرح سبھی کو حسبِ حیثیت کچھ نہ کچھ
ملا لیکن حقیقی فائدہ اصحاب اقتدار کی جھولی میں چلا گیا۔ ان دونوں فیصلوں
میں سپریم کورٹ نے نظام جبر میں مصلحت کوشی کا جو درس دیا ہے اس پر ثاقب
لکھنوی کا یہ مشہور شعر صادق آتا ہے؎
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
عدلیہ کی تاریخ میں ایسے فیصلے بھی ہوتے ہیں جنہیں نقرئی حروف سے لکھا جاتا
ہےلیکن مذکورہ بالا فیصلوں کو جلیبی فیصلہ کہنا چاہیے ۔ جلیبی ایک ایسی
مٹھائی ہے جس کا سرا دیکھنے والے یا کھانے والے کو تو دور بنانے والے کو
بھی نہیں ملتا ۔ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ شروع کہاں سے ہوتی ہے اور اس کا
خاتمہ کہاں پر ہوتا ہے؟ مثلاً16 ؍ ارکانِ اسمبلی کی رکنیت کاتنازع سے بات
شروع ہوئی ۔ اس پر عدالت سے رجوع کیا گیا تو اس نے اسے یشودھا بین کی مانند
معلق کردیا۔ اس سے امید بندھی کہ دیر یا سویر عدالت اس معاملہ میں منصفانہ
موقف اختیار کرے گی۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن
انتظار بسیار کے بعد عدالت نے جو ارشاد فرمایا اس سے ’دل کے ارماں آنسووں
میں بہہ گئے‘۔ عدالت نے پہلے تو یہ کہا کہ اس کا فیصلہ کرنا اس کے دائرۂ
اختیار میں نہیں ہے۔ عدلیہ پر یہ انکشاف بہت تاخیر سے ہوا لیکن یہ اختیار
اس نے ایوان کے اسپیکر کو تفویض کردیا ۔
عدالت یہ حکم دیتے وقت بھول گئی کہ اس فیصلے میں کچھ دیر پہلے خود اس نے
مذکورہ اسپیکر کے تقرر سمیت اس کے وہپ کے تعین کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ جو اسپیکر غیر قانونی طریقہ سے مقرر کیا گیا اور وہ ایک
غیر آئینی حرکت کا ارتکاب بھی کرچکا ہےآگے اس سے درست فیصلے کی توقع کیسے
کی جائے؟ اس پر یکطرفہ تماشا یہ ہے کہ اسپیکر کے تقرر کو سات ججوں کو بینچ
کے حوالے کرکے اس کے سر پر بھی تلوار لٹکا دی گئی۔ اب اسے جلیبی نہیں تو
کیا کہا جائے؟ ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس جیسے اقتدار پر فائز تنومند
لوگوں کے لیے یہ مٹھائی رحمت اور ادھو ٹھاکرے و شرد پوار جیسے سرکار سے
محروم بیمارحضرات کے لیے یہ جلیبی سراپا زحمت بن گئی ۔ سچ تو یہ ہے باغباں
اور صیاد کے درمیان توازن قائم رکھنے کے چکر میں عدلیہ نے خود اپنا وقار
خاک میں ملا دیا ہے۔ اس کی حالت اس شعر کی مانند ہوگئی ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
چیف جسٹس چندر چوڑ نے اپنی بزدلی کا ٹھیکرا سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے
سر پر پھوڑ دیا۔ اس سے قبل دورانِ سماعت بھی انہوں نے وکیل استغاثہ سے سوال
کیا تھا کہ آپ کے مؤکل نے ازخود استعفیٰ دے دیا ایسے میں کیا آپ چاہتے
ہیں کہ ہم انہیں بحال کردیں؟ آخری فیصلے میں بھی یہ بات دوہرائی گئی جس سے
عدالت کی لاچاری کا اظہار ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اگر ادھو ٹھاکرے
استعفیٰ نہ دیتے تو عدالت ان کی حکومت کو بحال کردیتی۔ ویسے یہ بات شرد
پوار نے بھی کہی تھی کہ ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دینے میں جلدبازی دکھائی
لیکن عزتِ نفس بھی تو کوئی چیز ہے؟ ادھو ٹھاکرے نے دیکھا کہ ایک طرف گورنر
ہاوس سازشوں کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کے اشارے پر ای ڈی والے ان کے
ایک ایک ساتھی کو بلیک میل کرکے توڑ رہے ہیں۔ ایک دشمن کو اسپیکر بنادیا
گیا اور اس نے وہپ کو بھی بدل دیا ۔ عدالت فوری مداخلت کے بجائے ٹال مٹول
کررہی ہے۔ ایسے میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ناممکن ہے اس لیے مجبوراً
استعفیٰ دے دیا ۔ وہ اگر اسمبلی کے فلور پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں
ناکام ہوجاتے تب تو عدالت کے لیے ایک ایسے وزیر اعلیٰ کو بحال کرنا ناممکن
ہوجاتا جس کا اقلیت میں جانا ثابت ہو چکا ہو۔ اس لیے یہ بہانے بازی نہایت
کمزور ہے۔
بابری مسجد کے فیصلے پر سب سے اچھا تبصرہ معروف صحافی نرنجن ٹکلے نے کیا
تھا ۔ انہوں نے اے بی پی چینل سے کہا تھا کہ وہ تو اچھا ہوا جو رام چندر جی
عدالت عظمیٰ میں نہیں گئے ورنہ ان سے کہا جاتا کہ ہم یہ مانتے ہیں سیتا آپ
کی زوجہ ہیں مگر چونکہ وہ اتنے سالوں سے راون کی تحویل میں ہیں اس لیے وہیں
رہیں گی۔ اس تلخ تبصرے کو نشر کرنے کی جرأت اے بی پی نہیں کرسکا ۔ اس
متنازع فیصلے پر سب سے زیادہ خوشی منانے وا لوں میں بی جے پی پیش پیش تھی
کیونکہ یہ اس کی سازش کا نتیجہ تھا مگر شیوسینا بھی پیچھے نہیں تھی ۔ اس
لیے کہ اس نے ہمیشہ ہی رام مندر کے مسئلہ پر سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔
دیگر سیاسی جماعتوں پر دباو کا عالم یہ تھا کہ کوئی اس پر تنقید کرنے کی
ہمت نہیں جٹا پارہا تھا ۔ یہاں تک کہ سابق مرکزی وزیر خارجہ سلمان خورشید
نے اس فیصلے کی تعریف و توصیف میں کتاب لکھ ماری ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے
باوجود انہیں سنگھ پریوار کے غیض و غضب کا شکار ہونا پڑا۔ اس وقت یہ لوگ
گوں ناگوں وجوہات کے سبب عدلیہ کے غلط استعمال کو محسوس نہیں کر پائے مگر
اب اسی طرح کے دوسرے فیصلے ان کا دماغ درست کردیا ہے۔ عدلیہ کے احترام میں
اس کے سارے فیصلوں کو تنقید سے بالاتر سمجھنے والوں کی آنکھیں کھل گئی
ہیں۔ اونٹ پہاڑ کے بیچے آگیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے جیسے لوگوں کے لیےمعین الحسن
جذبی نے کیا خوب کہا ہے؎
اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
(۰۰۰۰۰۰جاری )
.
|