حُسن اتفاق یا مکافات عمل

 احتساب عدالت میں عمران خان کی پہلی پیشی کے موقع پرچشم فلک نے حیران کن چیزوں کودیکھا جن کو آپ حُسن اتفاق کہہ لیں یا پھر مکافات عمل۔ اس مقدمہ سے منسلک افراد بالکل وہی ہیںجو نوازشریف کے خلاف مقدمات میں تھے۔ مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج بھی وہی، سرکاری اور پرائیویٹ وکیل بھی وہی لیکن اس مرتبہ صرف ملزم تبدیل ہوا۔جیسا کہ جج محمد بشیر، نیب کے ڈپٹی پراسیکوٹر مظفر عباسی اور خواجہ حارث بھی وہی ہیں لیکن اس مرتبہ ملزم نواز شریف نہیں بلکہ عمران خان ہیں۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ پہلے نواز شریف اور اب عمران خان کی طرف سے عدالت میں پیش ہو ئے۔جج محمد بشیر یہ وہی جج ہیں جنھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔اسی طرح پی ٹی آئی کے دور حکومت میں دسمبر 2018 میں نواز شریف کو نیب کے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی تو اس مقدمہ میں نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل مظفر عباسی پیش ہورہے تھے۔اور نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملزمقدمہ میں سز ا سنائی جانے کے وقت پی ٹی آئی حکومت نے نیب اور بالخصوص ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل مظفر عباسی کی کارکردگی کو خوب سراہا تھا ۔ پھر وقت کا پہیہ گھوما اوراور آج وہی سرکاری وکیل یعنی مظفر عباسی کرپشن کے کیس میں عمران خان کے خلاف پیش ہوئے۔اور حسب روایات احتساب عدالت میں پیشی سے پہلے اور پیشی کے بعد پچھلی دور حکومت میں پی ٹی آئی وزراء نیب کی تعریفیں اور ملزم نواز شریف کے خلاف اکیس توپوں کی سلامیاں دیتے نظر آتے تھے۔ اس مرتبہ مسلم لیگ ن کے وزراء نیب کے حق میں ملزم عمران خان کی کرپشن داستانیں سناتے دیکھائی دیئے۔ سب سے اہم حُسن اتفاق احتسات عدالت کے جج محمد بشیر ہیں۔ جج محمد بشیر کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہ 2012 کے بعد سے آج تک انھوں نے اپنی عدالت میں چار وزرائے اعظم کو بطور ملزم پیش ہوتے دیکھا۔ان میں مسلم لیگ ن کے نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف اور اب پی ٹی آئی کے عمران خان شامل ہیں۔جج محمد بشیر بھی قسمت کے دھنی ہیں کہ جن کو مدت ملازمت میں تین مرتبہ توسیع ملی۔ حیران کن طور پر جج محمد بشیر کو پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے دور میں توسیع ملی تھی اور جس وزیر اعظم نے انھیں توسیع دی، وہ ان کے سامنے بطور ملزم بھی پیش ہوئے۔اور ایک مرتبہ تو جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع المشہوربابا رحمتا ثاقب نثار کے دباوٗکے تحت ہوئی۔اور انکی توسیع کے لئےجسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج محمد بشیر کی مدت میں توسیع کے لئے خصوصی کیس کی سماعت بھی کی گئی اور اُس وقت کی مسلم لیگ ن پر عدالت عظمی کے شدید دبائوکے باعث مدت ملازمت میں توسیع دی گئی۔مدت ملازمت توسیع کے بعدنواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو جج محمد بشیر نے ہی ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں بدعنوانی کا مجرم قرار دے کر جیل بھیجا تھا۔یاد رہے پاکستان کی وزارت قانون کے قواعد کے مطابق نیب ججوں کی تقرری تین سال کے لیے ہوتی ہے تاہم جج محمد بشیر گزشتہ 11 سال سے اسلام آباد کی نیب کورٹ نمبر ایک میں تعینات ہیں۔جج محمد بشیر کو سنہ 2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تعینات کیا تھا۔ان کی مدت ملازمت میں آخری مرتبہ توسیع سنہ 2021 وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں ہوئی۔اب اسکو بھی حسن اتفاق کہیں یا مکافات عمل کہ سابقہ ادوار میں اسیرران نیب کی بیماریوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا جبکہ خود عمران خان پیشی پر آنے کے لئے ویل چیئر پر براجمان منظر عام پر آئے وہ علیحدہ بات ہے کہ نیب کی دو دن کی حراست کے بعد موصوف بغیر کسی سہارا لئے اپنے قدموں کے ساتھ سپریم کورٹ کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھائی دیئے۔ اور سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں ججز کے سامنے قید خانہ میں عدم سہولیات کی شکاتیں لگاتے دیکھائی بھی دیئے۔حالانکہ وہ خود دوران اقتدار مخالفین کو جیلوں میں ملنے والی قانونی سہولیات کوختم کرنےکی باتیں کیا کرتے تھے۔دو روزہ نیب یاترا کے بعد عمران خان صاحب سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ شاید انکو احساس ہوگیا ہو کہ کسی بھی سیاستدان کو حبس بےجا میں رکھنے پر قیدی کو کن کن تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ انکے دور اقتدار میں مخالفین کئی کئی مہینے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔ پاکستانی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ بہت تکلیف دہ رہی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی سیاستدان کو کرپشن کا الزام لگا کر گرفتار کرنا اور بدنام کرنا بہت ہی آسان اور پسندیدہ عمل ہے۔ ماضی قریب میں سیاستدانوں پر نیب کی جانب سے بنائے گئے میگا کرپشن مقدمات عدالتوں میں ثابت نہ ہوسکے یااحتساب عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزائیں اعلی عدالتوں میں کالعدم قرار پائیں۔مگر افسوس اس عرصہ میں ان سیاستدانوں کی سیاسی و سماجی زندگی ضرور تباہ کردی گئی۔یاد رہے قومی احتساب بیورو ادارہ کا قیام غیر منتخب اور آمر شخص مشرف کا تخلیق کردہ تھا۔ اور مشرف کی جانب سے ادارہ کے قیام کے مقاصد میں پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت کو کرپشن الزامات لگا کر بدنام کرنا، انہیں پابندسلاسل رکھنااور بالآخر سیاست سے باہر کرنا شامل تھا۔ کاش مشرف کے بعد قومی احتساب بیورو ادارہ کو ختم کردیا جاتا۔افسوس پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی حکومتوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو زیر عتاب لانے کےلئے مشرف کے قائم کردہ ادارہ نیب کو بھرپور استعمال کروایا۔ نہ جانے ہمارے سیاستدان کب ہوش کے ناخن لیں گےیا شائد یہ اپنے خلاف مزید مکافات عمل جاری ہونے کا انتظار کرتے رہیں گے۔ یاد رہے سدا بادشاہی صرف میرے رب کی ہے۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163481 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.