مملکت پاکستان میں اس وقت زبان زد عام لفظ آئین پاکستان
ہے۔ اسکی بڑی وجہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 224کے تحت اسمبلی تحلیل کے
90روز میں انتخابات کا انعقاد ہونا قرار پایا ہے۔ یاد رہے صرف 90 روز میں
انتخابات ہونا ہی آئین کی عملداری نہیں ہے۔جبکہ آئین پاکستان ایک ایسی
جامع دستاویز ہے جس میں ریاست پاکستان کی تمام تر ذمہ داریوں اور اختیارات
بارے مکمل رہنمائی ملتی ہے۔جیسا کہ قانون کے چند مسلمہ اصولوں جنہیں
maximsکہا جاتا ہے۔ایک اصول Statement In Toto کہلاتا ہے۔" In Toto ایک
لاطینی جملہ ہے جس کا مطلب ہے تمام یا مکمل طور پر۔ مثال کے طور پر if a
judge accepts a lawyer's argument in toto تو اس کا مطلب ہے کہ جج پوری
دلیل کو قبول کرتا ہے"۔راقم نے اپنے گذشتہ کالم "میرا آئین میری مرضی "
میں بھی اس بات کی طرف توجہ مبذول کروائی تھی کہ آئین پاکستان کی کتاب سے
pick & choose والی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا اور آئین پاکستان کی مکمل
دستاویز کو پوری ریاست پاکستان میں نافذ العمل کرنے کی اشد ضرور ت ہے۔ اس
تحریر میں ریاست اور ریاستی اداروں کی جانب سےآئین پاکستان کے مکمل نفاذ
میں سست روی کو آشکار کرنے کی ادنی سی کوشش کی جائے گی۔ آئیے آئین
پاکستان کے چند لاوارث آرٹیکلز کا مطالعہ کریں:۔
آرٹیکل 3: ریاست پاکستان ہر قسم کے استحصال کے خاتمے اور بنیادی اصول کی
بتدریج تکمیل کو یقینی بنائے گی۔ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا
جائے گا اور ہر کسی کو اسکے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔یہاں سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں آرٹیکل 3مکمل طور پر نافذہوچکا ہے۔اس
سوال کا جواب قارئین کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔
آرٹیکل4: پاکستان کا ہر شہری خواہ کہیں بھی ہواُسے حق ہے کہ اسے قانون کا
تحفظ حاصل ہواور اسکے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔کیا حقیقت میں
ریاست پاکستان میں آرٹیکل 4کی پاسدار ی کی جارہی ہے ؟جبکہ عرصہ دراز سے
جبری گمشدگیوں بارے خبریں سنائی دیتی ہیں۔ بغیر وارنٹ گرفتاریاں معمول بن
چکی ہیں۔بعض اوقات مظلوم کو اپنے خلاف ہونے والے ظلم کی ایف آئی آر
کٹوانے کے لئے منت سماجت، سفارش اور رشوت تک دینی پڑ جاتی ہے۔
آرٹیکل 6: کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال سے یا کسی دوسرے غیر آئینی
طریقے سے آئین کو منسوخ کرتا ہے یا معطل کرتا ہے یا التواء میں رکھتا ہے،
یا منسوخ یا تخریب کرنے یا معطل کرنے یا معطل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا سازش
کرتا ہے، وہ سنگین غداری کا مجرم ہوگا ۔میری نظر میں آئین پاکستان کا سب
سے یتیم آرٹیکل 6 ہے۔ ضیاءالحق اور پرویز مشرف نے تین مرتبہ آئین پاکستان
کو منسوخ /معطل کیااور ہر مرتبہ پاکستان کی اعلی ترین عدالت نے ان آمروں
کے اقدامات کو نہ صرف عدالتی توثیق دی بلکہ ان آمروں کو آئین پاکستا ن
میں ترامیم کرنے کے اختیارات بھی دے دیئے۔ یاد رہے جنرل مشرف کے خلاف
3نومبر 2007کی ایمرجنسی کے مقدمہ میں مشرف کوآرٹیکل 6کے تحت سزائے موت کا
حکم سنایا گیا۔ اور پھر سزائے موت کا فیصلہ سنانے والی عدالت اور جج سیٹھ
وقار کا حشر چشم فلک نے بخوبی دیکھا۔کچھ تجزیہ کاروں کےنزدیک نوازشریف
حکومت کے خلاف چلائی جانے والی مہم جوئی اور انکی حکومت خاتمہ کا سبب بھی
مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت عدالتی کاروائی تھی۔
آرٹیکل 8 تاآرٹیکل 28 : ان آرٹیکلز میں بنیادی حقوق کا اندراج ہے۔
موجودہ حالات ہم سب کے سامنے ہیں ۔ کیاآئین پاکستان میں درج بنیادی انسانی
حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے؟ اسکا جواب نفی میں نہ ہوتو اثبات
میں بھی نہیں ہوسکتا۔
آرٹیکل 32 اور آرٹیکل 140-Aکے تحت بلدیاتی ادارے /حکومتیں قائم کرنا
ریاست کی ذمہ داری ہے۔مجال ہے عدلیہ کو بلدیاتی حکومتوں بارے سوموٹو ایکشن
لینے کی توفیق ہو، حد تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی بلدیاتی اداروں کے
وجود سے کنی کتراتی دیکھائی دیتی ہیں۔
آرٹیکل 37-d: اسکے تحت ریاست سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی
بنائے گی۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ انصاف کی حصولی کے لئے شہریوں کی جوتیاں گھس
جاتی ہیں اور جائیدادیں فروخت ہوجاتی ہیں۔
آرٹیکل 38-f: اس آرٹیکل کے تحت ریاست جلد از جلد سود کا خاتمہ کرے گی۔
1973سے لیکر آج تک ریاست پاکستان کی جانب سے مملکت میں سود خاتمہ کے لئے
حقیقی کوششیں کسی کی نظر سے گزری ہوں تو ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ ضرور
کریں۔ ہاں ایک موقع پر سود کے نام کو بدل کر منافع کا نام دینے کی بھونڈی
کوشش ضرور کی گئی تھی۔
آرٹیکل 175کی کلاز 3میں واضح طور پر درج ہے کہ آئین پاکستان کے نافظ
العمل ہونے کے 14سالوں کے اندر عدلیہ کو انتظامیہ یعنی حکومتی انتظامی
مشینری سے علیحدہ کردیا جائے گا۔ نہ جانے یہ 14سال کب پورے ہونگے کہ ہماری
عدلیہ انتظامی اُمور میں مداخلت ختم کرے گی اور کب بابے رحمتے جیسے افراد
جوڈیشل ایکٹویزم کو چھوڑیں گے؟
آرٹیکل 209: ججوں کی کرپشن اور مس کنڈکٹ کی سرکوبی کے لئے آرٹیکل 209 کے
تحت سپریم جوڈیشل کونسل قائم کیا گیا ہے۔ پاکستان کی اعلی ترین عدالتیں
دوسرے اداروں کے افراد کے احتساب کے لئے ہمہ وقت تیار دیکھائی دیتی ہیں مگر
اپنے ادارے اندر پائے جانے والے کرپٹ عناصر کی سرکوبی کے لئے آرٹیکل 209کو
پوری طرح نافذ کرنے کی بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنے پر اکتفا کرتی
دیکھائی دیتی ہیں۔اور بعض بابے رحمتے تو کرپشن کے الزام زدہ ججوں کو اپنے
بینچوں میں بیٹھا کر دوسروں کو خصوصی پیغام بھی دیتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ
سپریم جوڈیشل کونسل اُن ججز کے خلاف بہت جلد متحرک ہوجاتا ہے جو ہمیشہ
آئین و قانون کی پاسداری کی بات کرتے ہیںاور خوف یا پریشر کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے طاقتور ترین حلقوں کے خلاف بھی فیصلہ دینے میں ہچکچاہٹ کا
مظاہرہ نہیں کرتے۔
آرٹیکل 251:اسکے تحت پاکستان کی قومی زبان اردو ہےاور آئین پاکستان کے
نفاذ کے 15سالوں کے اندر اردو کو سرکاری/دفتری اور دیگر مقاصد کے لیے
استعمال کرنے کے لیےانتظامات کیے جائیں گے۔نہ جانے سال 1973سے لیکر پندرہ
سال کب پورے ہونگے؟
آئین پاکستان کا تیسرا شیڈول: آئین پاکستان کے تیسرے شیڈول میں صدر
پاکستان سے لیکر صوبائی اسمبلی کے ممبران، ریاستی عہدیدران ، ججز اور پاک
افواج کے حلف درج ہیں۔ کاش تیسرے شیڈول میں درج یہ تمام آئینی عہدیدران
اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئےآئینی
ذمہ داریاں پوری کریں تو مشکلات میں گھری ہوئی ریاست پاکستان کے مسائل ختم
ہوجائیں۔آئین پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔
|