یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ جب منی پور جل رہا تھا
تو وزیر اعظم کرناٹک کی انتخابی مہم میں غرق تھےلیکن یہ بھی قابلِ معافی
جرم ہے کہ اس دوران بی جے پی کے مخالفین کی ساری توجہ الیکشن پر مرکوز تھی
۔ منی پور جیسے ننھے سے صوبے کے اندر 54 بے قصور لوگوں کے ناحق قتل اور
ہزاروں لوگوں زخمی ہونے نیز 23 ہزار سے زیادہ لوگوں کے بے گھر ہوکر کیمپوں
میں پناہ لینے پر مجبور ہونے کو نہ صرف گودی میڈیا بلکہ باغی ذرائع ابلاغ
نے بھی پوری طرح نظر انداز کردیا۔ اس رویہ سے پھر ایک بار یہ ثابت ہوگیا کہ
ہندوستانیوں کے لیے الیکشن سے بڑا کوئی اور نشہ نہیں ہے۔ منی پور کے تشدد
کو اب اس طرح بھلا یا جاچکا ہے جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ کرناٹک کی
انتخابی مہم کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہ متنازع اعلان کیا تھا کہ
اگر کرناٹک میں کانگریس بر سرِ اقتدار آجائے تو فرقہ وارانہ فساد ہوں گے۔
اس بیان کے حسبِ ذیل دو متضاد معنیٰ لیے گئے ۔
امیت شاہ اور ان کی جماعت چونکہ منفی نظریات کی حامل ہے اس لیے اول تو اسے
دھمکی سمجھا گیا ۔ مبصرین نے اسے نہ صرف تشدد کی دھمکی بلکہ بلیک میلنگ
قرار دیا ۔ عام طور پر غنڈے بدمعاش اس طرح کی دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ان کے
خلاف گواہی دی گئی یا ان کی داداگیری کو چیلنج کیا گیا تو سزا ملے گی ۔
امیت شاہ کی شخصیت اور ماضی کے پیش نظر یہ قیاس آرائی غلط نہیں تھی۔ بی جے
پی والے جب اقتدار میں آتے ہیں تو بدعنوانی میں لگ جاتے ہیں اور چالیس
فیصد کمیشن والی سرکار وجود میں آجاتی ہے۔ سماج کے فسادی سرکاری خزانے کی
لوٹ مار میں مصروفِ عمل ہوجائیں تو سماج میں ایک عارضی امن قائم ہوجاتا ہے۔
یہ اور بات ہے اپنے کرتوت کی پردہ پوشی کرکے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے
ان کو پھر سے تشدد کا سہارا لینا پڑتاہے۔ اس کا مظاہرہ پہلے صرف گجرات میں
ہوتا تھا اب ملک بھر میں ہونے لگا ہے اور منی پور اس کی تازہ مثال ہے ۔
امیت شاہ کے بیان کا دوسرامثبت مطلب یہ ہے کہ جب بی جے پی اقتدار میں
آجاتی ہے تو نظم و نسق اس قدر چاک و چوبند ہو جاتا ہے کہ کوئی دنگا فساد
کی جرأت نہیں کرپاتا ۔ اسی طرح کا دعویٰ اترپردیش اور آسام کے وزرائے
اعلیٰ بھی کرتے رہتے ہیں لیکن منی پور کے فساد نے اس مفروضے کی تردید کردی
اور ثابت کردیا کہ یہ انتخابی جملہ بازی ہے۔ منی پور میں گزشتہ سال دوسری
مرتبہ بی جے پی نے انتخابی کامیابی حاصل کی اور موجودہ تشدد کا بنیادی سبب
اس سیاسی تبدیلی میں پوشیدہ ہے ۔ 2017 کے اندر پہلی بار بی جے پی نے اس
صوبے میں 22نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ کانگریس نے 28نشستیں جیت لیں۔
اس کو اقتدار میں آنے کے لیے صرف دو نشستوں کی ضرورت تھی لیکن امیت شاہ نے
یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ بی جے پی کی سرکار بنے گی اور یہ کارنامہ کر
دکھایا۔ اپنی مجبوری کے تحت بی جے پی نے پہلے پانچ سال سب لوگوں کو ساتھ لے
کرکام کیا۔ اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر امن و امان برقرار رہا۔
مرکزی حکومت نے جس طرح 2019 میں دوسری بار انتخاب جیتنے کے بعد ’سب کا ساتھ
سب کا وکاس ‘ کے نعرے کو کوڑے دان کی نذر کرکے شدت پسند ہندوتوا کو اپنا
لیا اسی طرح 2022 میں جب منی پور کے اندر بی جے پی کو میتی قبیلہ کی مدد سے
اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل ہوگئی تو اس نے دیگر قبائل کی حق تلفی شروع
کردی ۔ بی جے پی کو جو ساٹھ میں سے صرف37 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے
جبکہ میدانی علاقوں میں جہاں ہندو میتی بستے ہیں وہاں چالیس نشستوں کو جیتا
جاسکتا ہے۔ اس لیے میتی قبیلے کی خوشنودی حاصل کرنے کا جو کھیل ایک سال قبل
شروع کیا گیا اس کے نتیجے میں موجودہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ منی پور اور
کشمیر کے اندر بہت ساری مشابہت ہے۔ جموں کشمیر کے اندر ایک حصہ میدانی اور
دوسرا وادی کا ہے جبکہ منی پور پہاڑ اور وادی کے درمیان منقسم ہے۔ جموں
کشمیر کو آئین کی دفع 370کے تحت خصوصی درجہ حاصل تھا ۔ اس پر بی جے پی نے
بڑی سیاست کی مگر آئین کی دفع 371کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے
لوگوں کو امتیازی مراعات حاصل ہیں۔ اس بابت بی جے پی زبان نہیں کھولتی
کیونکہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور دیگر مقامات پر اس کا فائدہ
ہندو یا عیسائیوں کو ملتا ہے جن کو بی جے پی ناراض نہیں کرنا چاہتی۔
مسلمانوں کی دشمنی میں بی جے پی نے جموں کے ہندووں اور کشمیری پنڈتوں کو
بھی خصوصی درجہ سے محروم کردیا۔
کشمیر کا معاملہ آتا ہے تو اسے پاکستان سے جوڑ دیا جاتا ہے لیکن منی پور
کے پڑوس میں تو کوئی مسلم ملک نہیں ہے۔ اس سرحدی ریاست کے ایک جانب بدھ مت
کے ماننے والوں کا ملک میانمار ہے۔ اس کے ہندوستان کے ساتھ بہترین تعلقات
ہیں پھر بھی منی پور کیوں جل اٹھا ؟ اس سوال پر غور کرنا چاہیے۔ بات دراصل
یہ ہے کہ جب بھی حکومت کی جانب سے عوام کے حقوق کو پامال کیا جائے گا ۔ ان
کے مذہب و تہذیب کو نشانہ بنایا جائے گا تو اس کے خلاف ردعمل یقیناً رونما
ہوگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو غلطی جموں کشمیر میں کی اسی کو منی پور میں
دوہرا دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود کشمیر
کی وادی میں امن قائم نہیں ہوسکا۔ منی پور سانحہ کے دوران بھی کشمیر میں
بہت بڑا انکاونٹر چلا اور اس میں جنگجووں کے علاوہ کئی فوجیوں نےبھی جان
گنوائی۔ اس سے قبل چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں میں نکسلوادیوں کے ذریعہ اسی
طرح کا تشدد دیکھنے میں آیا اور اب منی پور میں بھی وہی دوہرایا گیالیکن
سرکار نے ان سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
کشمیر کی دفع 370 کا تو بہت ذکر ہوتا ہے مگر آئین کی 371 کے بارے میں کوئی
بات کوئی نہیں کرتا جو مہاراشٹر کے ودربھ اور گجرات کے کچھ وغیر میں نافذ
ہے۔ اس کی ذیلی شقوں کا فائدہ ناگالینڈ ، آسام ، سکم ، میزورم ، اروناچل
پردیش ، گوا،حیدر آباد کرناٹک کے کچھ حصوں اور منی پور کو حاصل ہے۔ بی جے
پی اگر دستور کی دفع 371 کو ختم کردے تو اس کے اپنے ووٹرس متاثر ہوں گے اس
لیے وہ اس کی جرأت نہیں کرتی۔ ایک ملک میں ایک دستور کا دعویٰ کرنے والے
منی پور میں قبائلی باشندوں کے حقوق کو سلب کرکے وہ اپنی کامیابی کا ڈنکا
نہیں بجا تے۔ منی پور کے اندر یہ کھیل پچھلے دروازے سے کھیلا جارہا ہے۔
میتی قبیلے کے 60 میں40ارکان اسمبلی میں ہیں۔ سرکاری دفاتر میں اس کی
بھرمار ہے۔ حکومتی وسائل کا بہت بڑا حصہ انہیں لوگوں کی فلاح و بہبود پر
صرف ہوجاتا ہے اس کے باوجود ان لوگوں کو مظلوم بناکر پیش کیا گیا اور یہ
کہا گیا کہ وہ محروم طبقہ ہے۔ اس حقیقت پر کو ئی بات نہیں کرتا کہ انہیں
شیڈیول کاسٹ اور او بی سی کے حوالے سےریزرویشن ملا ہوا ہے ۔ ہر کوئی یہ
ماتم کررہا ہے کہ انہیں پہاڑوں پر زمین خریدنے کی اجازت کا نہ ہونا ان پر
ظلم ہے جبکہ پہاڑی قبائل وادی میں زمین خرید سکتے ہیں۔ یہ ماتم کرنے والے
نہیں بتاتے کہ پہاڑیوں کے پاس قوت خرید کہاں ہے اور وہ جس طرح زمین خریدے
بغیر دیگر سہولیات کے لیے وادی میں بس جاتے ہیں اس طرح میتی پہاڑوں پر زمین
خریدے بغیر کیوں نہیں بستے؟ نیز پہاڑی لوگ اپنا مسکن چھوڑ کر وادی میں بسنے
کے لیے کیوں مجبور کیے گئے ہیں۔
منی پور سے تعلق رکھنے والی معروف باکسر اولمپک میڈل یافتہ میری کوم نے
مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے حالات کو جلد از جلد معمول پر لانے کے لیے
تمام ضروری اقدامات کرنے کی اپیل کی مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی
حالانکہ انہیں بی جے پی اپنے سیاسی فائدے کے لیت ایوانِ پارلیمان کا رکن
بنایا تھا۔ اس تشدد کے بعد کانگریسی رہنما ششی تھرور نے الزام لگایا کہ منی
پور کے رائے دہندگان محض ایک سال قبل بی جے پی کو اقتدار میں لاکر اپنے آپ
کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں ۔ اپنے ٹویٹ میں تھرور نے لکھا کہ منی پور میں
تشدد جاری ہے ایسے میں ہندوتوا کے حامل سبھی ہندوستانیوں کو خود سے سوال
کرنا چاہیے کہ جس بہتر کارکردگی کا وعدہ کیا گیا تھا اس نعرے کا کیا ہوا؟
انہوں نے لکھا چونکہ صوبائی حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوگئی
ہے اس لیے گورنر راج نافذ کردیا جانا چاہیے۔
منی پور میں جاری تشدد پر قابو پانے میں کامیابی تو دور امیت شاہ تو دہلی
کے اندر اس کے اثرات کو روکنے میں ناکام رہےاورتشدد کی آگ دہلی میں بھی
پہنچ گئی ۔ راجدھانی دہلی میں موجود دہلی یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس میں
رہنے والے کوکی اور میتی طبقہ کے طلبا کے درمیان تصادم ہوگیا۔ اس تعلق سے 6
مئی کو کوکی طلبا نے ایف آئی آر درج نہ ہونے پر مورس نگر تھانہ کے باہر
احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ کس قدر پریشان کن صورتحال ہے کہ جس میں مظلوم و
مقہور طلباء کی شکایت تک درج نہیں کی جاتی۔ ایوان پارلیمان اور انتخابی
جلسوں میں بلند بانگ دعویٰ کرنے والا وزیر داخلہ اگر اپنی ناک کے نیچے اس
تشدد کو روکنے میں ناکام ہوجائے تو اس سے دور دراز منی پور میں کسی مؤثر
کارروائی کی امید کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے۔ اس معاملے نے پھر
ایک بار بی جے پی کی نااہلی و ابن الوقتی پر مہر لگا کر یہ ثابت کردیا ہے
کہ یہ لوگ جھوٹ سچ بول کر انتخاب تو جیت سکتے ہیں لیکن حکومت نہیں چلا
سکتے۔ ایسے حکمرانوں کو ملک کے عوام کب تک برداشت کریں گے یہ کوئی نہیں
جانتا مگر منی پور کے حالات ایک خطرے کی گھنٹی ضرور ہیں ۔ میگھالیہ اور
تریپورہ نے جس خانہ جنگی کی پیشنگوئی کی تھی اس کی ابتداء اتفاق سے منی پور
میں ہوچکی ہے۔
|