نوجوانوں کے نام اہم پیغام

توجہ کی اشد ضرورت ہوگی انشااللہ اپکی اچھی رہنمائی کی جاۓ گی۔

چلتے ہیں اپنے اس عنوان کی طرف جو کہ ہمارے لئے پڑھنا تو فائدہ مند ثابت ہوگا ہی بلکہ اگر ہم عمل پیرا ہوۓ تو مزید ہمارے لئے اچھائ کا سبب بنیگا کیوں کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئ یہ برائی بلخصوص مسلمانوں کے ایمان کو اندر سے تباہ کر رہی ہے اور ماحول کو اتنا ہی برا بنا رہی ہے جتنا یہ اس برائی میں ملوث شخص کو برا بنا دیتی ہے اس لئے سوچا کہ اس عنوان پر بات ہونا بہت ضروری ہے اگر کوئی ایک شخص بھی بات کو سمجھ گیا تو سمجھو اسکی بات بنگئ۔

بات دراصل صرف اور صرف نیت کی ہے کیوں کہ مشہور حدیث ہے کہ عمل کا دار و مدار نیت پر ہے اسی طرح اگر ہم نیت صاف اور اچھی رکھیں تو ہم معاشرہ اور اپنا اعمال نامہ دونوں کو خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

جیسا کہ دین اسلام کے مطابق ایک لڑکے کو اٹھارہ سال کی عمر کے بعد شادی کی اجازت ہے لیکن حالات اور ماحول کی وجہ سے آجکل عام رواج ہے کہ لڑکے کی عمر تقریبا 25 سال ہوتی ہے جو کہ ماحول کے حصاب سے درست سمجھا جاتا ہے۔ اب ایک بات زیرِ غور ہے کہ پندرہ سال تک لڑکے کو بچوں کی فہرست ہیں سمجھا جاتا ہے اسکے بعد اسے لڑکپن میں لڑکا کہا جانے لگتا ہے اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پندرہ سے لیکر 25 سال کی عمر والے بیشتر لڑکے طرح طرح کی برائیوں (نشا، چوری، بدتمیزی، آواراگردی، اور سب سے بری عادات جسکے لیئے یہ مضمون لکھا گیا۔ زنا، فحاشی، لڑکیوں کے چکر، اور بلیکمیلنگ) میں ملوث ملتے ہیں جبکہ یہ عمر کا ایک گولڈن دور ہوتا جس کو بچانے میں والدین اور بچے دونوں ناکام رہتے ہیں جوکہ ساری زندگی نقصاندہ اور پشیمانی کا سبب بنتا ہے۔ جیساکہ پندرہ سے 25 سال تک کا یہ وقت اگر ہر لڑکا یہ سوچ کر گزارنا شروع کردے کہ جب مینے ساری زندگی ایک لڑکی کے ساتھ گزارنی ہے (جوکہ شادی کے بعد والی زندگی ہے) تو کیوں نا میں یہ دس سال ایک لڑکی کے بغیر گزاروں اور اسی طرح لڑکیاں بھی یہی سوچ لیں اور اس گولڈن دور کو اپنی تعلیم اور مستقبل کیلئے سرف کردیں تو ہر لڑکا اور لڑکی دس سال بعد ایک قابل نوجوان بن کر اپنی زندگی بلند معیار کے ساتھ گزار سکتے ہیں اور ایک خوشگوار زندگی کیلئے یہ سب اشد ضروری ہے جوکہ صرف ہماری سوچ کے پیچھے چھپا ہوا ہے "دا سیکریٹ (لا آف ایٹریکشن)" کتاب رونڈا بائرن کے مطابق انسان کی سوچ ہی تو اسکی زندگی ہے جو وہ سوچتا ہے اسکی زندگی میں آکر رہتا ہے۔

اور یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ساری غلطی والدین کی ہے کہ وہ بچوں کو ان برائیوں سے روکنے میں قاصر ہیں (جبکہ وہ خود اس دور سے گزر چکے ہوتے ہیں)۔

مسلمان مرد ہونے کے ناطے ہمیں شرم کا لبادہ اوڑھنا چاہئے تاکہ ہماری نظروں سے دوسروں کی بہنیں محفوظ رہیں اور اسی طرح اگر ہم دوسروں کی بہنوں کو محفوظ رکھیں گے تو ہماری بہنیں محفوظ اور پاک دامن رہینگی اور کہا جاتا ہے جسکی نظر اور نیت پاک ہوتی ہے اسکا ایمان مضبوط ہوتا ہے جسکا ایمان مضبوط ہوتا ہے وہ سخی و رحم دل اور عبادت گزار ہوتا ہے اور جو عبادت گزار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسکے قریب ہوتا ہے اور جسکے قریب اللہ تعالیٰ ہو اسکے لیئے یہ دنیا معمولی ہوتی ہے اور جسکے لئے یہ دنیا معمولی ہو وہ کوئ معمولی انسان نہیں ہوتا بلکہ مثالیں اسکے وجود سے جنم لیتی ہیں۔ لہٰذا کچھ غور کریں یہ وبا یہ آفتیں یہ بدامنی یہ فحاشی ان سب کے ذمہ دار کوئ نہیں ہم خود ہیں کیونکہ برا (وقت اور دور) نہیں بلکہ برے ہم خود ہیں اور اسے ہمنے خراب کیا ہے تو اب صحیح بھی ہمنے کرنا ہے۔

ضرورت صرف سوچ بدلنے کی ہے وقت خود بدل جائگا بہت مشکل ہوگا برائ سے اچھائ کی طرف لوٹنا لیکن ناممکن نہیں
عبدالرحمان ارشد راجپوت
(AR Poet)

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 4 Articles with 1919 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.