یونیورسٹی میں جن لوگوں سے ملنے اور سیکھنے کا موقع ملا، انہی میں سے ایک وہ لڑکی بھی تھی۔ کلاس میں کئی سال ساتھ گزارنے کے باوجود اس سے کبھی گہری دوستی کا رشتہ نہیں رہا، نہ روز ہماری لمبی باتیں ہوتی تھیں اور نہ ہم ہر کلاس میں ساتھ بیٹھتے تھے لیکن جو بھی تعلق رہا، وہ اتنا بہترین تھا کہ تعلیمی سلسلہ تمام ہونے کے بعد وہ ان چند لوگوں میں ہے جن سے سیکھے ہوئے اسباق اکثر یاد رہتے ہیں اور فائدہ دیتے ہیں۔ اسے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا جب میری اور اس کی اس موضوع پر بات ہوئی۔ کافی دیر تک وہ اپنے تجربات تفصیلاً میرے ساتھ شیئر کرتی رہی اور میں توجہ سے اسے سنتی اس کا ایک ایک لفظ ذہن میں جذب کرتی رہی۔ درمیان میں چند بار میں نے اسے روک کر چھوٹے چھوٹے سوالات بھی کیے اور اس کے کچھ منفی تجربات پر افسوس کرنے میں جی جان سے اس کا ساتھ بھی دیا۔
غرض اس دن ہم نے افسوس کی بھرپور محفل جمائی اور سارے مینیجرز اور کمپنیز کے اعلیٰ عہدہ داروں کو ایسا آڑے ہاتھوں لیا کہ اگر ان کے کانوں تک ہمارے الفاظ پہنچ جاتے تو شاید اتنی توحین پر وہ اسی لمحہ استعفے دے کر سبک دوش ہونے میں عافیت محسوس کرتے۔ لیکن خیر، ایسا وہ تب کرتے جب اتنی غیرت والے ہوتے اور اصل مسئلہ ہی یہی تھا۔ جب ہم خوب خوب غم منا چکے تو آخر میں اس نے مجھے ایک ایسی بات کہی جس کی تصدیق میں نے بہت سے لوگوں کے تجربات سے ہوتے دیکھی۔ اس نے کہا، 'یونیورسٹی میں ہم سب ایک دوسرے سے اتحاد سے رہتے ہیں۔ کوئی معمولی بات ہو بھی جاتی ہے لیکن ہم سب ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر کسی سے کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو ہمیں اس کے خلوص پر ٹرسٹ ہوتا ہے لیکن پروفیشنل لائف مختلف ہے۔ وہاں ٹرسٹ اور بھروسے کی کوئی جگہ نہیں، انتظامیہ سے لے کر کولیگز تک تقریباً ہر شخص آپ کو مینوپلیٹ کرتا ہے۔ پروفیشنل لائف ویسی نہیں جیسے ہم یونیورسٹی میں ساتھ رہتے ہیں۔ وہاں بولنا پڑتا ہے، اپنے لیے اسٹینڈ لینا پڑتا ہے، آواز اٹھانی پڑتی ہے اور لوگوں کے بھروسے رہنے سے بچنا ہوتا ہے۔' اس کے انداز اور لہجے میں اتنی صداقت پنہاں تھی کہ وہ ایک ایک لفظ جیسے ذہن پر ثبت ہو کر رہ گیا۔ چند روز قبل ایک قلبی دوست نے پروفیشنل لائف میں قدم رکھا۔ چوں کہ اس سے انتہائی گہرا تعلق ہے اور اکثر اوقات میری موبائل اسکرین صبح اس کے نام سے روشن ہوتی ہے سو اس کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات ہوتی ہے اور مسئلے بھی زیرِ گفتگو آتے ہیں۔ قلبی دوستی پر الگ سے ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے لیکن اس موضوع کی مناسبت سے ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ پروفیشنل لائف میں اسے لوگوں کے مختلف چہرے نظر آنے لگے ہیں۔ 'ایسا لگتا ہے کہ لوگوں سے ڈیل کرتے کرتے ہمارا ایمان کا لیول گرنے لگتا ہے عنیزہ۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہم بھی ان سے ڈیل کر کر کے انہی کی طرح عیار اور مقار ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے پتا ہے یہ الفاظ بہت تلخ ہیں لیکن شاید اس سے کم کوئی لفظ کہنا موزوں ہی نہیں۔' مذکورہ دونوں باتوں پر غور کریں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں ہی کیس میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ دونوں اپنے کولیگز اور انتظامیہ کے رویے سے ناخوش تھیں اور انہیں ایک ہی چیز پریشان کر رہی تھی جسے عرف عام میں سیاست کہتے ہیں۔ جاب سیٹسفیکشن کے جتنے معیارات ماہرین نے وضع کیے ہیں ان میں سے ایک ورک پلیس پر کام کرنے والوں کے آپس کے تعلقات ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر آپ کو امپلائی سیٹسفیکشن ریٹ زیادہ چاہیے تو آپ کو اپنی ورک پلیس کا ماحول بہتر تعلقات کے فروغ کے لیے ساز گار رکھنا چاہیے۔ اب مختلف کمپنیز اور ادارے ورک پلیس کے تعلقات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیوں کہ سیٹسفیکشن ریٹ برقرار رکھنے کے لیے انہیں ان تعلقات کو اہمیت دینی پڑتی ہے۔
چند سال پہلے تک کوئی سیٹسفیکشن ریٹ کو اتنا اہم خیال نہیں کرتا تھا لیکن رکروٹمینٹ ویبسائیٹس اور جاب فارمز کے نزول کے بعد اس کو اس وجہ سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اب ہر چھوڑ کر جانے والا امپلائی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو ریویو کی صورت میں بیان کرنے کے لیے آزاد ہے۔ انہی تمام وجوہات کے پیشِ نظر اب پبلک رلیشنز کے نام پر مینوپلیشن اور انفلوئینسنگ یعنی دوسروں کو متاثر کرنے کا ایک طریقہ سیکھ لیا گیا ہے جس کے تحت کام کرنے والوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کو کیوں کہ کام بھی لینا ہوتا ہے اور اپنی ساکھ بھی قائم رکھنی ہوتی ہے اس وجہ سے وہ کام کرنے والوں سے باتوں کے ذریعے کھیل کر اس طرح کام لیتے ہیں کہ نئے نئے پروفیشنل لائف میں داخل ہوئے لوگ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ انہیں کیسے اور کس طرح استعمال کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح بہت سے کولیگز جنہیں انتظامیہ سے پروموشن کی توقع ہوتی ہے اپنے ساتھیوں کے ہمدرد بنتے ہیں اور ان کی باتوں کو مینوپلیٹ کر کے اس طرح اوپر پہنچاتے ہیں کہ جب تک بات اپنے بولنے والے تک پہنچتی ہے، تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ الفاظ وہی رہتے ہیں اور محض لہجے اور کانٹیکسٹ یعنی پس منظر کی تبدیلی سے اس کا مطلب بدل دیا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو سچائی اور ایمان داری کے قائل ہیں، اس دو رخے رویے کا مشاہدہ کرنے کے بعد مخمصے میں پڑ جاتے ہیں کہ آیا ان سے انہی کی طرح ڈیل کر کے اپنا ایمان گنوائیں یا سچائی اور ایمان داری کا پیکر بن کر اپنی جاب گنوائیں۔ ایک اچھا اصول وہی ہے جو اس لڑکی نے دیا تھا کہ اپنا حق نہ چھوڑا جائے، کم از کم آواز ضرور اٹھائی جائے، اپنے لیے اسٹینڈ لیا جائے اور لوگوں پر بھروسہ کر کے انہیں اپنے متعلق کچھ ایسا نہ دیا جائے جو وہ آگے پہنچا سکیں۔ خود کو محدود کر لیا جائے کہ ہر جگہ دوستیاں بنانا ضروری نہیں ہوتا اور حتیٰ الامکان ورک رلیشنز کو ورک تک ہی محدود رکھا جائے۔ لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے، ‘Honesty is the best policy’ کے نعرے لگا لگا کر ہم یہ کون سی دوغلی پالیسیاں رائج کرنے پر تلے ہیں؟ ‘Say no to corruption’ کا پرچار کر کے ہم یہ کس نظام کے پرستار بن گئے ہیں؟ کیا یہ سچائی اور ایمان داری سے خالی طریقے اور کرپشن سے بھرپور نظام کسی بہتری کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں؟
|