اللّه دیکھ رہا ہے

تحریر: ملک اسد جوتہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا اس کے چار بیٹے تھے
ایک کا نام تھا کامران دوسرا کا سعید اور تیسرے بیٹے کا نام لقمان تھا ۔سب سے چھوٹے بیٹے کا نام موسیٰ تھا ۔
کسان اپنے بیٹوں سے کافی محبت کرتا تھا اسنے اپنے بیٹوں کو ایک دن معمول میں بلایا اور بولا آج بیٹوں میں تمہارے عقلمندی اور ذہنی سوچ کا ٹیسٹ لینا چاہتا ہوں اور جو سہی عقل سوچ سے کام لے گا وہی میری آدھی جائید کا مالک ہو گا ۔بیٹے بڑے خوش ہوئے ۔اور پوچھنے لگے ایسا کیا کام کرنا ہوگا ابا جی
کسان نے کہا
بیٹا یہ چار سیب ہیں یہ چار سیب ایسی جگہ پے کھانے ہیں جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ رہا ہو ۔
بیٹے بڑے پرجوش تھے اور سیب اٹھا کر چل دیے اور سوچنے لگے کہ ان سیبوں کو کہاں کھایا جائے جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو ۔
بیٹے گھر سے نکلے باہر کی جانب اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق جگہ پے چلے گے ۔
شام ہوئی تو سب بیٹے گھر کو لوٹے تو کسان نے بلایا اور اپنے سامنے بیٹھایا
اور باری باری سے پوچھنے لگے کہ بتاؤ
سب سے بڑے بیٹے کامران نے کہا ابا جی میں نے سیب سب سے چھپ کے کھایا ہے جہاں کوئی نہیں دیکھ رہا میں نے سمندر کی طرف نکل گیا تھا اور تیرتے تیرتے میں سمندر کے بیچ پہنچ کر دیکھا جہاں چاروں طرف پانی تھا میں وہ سیب وہاں کھایا ۔
پھر دوسرے بیٹے کی باری آئی اور وہ بتانے لگا کہ ابا میں نے ایک زمین کے نچیلے سائیڈ مکان میں جو کہ زمیں بوس تھا میں نے سیب وہاں کھایا جو کہ وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا ۔
اور اب تیسرے بیٹے لقمان نے بتایا کہ میں نے سیب صحرا میں کھایا جہاں کوئی بھی نہ تھا ہر طرف ویرانہ تھا
سب سے چھوٹے بیٹے موسیٰ کی باری آئی تو وہ چپ ہو گیا اسکے والد نے پوچھا بیٹا تو بھی بتا تو نے کہاں کھایا ؟
تو کھڑا ہوا اور بولا بابا مجھے ایسی کوئی جگہ ہی نہیں ملی جہاں میں اس سیب کو کھا پاتا ۔
باقی بیٹے حیرانگی سے دیکھنے لگے ۔
تو کسان نے پوچھا بیٹا کیا وجہ آخر
تو موسیٰ نے جواب میں قرآنی آیات سنائیں ].
يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّـهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَىٰ مِنَ الْقَوْلِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا ﴿١٠٨﴾ سورة النساء
وه لوگوں سے تو چھﭗ جاتے ہیں، (لیکن) اللہ تعالیٰ سے نہیں چھﭗ سکتے، وه راتوں کے وقت جب کہ اللہ کی ناپسندیده باتوں کے خفیہ مشورے کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے پاس ہوتا ہے، ان کے تمام اعمال کو وه گھیرے ہوئے ہے (108)
تو کسان اٹھا اور اپنے چھوٹے بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور اس کو شاباشی دی کی بیٹا وقعی تیری سوچ اور تیری عقلمندی کو سلام ہے.اور اس کو ادھی جائیداد کا وارث بنا دیا ۔
یہ کہانی لکھنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم جو بھی کرتے ہیں ہمیں ہمارا اللّه دیکھ رہا ہے ۔یہ جو بھی ہم عمل کر رہے ہیں وہ اللّه ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ہم لوگوں کے نظروں سے تو چھپ جاتے ہیں لیکن وہ ذات ہر وقت ہمیں دیکھ رہی ہے ۔ہم جو یہ ظلم ڈھاتے ہیں جو لوگوں کے حقوق دبا کر خوش ہوتے ہیں ہمیں لوگ تو نہیں دیکھ رہے ہوتے لیکن وہ باری تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔یہ جو یتموں اور غریبوں کے حقوق دبا کر ان کو رولا کر خوش ہوتے ہیں ۔حقوق العباد دباکر لوگوں کی نظروں سے تو بچ جاتے ہیں کیونکہ دنیاوی نظام میں عہدے اور دولت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔
اس حوالے سے ایک قرآنی آیت
(أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك) _ [ متفق عليه]۔
’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
[ متفق عليه].
اللّه ہر طرف سے ہمیں دیکھ رہا ہے ۔
عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
أصلحوا سرائركم تصلح لكم علانيتكم .
[الكلم الطيب]
اپنے باطن کو ٹھیک کر لو
تمہارا ظاہر بھی ٹھیک ہو جائے گا
عہد فارقی رضی اللہ عنہ کا ایک ایمان افروز واقعہ
جسے ہم نے کئی بار پڑھا اور سنا ہو گا
ایک رات امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے خادم کے ساتھ گشت کے لئے نکلے وہ مدینے کی گلیوں میں لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے گھومتے پھر رہے تھے چلتے چلتے انہیں تھکاوٹ محسوس ہوئی تو وہ ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر آرام کی غرض سے کھڑے ہوگئے اتنے میں صبح بھی روشن ہوگئی۔۔۔
اس گھر کے اندر سے ایک بوڑھی عورت کی آواز آرہی تھی وہ اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کا حکم دے رہی تھی لیکن لڑکی ماں کے اس حکم کی تعمیل سے انکار کررہی تھی وہ کہہ رہی تھی امیر المومنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہے اور بذریعہ منادی اس کا اعلان بھی کرادیا ہے۔۔۔
ماں نے بیٹی سے کہا کیا اس وقت عمر رضی اللہ عنہ تمہیں دیکھ رہے ہیں جو تم ان سے ڈر رہی ہو؟؟؟۔۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ اگر عمر نہیں دیکھ رہا تو عمر کا رب تو دیکھ رہا ہے۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ (بنو اُمیہ میں فاروقی رنگ)
سے لیا گیا اقتباس ۔۔۔
اسی طرح کا ایک قصہ ابن الجوزي رحمه الله نے اپنی کتاب صفة الصفوة میں
سید نا نافع رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے
سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا
میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے
وہاں سے ایک چروہے کا گزر ہو ا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کھانے کی دعوت دی
چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے
سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ
رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو
پھر سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُ س کی دانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا
اور کہا :کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو،،
چرواہا بولا : یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں
سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ
ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا
چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ہوئے چل دیا : پھر اللہ کہاں ہے
ابن عمر رضی اللہ عنہما بار بار چرواہے کی بات کو دھراتےجا رہے تھے کہ ؛ اللہ کہاں ہے
اللہ کہاں ہے اور روتے جارہے تھے
اور جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ پہنچے چرواہے کے مالک کو ملے
اُ س سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں
اور اُسے کہا کہ تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے
کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے
(الراوي : زيد بن أسلم المحدث : الألباني - المصدر : السلسلة الصحيحة - لصفحة أو الرقم : 7/469)
اللّه کریم سے دعا ہے ہمیں سیدھے راستے پے چلنے کی توفیق دے ۔
ہمارے دلوں میں ڈر اور تقویٰ پیدا فرمائے لوگوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اللّه کے ڈر یہ ہم چھوڑ دیں ۔
امین سما امین
 

Asad Mukhtar
About the Author: Asad Mukhtar Read More Articles by Asad Mukhtar: 7 Articles with 3820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.