اسلامی معاشرے کا تصور اس قدر جامع اور ہمہ جہت ہے
کہ جس میں انسان کی تمام مادی اور معنوی ضرورتوں کا بدرجہ اتم خیال رکھا
گیا ہے۔ بالفاظِ دیگر اسلام ایک ایسے مثالی معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے کہ
جو ایک انسان کے لئے ہر لحاظ سے فائدہ بخش ہو۔ دیگر ادیان کے ساتھ دین
اسلام کا تقابلی جائزہ کیا جائے تو اسلام کا اجتماعی پہلواور بھی زیادہ
روشن و تابناک دکھائی دیتا ہے، معتدد ایسے ادیان جن کے ماننے والوں کی اچھی
خاصی تعداد اس وقت دنیا میں موجود ہے۔ انسان کے معنوی اور انفرادی پہلو کی
کسی حد تک توتشفی کرتے ہیں مگر ان مذاہب میں اجتماعیت کا سرے سے کوئی ذکر
ہی نہیں ملتا ہے گویا وہاں مذہب ایک ذاتی اور انفرادی چیز ہے۔ممکن ہے کہ
بعض مذاہب فلسفی ، نظریاتی،معنوی اعتبار سے کافی مالا مال دکھائی دیں۔ مگر
ان میں معاشرتی پہلو کا فقدان صاف طور پر دکھائی پڑتاہے۔
اسلام چونکہ دین اعتدال ہے۔ اس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلووں کا
خیال رکھا گیا ہے۔ بلکہ ان دو پہلوؤں کے مابین بھی ایک خوبصورت توازن پایا
جاتا ہے۔ اگر ہم جدید مکتب ہائے فکر کو بھی اسلام کے روبرو کریں تو ان میں
بھی بیشتر مکتب ہائے فکر افراط و تفریط سے دوچار نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور
پر شوشلزم (اشتراکیت) اور کیپٹلزم (سرمایہ دارانہ نظام) کو ہی لیجئے ان میں
سے اول الذکر مکتب انسان کی انفرادی حیثیت کو کلی طور پر نظر انداز کرتا ہے
جبکہ ثانی الذکر مکتبۂ فکر معاشرے کی فلاح و بہبود کے بجائے تمام تر
توانائی ایک فرد کی ضروریات اور حیثیت پر صرف کرتا ہے۔ مگر اسلام اس افراط
و تفریط سے مبراء ایک ایسا الہٰی دین ہے کہ جسے بجاطوردینِ وسط یا متوازن
مذہب کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تعمیرِ شخصیت اور تذکیۂ نفس کی تاکید ہے وہاں
اصلاحِ معاشرہ کی بھی ذمہ داری ایک فرد کو سونپی گئی ہے۔ ایک جانب حُبِ ذات
(جوہرجاندار وجود کا فطری میلان ہے)کی تشفی کا اہتمام ہے دوسری جانب جذبۂ
ایثار کے ذریعے اپنی ذات کو معاشرے کے تئیں وقف کرنے کا بھی اثر انگیز درس
ہے کہ جو ایک فرد کو ذاتی منفعات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے پر آمادہ
کرتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں ایک فرد کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ صرف
اور صرف اپنے فائدے کی سوچے۔اسے دوسروں کے نفع و نقصان کی فکر کرنے کی کوئی
ضرورت نہیں۔جبکہ اشترکیت نے جن اقدار کو اپنے منشور میں بڑھا چڑھا کر پیش
کے انکے مطابق ایک فرد کی اجتماع کے سامنے کوئی اہمیت و حیثیت ہی نہیں ہے۔
اس لئے انفرادی سطح پر ایک فرد کتنی بھی امتیازی خوبیوں کا حامل کیوں نہ ہو
اور دوسروں کی بہ نسبت کتنا بھی زیاہ محنت کش اور سخت کوش ہی کیوں نہ ہو
اسی وہی کچھ ملے گا جو ایک غبی ذہن ، سست ، اور کام چور کے حصے میں آئے
گا۔اور اسی چیز کو یہاں پر مساوات کا نام دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً سرمایہ
دارانہ نظام نے ایک انسان کو ’’خود غرضی اور خود خواہی ‘‘کے اس سحرا میں لا
کھڑا کر دیا کہ جہاں اسے اپنی ذات کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔وہ خواب و
بیداری کی حالت میں صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے ۔جبکہ دوسری جانب
اشتراکیت نے’’حبِ ذات‘‘جیسی فطری اور بنیادی جبلت پر کا ری ضرب لگاکرایک
فرد کو’’ بے غرضی اور بے التفاتی‘‘کی جھکڑ بندیوں میں قید کر کے رکھ دیا
۔اس افراط وتفریط سے مبراء اسلامی نظام ِ معاشرت میں اگرچہ ایک فرد کو
انفرادی طور پر کوئی قدغن نہیں ہے کہ وہ مادی ا ور معنوی اعتبار سے اوجِ
کمال تک پہنچے۔لیکن اس کا اوج کمال تک پہنچنا اسی صورت میں قابلِ تعظیم و
تکریم ہے جب اس نے فلا ح و کمال کے راستے پر گامزن رہنے کے ساتھ ساتھ دیگر
افراد کو بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دی ہو۔اور انہیں و قتاً فوقتاً ہر
لازمی کمک و امداد بہم پہنچائی ہو۔اسلامی اصول کی رو سے ’’خود غرضانہ
نیکی‘‘ بھی کو ئی وقعت نہیں رکھتی۔ یعنی اگر کوئی شخص محض یہ چاہے کہ وہ
تمام تر نیکیوں کو اپنے دامنِ کردار میں سمیٹے اور اپنے معاشرے کے ساتھ اس
کا کوئی سروکار نہ ہو تو چاہے وہ کوہ ہمالیہ جیسی نیکیاں کیوں نہ اپنے ارد
گرد جمع کرے اسے کسی قسم کی جزا نہیں ملنے والی۔
خداوندعالم نے قرآن کریم میں ایک بہترین اور مثالی انسانی معاشرے کا خاصہ
بیان کیا ہے کہ اس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کو برائیوں سے روکتے ہیں اور
اچھائیوں کی دعوت دیتے ہیں۔اور اسی بنیاد پر امت مسلمہ کو بہتریں امت قرار
دیا ہے۔چنانچہ خداوند عالم امت مسلمہ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ’’ تم
بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں
کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔
آیت اﷲ ناصر مکارم شیرازی تفسیر نمونہ میں درج بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ ’’اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ امت کے بہترین ہونے کی
دلیل کو امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور خدا پر ایمان بیان کیا گیا ہے اور
اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ''خدا پر
ایمان'' کے اوپر مقدم کیا ہے ، تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ان دونوں فرائض
کے بغیر دلوں میں خدا پر ایمان کی بنیادیں سست ہوجاتی ہیں اور اس کے ستون
گر جاتے ہیں ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ خدا پر ایمان انہی دو فریضوں
پر استوار ہے ۔ جس طرح معاشرہ کے تمام امور کی اصلاح بھی انہی دونوں کے
اوپر استوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو زندہ کرنے والوں کو زمین پر خدا کا
نمائندہ ، پیغمبر اور کتاب کا جانشین کہا ہے :
حضرت علی علیہ السلام نے دوسرے تمام فرائض سے مقایسہ کرتے ہوئے ان دونوں
فرائض کی بہت زیادہ اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
تمام نیک کام یہاں تک کہ خدا کی راہ میں جہاد بھی امربالمعروف اور نہی عن
المنکر کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے دریا کے سامنے انسان کا لعاب دہن۔‘‘
نہ صرف معاملات بلکہ عبادات میں بھی اجتماعیت کا ایک واضع تصور ہے۔ کسی بھی
عبادت پر غور و فکر کریں ہر عبادت میں جماعت و اجتماع کی کوئی نہ کوئی صورت
دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے نماز اگر ایک جانب فرد کا خالق کے ساتھ راز و
نیاز کا نام ہے۔ مگر اسی نماز کے ذریعہ جماعت کا خوبصورت گلدستہ بھی روحِ
عبادت کو معطر کردیتا ہے۔سورہ حمد جس کی تلاوت ہر نماز گزار کرتا ہے ۔اس
سورہ میں ایک بندہ جب خدا سے مخاطب ہو کر اس کی ربوبیت کا اقرار کرتا تو وہ
یعنی چاہے ایک اکیلا ہی نماز کیوں نہ ادا کر رہا ہو۔وہ بھی’’ ایاک نعبد
وایاک نستعین‘‘جیسی آیات میں چند ایک جمع صیغے ادا کر تا۔صاحبِ تفسیر نمونہ
اس بات کی وضاحت خوبصورت انداز میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ (جمع کے
صیغے)اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصاً نماز کی اساس جمع و
جماعت پر رکھی گئی ہے یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنے راز و نیاز کے لئے
کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اپنے آپ کو جماعت و اجتماع کے ساتھ شمار کرے
چہ جائے کہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔ اس بنا پر ہر قسم کی انفرادیت
،علٰیحدگی ،گوشہ نشینی اوراس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود
قرار پاتی ہیں۔‘‘
روزہ ایک ذاتی اور انفرادی عمل ہونے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے اجتماعی عمل
کے ساتھ گہرا ربط و تعلق رکھتا ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک خاص اور
مقررہ وقت میں روزہ فرض کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک مسلمان ایک ماہ
میں روزہ رکھے اور دوسرا مسلمان دوسرے ماہ میں روزے کی سعادت سے مستفید ہو۔
اس کے علاوہ علماء نے روزہ دار کی گرسنگی اور تشنگی کے متعلق یہ خوبصورت
اور معنی خیز توجیہ بھی پیش کی ہے کہ روزے دار ے فاقوں کا ایک مدعا یہ بھی
ہے کہ اس کے دل میں دوسرے فاقہ کشوں اور محتاجوں کے متعلق احساس ہمدردی جاگ
اٹھے۔ اسی طرح حج تو سراسر اجتماعیت کا آئینہ دار ہے۔ حج تمام ذاتی و
انفرادی رنگ و ڈھنگ کے لباس کو اتار کر اجتماعی یعنی الہٰی رنگ میں رنگ
جانے کی بہترین مثال ہے اسی رنگ کو ’’صبغتہ اﷲ‘‘ قرآنی اصطلاح میں کہا گیا
ہے۔
وجوبِ صیام کے متعلق ایک معروف آیت جو زبان زد عام و خاص ہے میں خداوند
تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کی فرضیت ساتھ ساتھ اس کے مدعا و مقصد سے بھی
آگاہ فرماتا ہے۔
یا اَیھاَّْ الَّذینَ آمَنْوا کْتِبَ عَلَیکْمْ الصِّیامْ کَما کْتِبَ
عَلَی الَّذینَ مِن قَبلِکْم لَعَلَّکْم تَتَّقْونَ (آیت ۱۸۳سورہ بقرہ)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو
تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔
اسی آیت سے ملتیں جلتیں اور دو آیتیں قصاص کے متعلق قرآنِ کریم میں موجود
ہیں۔اور وہ دو آیتیں بھی سورہ بقرہ میں ہی درج ہیں۔چنانچہ خداوند تعالیٰ
فرماتا ہے کہ
یاایھا الذین آمنوا کتب علیکم القصاص فی القتل ۔الحر بالحر والعبد بالعبد
والانثیٰ بالانثی۔۔۔۔۔ ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب لعلکم
تتقون(البقرہ ۱۷۸،۱۷۹)
اے ایمان والو! مقتولوں میں برابری کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے، آزاد بدلے
آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے۔
اور قصاص(یعنی ناحق خوں کا بدلہ لینے ) میں تمہار ی زندگی ہے۔اے
عقلمندو!تمہیں تقویٰ و پرہیز گاری کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔
ان تین آیات پر ایک ساتھ غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلی آیت جس
میں روزہ کا حکم وارد ہوا ہے ۔ روزوں کوانسان کے باطنی تقویٰ، طہارتِ نفس
اور قلبی پاکیزگی کا ذریعہ قرارا دیاگیا ہے اورمختلف قسم کے روحانی امراض
کاعلاج روزوں میں موجود ہے۔دوسری جانب دیگر دو آیات ِمبارکہ میں ایک
تعزیریعنی قصاص کے ذریعے انسانی جان کی حفاظت کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ جس
سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ایک حفاظتی
ڈال کی ضرورت ہے۔انفرادی سطح پر اسے نفسانی خواہشات اور شیطان کے خفیف
یورشوں کا سامنا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی ان افراد کے ظلم و زیادتی کا
شکار ہو سکتا ہے کہ جو اپنی انانیت کو برقرار رکھنے کے لئے دوسروں کے جان و
مال کو غارت کرنے کی حد تک جا سکتے ہیں۔خواہشات ِ نفس کے پیدا کردہ ان
مفاسد کے خاتمہ کے لئے روزہ اوراسی جیسی دیگرریاضتیں سمِ قاتل ہیں۔جو انسان
کے قلب و روح کی دنیا میں اچھے میلانات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور قانونِ
قصاص معاشرے میں ان فاسد عناصر کے سر پر لٹکتی تلوار کی مانند ہے کہ جو
حقیر مفادات کے لئے قیمتی انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے کی حد تک جا سکتے
ہیں۔
بہ نظر غائر ددیکھا جائے تو عبادتِ الٰہی اور خوف ِ خدا کا مدعا و مقصد بھی
یہی ہے کہ ایک عبادت گزار بندہ مخلوقِ خدا کے لئے جابر وظالم نہ بن جائے
۔ورگرنہ خدا وند جبار کو اسکی عبادت اور تقویٰ سے کوئی فرق نہیں پڑنے
والا۔ان کا براہِ راست اور مثبت اثر عبادت گزار اور تقویٰ شعار بندے کی
زندگی پر پڑتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ مخلوقِ خدا بھی اسے کسی قسم کے دکھ
اور تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتی۔بالفاظِ دیگر خوفِ خدا کا مدعا و مقصد یہ ہے
کہ خوفِ خدا سے آراستہ مومن سے مخلوقِ خدا بے خوف رہے۔وہ ہر اعتبار سے نہ
صرف دیگر انسانوں کے لئے حلیم وشفیق ثابت ہو جائے۔بلکہ ہرذی حیات اس کے شر
سے محفوظ ہو۔بصورت دیگر اس کی عبادتوں اور ریاضتوں کا کوئی فائدہ ہی نہیں
ہے۔چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ’’ رسولِ خداؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ
فلاں شخص دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات عبادت میں گزار دیتا ہے لیکن بد
اخلاق ہے ، اور ہمسایوں کو ستاتا ہے ،تو آنحضرت ؐ نے فرمایا: اس شخص میں
کوئی اچھائی نہیں، وہ جہنمی ہے ‘‘
(میزان الحکمہ جأ۳ ص ۱۵۴ بحوالہ آداب معاشرت ۔۔ ناشر تنظیم المکاتب لکھنو)
مسجد سے نکلا ہوا عابدانسانی معاشرے کے تئیں اگر سودمند نہ ہو تو جان لیجئے
کہ وہ عادتاً مسجد جایا کرتا ہے۔کیونکہ مسجدیں دراصل وہ انسان ساز کار خانے
ہیں جہاں انسانی معاشرے کی تعمیر کے بہترین اکائیاں فراہم کی جاتی ہیں۔
اسلامی معاشرے کی بنیاد تو حید کے محکم اور مستحکم تصور پر رکھا گیا
ہے۔لہذا اسلامی معاشرے کی اصل بنیاد عقیدۂ توحید پر ہی ہے۔ توحید یعنی تمام
کائنات کاا یک اور واحدخالق و مالک جس نے تمام کائنات کو بنایا ہے۔ اور
انسان کیلئے کائنات کی تمام اشیاء کو مسخر کردیا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ نہ
صرف اپنے خالق کے ساتھ عبادت و ریاضت کے ذریعے رابط قائم کرے بلکہ اپنے
بہترین معاملات کی بنیاد پر اپنے جیسے دیگر انسانوں کے ساتھ بھی مرتبط
رہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اس وقت ظلم و تعدی
کے ساتھ پیش آتا ہے کہ جب اسے یہ گمان ہو کہ وہ نہایت ہی بہادر اور طاقت ور
ہے اور تکبر کے نشے میں چور وہ ظلم و زیادتی میں جا نکلتا ہے ۔ اس کے برعکس
عقیدہ ٔتوحید ایک مومن کو یہ باور کراتا ہے کہ ایک انسان کتنا ہی بڑاذی
اقتدار،ذی اختیار اور صاحبِ جاہ و حشم کیوں نہ ہو وہ خدائے کبیر و قادرکی
بارگاہ اپنے آپ کو ذلیل و پست سمجھے ۔نتیجتاًبنی آدم کے درمیان اونچ
نیچ،ذلت و عزت،صغیر وکبیر ،قدرتمندو کمزور کے تئیں عامیانہ تصور مٹ جاتا
ہے۔چنانچہ قرآن مجید ایک آیت کے ذریعے عالمی سطح پر انسانی برادری کی تشکیل
کا اعلان یوں کرتی ہے۔
یاایھاالناس انا خلقنکم من ذکر و انثیٰ و جعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوہٰ
انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر ہم نے تم
میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
اس آیت کا پہلا ہی حصّہ یعنی ’’انسانو ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور ایک عورت
سے پید ا کیا ہے‘‘ تمام انسانوں کو عالمی برادری تشکیل دینے کی دعوت ہے۔
اور اس کی معقول اور ٹھوس وجہ بھی بتائی گئی ہے۔ کہ خلقت کے اعتبار سے تمام
انسانوں کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ اور دوسرے حصّے میں انسانیت کی قبائلی ، نسلی
اور صنفی کثرت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی غرض و غایت
بھی بتائی گئی ہے کہ قبائل و گروہ میں انسانوں کو بانٹنے کی غرض محض ان کی
شناخت و پہچان کو برقرار رکھنا ہے۔
اس آیہ ٔ مبارک کے ضمن میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں افراد
کے مابین آپسی روابط کا انحصار آپسی بھائی چارے پر ہے۔ کیونکہ خلقت کے
اعتبار سے یہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہاں مساوات ہی مساوات ہے۔ تمام
انسان پیدائشی طور پر مساوی اور برابر ہے۔ کسی انسان کو کسی انسان پر
پیدائشی طور پر برتری حاصل نہیں ہے۔ ظاہر ہے جب مساوات ہر طرف کارفرماء ہو
تو بنی آدم کے مابین رشتۂ اخوت و محبت استوار ہوگا۔ جہاں کہیں ذات پات ،رنگ
و نسل وغیرہ کی اونچ نیچ کی آمیزش ہوئی وہاں پر نفرت اپنے آپ ہی سرابھاتی
ہے۔
|