افراد سے قوم بنتی ہے اور قوم سے ادارے بنتے ہیں۔ان کے
لئے ایک مظبوط ریاست کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔اگر خدانخواستہ ریاست کا وجود
خطرے میں پڑ جائے تو ان عناصر کا وجود بے معنی تصور کیا جاتا ہے۔یہ ریاست
کے محتاج ہوتے ہیں لیکن ریاست انکی محتاج نہیں ہو سکتی ۔
اور موجودہ حالات میں کچھ نادان کار فرماؤں کی مرہون منت ریاست مشکل
صورتحال کا شکار نظر آتی ہے۔لیکن وہی نادان خیر خواہ خواب غفلت میں ہیں ۔
اس ریاست کو پے درپے تجربات نے بہت نقصان دیا ۔بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ نہ
تو ماضی سے کچھ سیکھا گیا،نہ ہی مستقبل میں اس طرح کی کوئی روش اپنائی جانے
کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔
سیاستدانوں کا کام ریاستوں کو اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر،ذاتی
رنجشوں سے بالاتر رہ کر ریاست کے فرائض کو بخوبی نبھانا ہوتا ہے۔یہاں پر
بھی مایوسی کی لہر کا سامنا ہے ریاست کو ،کیونکہ جب ذاتی عناد بڑھ
جائے،جہاں غلط اور صحیح کا فرق مٹ جائے وہاں ریاست کا کردار کہاں رہ جاتا
ہے۔
وقت بہت تیزی سے گذرتا جا رہا ہے موجودہ سیاسی منظر نامہ ہر آنے گذرنے والے
دن کیساتھ ہر ہاتھ سے پھسل رہا ہے ۔ریاست کے تمام ستون ایک بند گلی کیطرف
بڑھتے جا رہے ہیں۔
اس بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کیوجہ سے پاکستان کو درپیش چیلنجزز میں بے
شمار اضافہ ہو چکا ہے۔ملک میں ایک عجیب طرح کی خوف کی فضاء بن چکی ہے۔اس
معاشرے کا ہر فرد ایک ان دیکھے خوف کے حصار میں جکڑا ہوا نظر آ رہا ہے ۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ کوئی بھی ذی شعور ان حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے
معاملات کو بنانے میں مثبت کردار ادا کرنے کےلئے تیار نہیں۔
بد قسمتی سے ریاست کے رہنے والوں میں اکثر زمہ دار شخصیات نے ہمیشہ سے اپنا
کردار اس وقت ادا کیا جب طوفان گذر جاتا ہے۔ہر طرف تباہی کے آثار ا چکے
ہوتے ہیں ۔
ممکنہ صورتحال میں جو بد اعتمادی اداروں کے درمیان حائل ہو چکی ہے۔یہ دھند
صاف کرنے کے لیے اس ریاست کے ہر اسٹیک ہولڈر کو بہت بڑے دل کا مظاہرہ کرنے
کی ضرورت ہے۔
ورنہ یہ جو خاموشی ہے خدانخواستہ یہ کسی بڑے طوفان کا بیش خیمہ ثابت نہ ہو
۔
اداروں کی عزت و تکریم کو ریاست کی عزت و تکریم خیال کیا جاتا ہے ۔ ریاست
پر اپنی جاں نچھاور کرنے والوں کا مقام شہادت کے درجے پر شمار ہوتا ہے۔ذندہ
قومیں کبھی بھی اپنوں شہداء کے احسانات کو نہیں بھلا سکتیں ۔کامیاب معاشرے
میں تنقید برائے تنقید نہیں ہوتی بلکہ اس تنقید میں اصلاح کے پہلو ہوتے
ہیں۔اس طرح کے معاشرے میں صحافتی زمہ داری نبھانے والے افراد غائب نہیں
ہوتے تاکہ معاشرہ خوف کی فضاء میں نہ جکڑا جائے ۔
حالات کو ،سیاسی منظر نامہ کو،اعتماد کے ماحول کو اور اداروں کی ساکھ کو
بحال کرنے کے لیے مثبت اقدام کی شدید ضرورت ے۔یہ نہ ہو کہ وقت کی تیز دھار
اور انار کی کسی طوفان کیطرح سب کچھ بہا کر نہ لے جائے ۔
کہیں ایسا نہ ہو جو اس ریاست کے پہلے دن سے مخالف تھے وہ اپنے مفادات کی
خاطر اس آگ کو ایسی چنگاری نہ دکھا دیں کہ یہ آگ قابو سے باہر ہو جائے ۔
اس ریاست کا ہر ذی شعور فرد محب وطن کے جذبے سے سرشار ہے۔کبھی اگر ریاست کے
کسی بگڑے بچے سے کوئی غلطی سرذد ہو ہو جائے تو اس کو موقع فراہم کرنا چاہیے
کہ ،وہ اپنی اس غلطی کی اصلاح کر سکے ۔
نہ کہ اس کو کسی باغی گروہ کیطرف دھکیل دیا جائے جہاں سے واپسی ناممکن
ہوجاۓ۔دنیا کی ناکام ریاستیں اپنے دشمنوں کی فہرست میں اضافہ کرتی ہیں۔اور
کامیاب ریاستیں دوستوں کی فہرست کو بڑھاتی ہیں
|